? Is it working
طرزحکمرانی: خاطرخواہ نتائج؟
بیس اگست دوہزار اٹھارہ: سولہ رکنی وفاقی کابینہ نے حلف اٹھایا۔ اُس وقت (اگست دوہزاراٹھارہ) میں پاکستان کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 10 ارب ڈالر تھا۔ تب سے آج (مارچ دوہزار اُنیس) تک پاکستان 3ارب ڈالر ’سعودی عرب‘ اُور 2 ارب ڈالر ’متحدہ عرب امارات (یو اے اِی)‘ یعنی مجموعی طور پر 5 ارب ڈالر قرض لے چکا ہے۔ اِس حساب سے پاکستان کے خزانے میں 15 ارب ڈالر ہونے چاہیءں لیکن صورتحال یہ ہے کہ 8 مارچ 2019ء کے روز‘ ملک کے مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 8.1 ارب ڈالر ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمران بننے کے بعد اُن کے رویئے ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے لیکن اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے اور اعدادوشمار چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان کی اقتصادی بہتری کے لئے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے!
پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار کے آنے کے وقت (اگست 2018ء) میں ملک کا گردشی قرض 1.1 کھرب روپے تھا۔ 17 ستمبر 2018ء کو حکومت نے بجلی کے پیداواری شعبے میں اصلاحات متعارف کروانے کا فیصلہ کیا‘ اُور اِس مقصد کے لئے ایک ’ٹاسک فورس (task-force)‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ 20 اکتوبر 2018ء کے روز وفاقی حکومت نے ’خصوصی معاون برائے شعبۂ توانائی‘ مقرر کیا۔ اِس کوشش کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ نہ صرف توانائی کے پیداواری شعبے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے بلکہ اِس کی کارکردگی بھی بہتر بنائی جا سکے‘ جس سے ملک کو گردشی قرضے جیسے مسئلے سے مستقل نجات دلائی جائے لیکن گردشی قرض بڑھتا چلا گیا۔ جنوری 2019ء میں گردشی قرض کا حجم 1.4کھرب روپے تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے 137دن کے اندر گردشی قرضے میں 260 ارب روپے اضافہ ہوا جبکہ چند برس قبل تک گردشی قرض میں ہر روز 1 ارب روپے اضافہ ہو رہا تھا۔ سیاسی رہنماؤں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمران بننے کے بعد اُن کے رویئے ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے لیکن اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے اور اعدادوشمار چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان گردشی قرضے سے نمٹنے کے لئے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے!
سال 2000ء سے 2008ء کے درمیانی عرصے میں پاکستان اسٹیل ملز نے ’20 ارب روپے‘ منافع کمایا تھا۔ سال 2008ء اور 2013ء کے درمیان پاکستان اسٹیل ملز کا خسارہ 100 ارب روپے رہا یعنی اِس عرصے (سال 2013ء سے سال 2018ء) کے درمیان اسٹیل ملز نے 138 ارب روپے خسارہ کیا۔ فی الوقت (مارچ دوہزار اُنیس میں) ’پاکستان اسٹیل ملز‘ یومیہ 7 کروڑ (70ملین) روپے خسارہ کر رہی ہے اور یہ خسارہ کسی ایک دن نہیں ہوتا بلکہ سارا سال ہر دن سات کروڑ روپے کے حساب سے ہو رہا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمران بننے کے بعد اُن کے رویئے ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے لیکن اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے اور اعدادوشمار چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان ’اسٹیل ملز‘ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور خسارے سے نکالنے کے لئے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے!
سال 2013ء میں پاکستان کے تمام سرکاری اداروں (پبلک سیکٹر انٹرپرائزیز) کا مجموعی خسارہ 495 ارب روپے تھا۔ سال 2018ء میں یہ خسارہ بڑھ کر 1100 ارب روپے ہو گیا۔ ’پندرہ نومبر دوہزار اٹھارہ‘ کے روز ’وفاقی کابینہ‘ کے ایک اجلاس میں ’سرمایہ پاکستان کمپنی‘ کے نام سے ایک حکومتی ادارہ قائم کیا گیا۔ اِس ادارے کی کارکردگی کیا رہی یہ جاننے کے لئے پندرہ نومبر سے آج تک ہوئے سرکاری اداروں کے خسارے پر نظر ڈالیں تو اِس میں ماضی کے مقابلے ’500 ارب روپے‘ کا اضافہ ہوا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمران بننے کے بعد اُن کے رویئے ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے لیکن اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے اور اعدادوشمار چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان سرکاری اداروں کے خسارے کو کم کرنے کے لئے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے!
