Course correction
طرزحکمرانی: سمتِ سفر
ایک نہیں بلکہ دو ’اچھی خبریں‘ ایسی ہیں‘ جن کا ذکر ضروری ہے۔ 1: پاکستان کی برآمدات میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے اُور 2: پاکستان کے تجارتی خسارے میں 5 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ ہفتہ وار کالم لکھتے ہوئے راقم کو 20 برس ہو گئے ہیں جس کے لئے میں ’دِی نیوز (اَخبار)‘ کی اِنتظامیہ کا مشکور ہوں‘ جنہوں نے مجھے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے کیا لکھنا چاہئے۔ بیس برس ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اَلبتہ اِس عرصے کے دوران ہزاروں کی تعداد میں میری تحریریں شائع ہوئیں لیکن ’3 مرتبہ‘ ایسا ہوا کہ میرے کالم شائع نہیں کئے گئے۔
گذشتہ 20 سال کے دوران ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کی ذاتی ترجیحات قومی ضروریات کے مطابق ہیں۔ وزیراعظم دل سے چاہتے ہیں کہ پاکستان سے بدعنوانی (کرپشن) کا خاتمہ ہو اور غربت کا شکار 13 کروڑ ایسے پاکستانیوں کو غربت کی دلدل سے نکالا جائے جن کی آمدنی یومیہ 300 سے 400 روپے ہے لیکن اِس مقصد کے لئے حکومت کو ایک جامع اقتصادی حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔ جس کا انتخاب کرتے ہوئے یہ بات بھی یکساں اہم ہے کہ ماضی میں انسداد بدعنوانی اور غربت کے خاتمے کے لئے کی گئیں حکومتی کوششوں (مشقوں) کی ناکامی سے حاصل ہونے والے اسباق (نتائج) پر بھی نظر رکھی جائے۔
انسداد بدعنوانی کی مہمات (ماضی) میں پاکستان کو خاطرخواہ کامیابیاں حاصل نہیں ہوسکیں اُور اگر اِس مرتبہ بھی ’غیر روائتی انداز‘ اختیار نہ کیا گیا اُور ماضی ہی کی طرح انسداد بدعنوانی کی کوششیں کی گئیں تو اِس کے نتائج زیادہ مختلف برآمد نہیں ہوں گے۔ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی اقتصادی پالیسی میں بہتری لانے کے لئے ماضی کی حکمت عملیوں سے مختلف راستہ اختیار کرنا پڑے گا جو اگرچہ مشکل ہوگا لیکن اِس کے سوأ ’اِصلاح کی کوئی دوسری صورت باقی نہیں ہے۔‘
پاکستان کا گردشی قرض 1400 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ گردشی قرضوں کے اِس غیرمعمولی حجم کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 1100 ارب روپے ہے یعنی ہم پاکستان کے دفاع سے زیادہ گردشی قرضہ جات پر ادا کریں گے! گذشتہ 137 دنوں میں تحریک انصاف حکومت نے قومی قرضہ جات میں 260 ارب روپے کا اضافہ کیا ہے‘ جو 137 دنوں میں فی دن 2 ارب روپے بنتا ہے۔ چند برس قبل حکومت 1ارب روپے روزانہ قرض لے رہی تھی جو دگنا ہو چکا ہے۔ حکومت نے اقتصادی و معاشی محاذوں پر بہتری کے لئے ٹاسک فورسیز بنائی ہیں جن کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ لومڑیوں سے گوشت کی رکھوالی کراوئی جا سکے؟ بجلی (توانائی) کی عدم موجودگی میں کسی اقتصادی بہتری کا امکان نہیں ہو سکتا اور حکومت جو 2 ارب روپے یومیہ قرض لے رہی ہے‘ اُس کا استعمال توانائی کے پیداواری منصوبوں پر نہیں کیا جارہا۔ اِس سلسلے میں حکومتی ترجیحات کو درست کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں توانائی کے شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
سال 2013ء میں حکومتی اداروں (پبلک سیکٹر انٹرپرائزز) نے مجموعی طور پر 495 ارب روپے کا نقصان کیا۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے گذشتہ دور حکومت میں یہ نقصان 1100 ارب روپے تک جا پہنچا تھا‘ جو ’حسن اِتفاق‘ سے پاکستان کے دفاعی بجٹ کے مساوی رقم ہے۔ میرے خیال کے مطابق‘ تحریک انصاف حکومت کے پہلے پانچ ماہ کے دوران سرکاری اداروں کا خسارہ ’500 ارب روپے‘ ہے اور حکومت کے پاس ایسی کوئی پالیسی نہیں جس کے تحت اِن اداروں کے خسارے پر قابو پا سکے۔ حکومت نے ’سرمایہ پاکستان کمپنی‘ بنانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اِس قسم کے تجربات ماسوائے سنگاپور دنیا میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔
پاکستان میں کاروبار اقتصادی غیریقینی پر مبنی صورتحال کے باعث متاثر ہو رہے ہیں۔ روپے کی قدر آئندہ ماہ کیا ہوگی‘ اِس بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ برآمدکنندگان اشیاء کی بیرون ملک فروخت کے بعد سرمایہ پاکستان منتقل کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ پاکستنان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایسیسریز مینوفیکچررز کے چیئرمین اشرف شیخ کے بقول ’’بیروزگاری‘ بینک دیوالیہ اور آمدن میں کمی‘‘ جیسے مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔ 60 ارب روپے مالیت کے ٹریکٹر بنانیو الی یہ صنعت مشکل دور سے گزر رہی ہے‘ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی طرح نجی پیداواری ادارے بھی اقتصادی مسائل سے نمٹنے میں مشکلات سے دوچار ہیں‘ جنہیں کم کرنے کے لئے حکومت کو اپنے ’اقتصادی لائحہ عمل‘ میں تبدیلی لانا ہوگی۔
