Alarm bells
خطرے کی گھنٹیاں
خطرے کی پہلی گھنٹی: پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ زرمبادلہ کا ذخیرہ ’’11 ارب ڈالر‘‘ تک جا پہنچا ہے۔ اِس حقیقت کی روشنی میں کیا یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ پاکستان اقتصادی بحران سے دوچار ہے؟ اصطلاحی طور پر ’اقتصادی بحران‘ ایسی صورتحال کو کہا جاتا ہے جس میں حکومت کے پاس جاری اخراجات کے لئے مالی وسائل نہ ہوں۔ خام قومی پیداوار میں کمی ہو اُور ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھتی چلی جائے۔
پہلا سوال: کیا پاکستان کے پاس جاری اخراجات کے لئے مالی وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں؟
دوسرا سوال: کیا پاکستان کی قومی پیداوار مائل بہ بحران ہے اور خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافہ یا کمی ہو رہی ہے؟
تیسرا سوال: کیا پاکستان میں قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھ رہی ہے؟
یاد رہے کہ پاکستان کے کل قومی وسائل ’11ارب ڈالر‘ کمی سے دوچار ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جاری اَخراجات کے لئے بھی مالی وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ پاکستان کے پاس ’اَمریکی ڈالروں‘ کی صورت ’زرمبادلہ کے ذخائر‘ ختم ہو چکے ہیں۔ 30نومبر (دوہزار اٹھارہ) کے روز ’اِسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 7265 ملین ڈالر تھے جبکہ پاکستان کی ایک سال (12ماہ) کے جاری اخراجات کے لئے قریب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو ’7 ارب ڈالر‘ کمی کا سامنا ہے۔
پاکستان کی اقتصادی صورتحال ہنگامی بلکہ ایک خطرناک دور سے گزر رہی ہے۔ سال 2013ء میں ’عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف‘ نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 7 ارب ڈالر کی کمی ہے۔ سال 2008ء میں ’آئی ایم ایف‘ نے 2 ارب ڈالر کمی سے مطلع کیا تھا۔ تصور کیجئے کہ فی الوقت پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں 11ارب ڈالر کی کمی واقع ہو چکی ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ہر ماہ ’2 ارب ڈالر‘ کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ چین نے جولائی (دوہزاراٹھارہ) کے مہینے میں ’’1ارب ڈالر‘‘ کا قرض دیا تھا جو کب کا خرچ ہو چکا ہے۔ پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے بھی ’’1 ارب ڈالر‘‘ ملے لیکن ’نومبر (دوہزاراٹھارہ)‘ تک یہ رقم بھی خرچ کر دی گئی۔ کیا پاکستان کی حکومت کے پاس ایسا کوئی مالی انتظام ہے کہ اِسے دوست ممالک سے مالی امداد کی ضرورت نہ پڑے اور یہ اپنے مالی نظم و ضبط کے بل بوتے پر اپنی آمدنی کے وسائل کو ترقی دے؟
خطرے کی دوسری گھنٹی: پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی گئی ہے لیکن اِس حکومتی کوشش کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی کی گئی ہے جبکہ ’نومبر 2017ء‘ کے دوران پاکستان کی برآمدات میں ’1.968 ارب ڈالر‘ اُور ’نومبر 2018ء‘ میں ’1.843 ارب ڈالر‘ کمی دیکھنے میں آئی۔ مجموعی طور پر برآمدات میں 6 فیصد کمی آئی۔ حکومت نے دوسری مرتبہ روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی کی جس سے نومبر 2018ء میں برآمدات 4.646 ارب ڈالر تک نیچے آ گئیں جبکہ یہ نومبر 2017ء میں ’4.758 ارب ڈالر‘ تھیں۔ برآمدات میں اِس مسلسل کمی اور حکومت کی جانب سے اِس خسارے کو روکنے کی کوششیں خاطرخواہ کامیاب نتائج نہیں دے پائی ہیں۔ اِس صورتحال سے صاف ظاہر ہوا ہے کہ حکومت کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی جیسی کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
خطرے کی تیسری گھنٹی: اگست 2018ء میں پاکستان کے قومی بجٹ کا خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 2.26کھرب روپے کو چھو رہا تھا۔ یہ خسارہ مجموعی قومی آمدنی کا 6.6 فیصد ہے۔ حکومت مشکل اقتصادی فیصلوں کی بجائے آسان فیصلوں کو ترجیح دے رہی ہے۔ جس کا نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سرکاری اداروں کا خسارہ حکومت کے لئے پریشانی کا باعث نہیں جس کے باعث مجموعی قومی پیداوار کا 10فیصد ضائع ہو رہا ہے۔حتیٰ کہ یہ صورتحال تشویش میں مزید اضافے کا باعث ہے کہ حکومت کے اخراجات میں کمی نہیں آ رہی اور حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں آمدنی کے مقرر کردہ اہداف بھی حاصل نہیں ہو رہے۔
خطرے کی چوتھی گھنٹی: اگست 2018ء میں پاکستان کا گردشی قرض 1.14 کھرب روپے تھا‘ جو بڑھ کر ’1.4 کھرب روپے‘ جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے یعنی گردشی قرضہ جات میں ہر دن ’1.8 ارب روپے‘ جیسا غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور جب تک یہ غیریقینی کے بادل چھٹ نہیں جاتے اُس وقت تک خاطرخواہ بہتر نتائج بھی برآمد نہیں ہوں گے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
No comments:
Post a Comment