Sunday, October 14, 2018

TRANSLATION: White-collar crime by Dr. Farrukh Saleem

White-collar crime
جرم کہانی: خاص لوگوں کے کرتوت!
اَنگریزی زبان میں ’وائٹ کالر کرائم‘ کی اِصطلاح ایسے جرائم کے لئے استعمال کی جاتی ہے‘ جن کا اِرتکاب معاشرے کے معززین کرتے ہیں۔ خاص لوگ جب خصوصی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں تو اِس سے معاشرے میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں یہ منفی تاثر بھی شامل ہوتا ہے کہ عام آدمی کا قانون‘ قانون کے ذریعے انصاف تک رسائی کے عمل اُور بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار و کارکردگی سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ ’وائٹ کالر کرائم‘ کرنے والے اپنی سماجی اور قانونی حیثیت سے غلط (ناجائز) فائدہ اٹھاتے ہوئے اجتماعی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ اِس طریقۂ واردات کی تین نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں اور اِس میں دیگر جرائم کی طرح تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ اِس قسم کے جرائم کا تعلق زیادہ تر مالی معاملات (خردبرد یا بدعنوانی) سے ہوتا ہے اُور اِس کا ارتکاب کرنے والی سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز یا کاروباری شخصیات ہوتی ہیں لیکن یہ عمومی تاثر کہ خصوصی افراد کی جانب سے جرائم پرتشدد نہیں ہوتے‘ سوفیصد درست نہیں کیونکہ تشدد کی تعریف محدود پیمانے پر مختصر کی جاتی ہے۔ اگر ہم تشدد کی اصطلاح کو کھول کر بیان کریں تو صورتحال واضح ہو جائے گی۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال 2لاکھ90 ہزار ’’نومولود بچے‘‘ دنیا میں آنے کے پہلے ہی مہینے مر جاتے ہیں۔ اس کے علاؤہ 1 لاکھ 75 ہزار پاکستانی بچے ہر سال اِس لئے مر جاتے ہیں کیونکہ اُن کی پیدائش وقت سے پہلے ہو جاتی ہے اُور 53 ہزار پاکستانی بچوں کی ہلاکت ایسی بیماریوں سے ہوتی ہے جو پینے کا صاف پانی میسر نہ آنے کے سبب ہوتا ہے۔ یہ حقیقت نہایت ہی تکلیف دہ ہے کہ پاکستان دنیا میں ’نومولود بچوں‘ کے لئے نہایت ہی پرخطر ملک ہے۔

کیا ’وائٹ کالر کرائم‘ واقعی پُرتشدد نہیں ہوتے؟ اسلام آباد ائرپورٹ کی مثال لیں۔ اِس ترقیاتی منصوبے کی لاگت کا کل تخمینہ 23 ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن جب اِس کی تکمیل ہوئی تو 100 ارب خرچ ہو چکے تھے یعنی ’’77 ارب روپے‘‘ زیادہ خرچ ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’77 ارب روپے‘‘ کتنے ہوتے ہیں؟ سرطان (کینسر) کا علاج کرنے کے لئے ایک شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال تعمیر کرنے کے لئے ’’4 ارب روپے‘‘ درکار ہوتے ہیں یعنی ’’77 ارب روپے‘‘ سے پاکستان کے طول و عرض میں 19 ایسے ہسپتال قائم ہو سکتے تھے‘ جہاں کینسر سے متاثرہ مریضوں کا علاج معالجہ ممکن ہوتا۔

سوال یہ ہے کہ ’’77 ارب روپے‘‘ کتنے ہوتے ہیں؟ سٹیزن فاؤنڈیشن نامی ایک غیرسرکاری‘ غیرمنافع بخش تنظیم پاکستان میں تعلیمی ادارے قائم کرتی ہے۔ اِس تنظیم کے زیرانتظام پاکستان کے کسی بھی حصے میں ایک ’’پرائمری سکول‘‘ کی تعمیر کے لئے کل ’1 کروڑ 70 لاکھ‘ روپے درکار ہوتے ہیں یوں ’’77 ارب روپے‘‘ سے پاکستان کے طول و عرض میں ’’4500 پرائمری سکول‘‘ قائم کئے جا سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ’’77 ارب روپے‘‘ کتنے ہوتے ہیں؟ سال 2016-17ء مرتب کردہ سرکاری اَعدادوشمار (پاکستان ایجوکیشن اِسٹے ٹسٹکس رپورٹ) کے مطابق ’’پاکستان میں 2 کروڑ 28 لاکھ (22.84 ملین) سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ’’ 77ارب روپے‘‘ سے 50 لاکھ بچوں کو تعلیم دی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں ’ایف آئی اے‘ اور ’نیب‘ نامی وفاقی ادارے ملک سے ’وائٹ کالر جرائم‘ کا خاتمہ (انسداد بدعنوانی) کرنے کے لئے ذمہ دار ہیں لیکن اگر ہم اِن اداروں کے تفتیشی اور تحقیقی طریقۂ کار (کارکردگی) کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’ایف آئی اے‘ کا جرائم کی تہہ تک پہنچ کر ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں حاصل ہونے والی کامیابی کی شرح صرف 6.6 فیصد ہے۔ سال2017ء میں ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کو 26 ہزار 551 بدعنوانی کی شکایات موصول ہوئیں‘ جن میں سے 456 شکایات پر کاروائی کی گئی جو کہ کل موصول ہونے والی شکایات کا 2 فیصد بنتا ہے۔ جن 456 شکایات پر کاروائی کی گئی اُن میں سے بھی صرف 215 کے حوالے سے تحقیقات ممکن ہوئیں اُور اِن 215 میں سے صرف 112 کو سزا ہو سکی!