سال 2013ء میں اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ادارے کو مطلع کیا تھا کہ قومی خزانے سے 290 ارب روپے کی ایسی ادائیگیاں کی گئیں ہیں جو قوانین و قواعد کے خلاف ہیں لیکن یہ سلسلہ رک نہیں سکا اُور آج بھی جاری ہے! پاکستان کی حکومت جس بڑے پیمانے پر قرض لیکر ملک چلا رہی ہے ماضی میں اِس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر روپے کی قدر میں کمی کو شمار کرتے ہوئے موجودہ اور سابق سیاسی حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو مالی امور میں حکومت کی کارکردگی بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ گذشتہ 5 ماہ کے دوران 15 ارب روپے یومیہ کے حساب سے قومی قرض بڑھا ہے جو سابق دور حکومت (نواز لیگ) کے وقت 8 ارب روپے یومیہ اُور پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 5 ارب روپے یومیہ تھا۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Two pieces of good news: exports are up 15 percent and the trade deficit is down five percent. I have been writing a weekly column for the past two decades. I am thankful to the management of this newspaper because not once has it given me any direction whatsoever – not even once. Twenty years is a long time. I do, however, recall at least three instances over the past 20 years when the management refused to carry my column – three out of a thousand.
ReplyDeleteFor the first time over the past 20 years, we have a prime minister whose personal agenda is perfectly aligned with our national agenda. For the first time over the past 20 years, we have a prime minister who has a two-pronged agenda: getting rid of corruption and getting 130 million Pakistanis out of poverty (Pakistanis who earn between Rs300 and Rs400 per day). To begin with, we should never link economic policy with proceeds from anti-corruption. Our economic policy should never be dependent on the failure or success of our anti-corruption campaign.
So far, the anti-corruption campaign seems to be humming along. It is the economic policy that is taking us nowhere – and if you’re going nowhere, any road will take you there. Indecision is the “state of being unable to make a choice” or the “quality of being unable to make a decision or having a lot of difficulty in deciding something”.
Cost of indecision: The circular debt has hit Rs1,400 billion (our defence budget is Rs1,100 billion). Over the past 137 days, we have added to it a colossal Rs260 billion – that’s nearly Rs2 billion a day every day for the past 137 days. A few years ago, the same figure was Rs1 billion a day – and now it has doubled. Clearly, the taskforce-driven model –infested with serious vested interests – isn’t working. Can wolves guard the sheep? There’s no economy without the energy sector and at Rs2 billion a day there will be no energy sector. This calls for course correction.
ReplyDeleteCost of indecision: In 2013, public-sector enterprises (PSEs) collectively lost Rs495 billion. In the last year of the PML-N government, PSEs lost around Rs1,100 billion (coincidentally, that year our defence budget was also Rs1,100 billion). My conservative estimate is that over the past five months of the PTI government, PSEs have lost Rs500 billion. For the record, there’s no policy to control losses at PSEs. Yes, there’s the proposed Sarmaya Pakistan Company. The Sarmaya Pakistan Company-driven model is destined to fail because nowhere on the face of the planet – other than in Singapore – has it succeeded. And if you don’t know where you’re going, any road will take you there. This calls for course correction
Our businesses have stopped taking business decisions. Where will the rupee be next month? Importers have stopped taking business decisions. Exporters have stopped bringing back their export receipts. According to the Pakistan Association of Automotive Parts and Accessories Manufacturers (Paapam) Chairman Ashraf Sheikh, there will be “unemployment, bank defaults and revenue shortfall”. Paapam produces Rs60 billion worth of tractors. Our businesses are going nowhere – and if you’re going nowhere, any road will take you there. This calls for course correction.
Cost of indecision: In 2013, the accountant-general of Pakistan revenues (AGPR) informed the chairman of NAB that an amount of Rs290 billion had been disbursed as price-differential claims “in clear violation of constitutional and statutory provisions”. Not much has changed since. This calls for course correction.
Cost of indecision: We are taking on debt like never before. Over the past five months, we have been adding Rs15 billion a day to our national debt as compared with an average of Rs8 billion a day during the five years of the PML-N and Rs5 billion a day during the five years of the PPP (all figures include the devaluation impact).