سوال: کیا نیب کا ادارہ اپنے ’بنیادی مقصد‘ کے مطابق (خاطرخواہ) کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے؟ جواب: شاید نہیں۔ نیب کی کارکردگی محدود ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اِس ادارے کی صلاحیت محدود ہے اور اِسے زیادہ افرادی مالی اور تکنیکی وسائل کی ضرورت ہے۔ ’نیب‘ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اِس کے فیصلہ سازوں کی نیت (ارادہ) اور صلاحیت (عمل) دونوں ہی ضروری ہیں۔ مجھے نیب یا ’ایف آئی اے‘ حکام کی نیت میں تو کوئی شک نہیں لیکن اِنہیں حاصل وسائل اور اِن اداروں کی صلاحیت ضرور ایک ایسی رکاوٹ ہے‘ جس کی وجہ سے کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں ’وائٹ کالر کرائم‘ کرنے والوں کو سزائیں دلوانا آسان نہیں اور جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو یہ عمل زیادہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
’وائٹ کالر جرائم‘ قاتل ہیں اور یہ پاکستان میں ترقی و تبدیلی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوانین کے مطابق سزائیں دلوانے کے لئے جس عمل سے گزرنا پڑتا ہے اُس میں بااثر عناصر مختلف وسائل کا استعمال کرتے ہوئے یا تو صاف بچ نکلتے ہیں یا پھر اپنے جرائم کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہونے نہیں دیتے۔ اِس مسئلے سے نمٹنے کے لئے نیب اور ایف آئی اے کی صلاحیت و استعداد میں اضافہ ناگزیر ہے جو قلیل اور طویل مدتی اصلاحات کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ قلیل مدتی حل کے لئے عمومی اُور روائتی سے ہٹ کر کوئی متبادل (آؤٹ آف باکس) حل ڈھونڈنا ہوگا۔ وائٹ کالر کرائم (خصوصی جرائم) ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے خاص افراد سے نمٹنے کے لئے ’خاص حکمت عملی‘ وضع کرنا ہوگی۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

2 comments:

  1. White-collar crime is a “crime committed by a person of respectability and high social status in the course of his occupation”. White-collar crime is said to have three characteristics: it is non-violent; it is financially motivated; it is committed by “business and government professionals”.
    Is white-collar crime really ‘non-violent’? Violence is defined as “behaviour involving physical force intended to hurt, damage, or kill someone or something”. For the record, the government of Pakistan buys goods and services worth $60 billion or Rs7.5 trillion a year every year. Estimates vary, but around 50 percent of Rs7.5 trillion is siphoned off by white-collar criminals.

    Is white-collar crime really ‘non-violent’? Here’s the record: 290,000 newborn Pakistanis die every year before the end of their first month; 175,000 Pakistani children die annually due to premature birth; and 53,000 Pakistani children die of diarrhoea caused by contaminated water every year. Pakistan is the “riskiest country for newborns – riskiest in the world”.

    ReplyDelete
  2. Is white-collar crime really ‘non-violent’? Take the New Islamabad International Airport as an example. The original cost estimate was Rs23 billion. The total amount spent was Rs100 billion. Just how much is Rs77 billion? The cost of building Shaukat Khanum Memorial Cancer Hospital and Research Centre was Rs4 billion. With Rs77 billion, 19 such hospitals can be built all through Pakistan.

    Just how much is Rs77 billion? The Citizens Foundation – Pakistan’s “largest non-profit, privately owned networks of low-cost formal schools” –builds a primary school at a cost Rs17 million. With Rs77 billion, we can build 4,500 such schools.

    Just how much is Rs77 billion? According to the Pakistan Education Statistics 2016-17, there are “22.84 million [Pakistani] children still out of school”. With Rs77 billion, we can educate more than five million Pakistani children.

    In Pakistan, the FIA and NAB are the agencies responsible for prosecuting white-collar criminals. The conviction rate at the FIA is 6.6 percent. In 2017, a total of 26,551 complaints were filed with NAB, of which 456 complaints (two percent of the total) were taken to the ‘inquiry stage’. Of the 456 ‘inquiries’, 215 were ‘investigated’. Of the 215 ‘investigations’, a total of 112 were convicted.

    Question: Can NAB deliver on its mandate? Answer: Probably not – not without massive capacity enhancement. Question: Can the FIA deliver? Answer: Probably not – not without massive capacity enhancement. In order to deliver the two requirements are: intention plus capacity. I have no doubt in my mind that the intention exists – both at NAB and the FIA. The problem is that of capacity – both at NAB and the FIA. Yes, sentencing white-collar defendants is extremely challenging around the world – and more so in Pakistan.

    White-collar crime kills but “prosecutors fear prosecuting powerful defendants”. What then is the solution? One, wholesale capacity enhancement of NAB and the FIA. Or, an alternative out-of-the-box, non-conformist solution. To be certain, capacity enhancement takes place over the medium to long-term. For results over the short term, a solution that is beyond what is considered ‘usual, traditional or conventional’ must be found.

    ReplyDelete