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ جولائی سے جنوری 2018ء کے مالی سال کے دوران پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری (foreign investment) کا حجم 4.1 ارب ڈالر رہا جبکہ جولائی سے جنوری 2019ء (تحریک انصاف کے دور حکومت میں) 1 ارب ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری پاکستان میں کی گئی! سیاسی رہنماؤں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمران بننے کے بعد اُن کے رویئے ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے لیکن اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے اور اعدادوشمار چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے کے لئے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس پر غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد نہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومتی کوششوں کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے!
کسی حکومت کی کارکردگی کا اصل احوال اِن دو امور سے چلتا ہے کہ اُس کے دور حکومت میں ملک کی مجموعی خام پیداوار میں کس قدر اضافہ ہوا‘ اُور اُس کے دور حکومت میں پاکستان کے ذمے واجب الادأ مالی ذمہ داریوں (قرضوں) کے حجم میں کس قدر کمی ہوئی۔ سال 2008ء‘ میں پاکستان کا قرض 6 کھرب روپے تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت کے دوران اِس میں اضافہ کرتے ہوئے 16 کھرب روپے کر دیا گیا یعنی پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں ہر دن 5 ارب روپے قرض لیا۔ سال 2013ء میں پاکستان کے ذمے کل قرض 16کھرب روپے تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے پانچ سالہ دور حکومت میں ہر دن 7.7 ارب روپے قرض لیا گیا جس سے مجموعی قومی قرض کا حجم 30 کھرب روپے تک جا پہنچا۔
خطرے کی گھنٹی: تحریک انصاف حکومت کے گزشتہ 7 ماہ کے دوران پاکستان کے ذمے غیرملکی قرضہ جات کے حجم ’’5.7 ارب ڈالر‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں پاکستان ماہانہ 814 ملین (81 کروڑ 40لاکھ) ڈالر کی شرح سے قرض لے رہا ہے جبکہ مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں ماہانہ ’556 ملین (55 کروڑ 60 لاکھ) ڈالر‘ قرض لیا جاتا رہا۔
جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان کے عوام نے ’تحریک انصاف‘ کو 5 سال حکومت کرنے کا اختیار (مینڈیٹ) دیا۔ کسی حکومت کی آئینی مدت 5 سال یعنی مجموعی طور پر 1825 دن بنتی ہے۔ اِس حساب سے موجودہ حکومت کے دور اقتدار کا آٹھواں حصہ مکمل ہو چکا ہے اُور اِس کے پاس کل آئینی مدت کے سات حصے باقی بچے ہیں لیکن مالی نظم و ضبط و اقتصادی بہتری کے لئے اب تک کئے گئے حکومتی اقدامات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
On August 20, 2018, sixteen members of the cabinet took oath of office. In August 2018, liquid foreign exchange reserves with the State Bank of Pakistan (SBP) stood at $10 billion. We have since borrowed $3 billion from Saudi Arabia and $2 billion from the UAE. Do the math – the sum comes to $15 billion. As of March 8, 2019, liquid foreign exchange reserves with the SBP stood at $8.1 billion. Figures do not lie. Whatever we are trying to do in this sector is not working.
ReplyDeleteIn August 2018, the accumulated stock of circular debt stood at Rs1.1 trillion. On September 17, the government “decided to constitute a task force on energy” with the objective of proposing reforms in the energy sector. On October 20, a special assistant on power sector was appointed “in a bid to develop a plan for bringing improvement and efficiency in the energy sector which has long been plagued with circular debt.”
By January 2019, the accumulated stock of circular debt had soared to Rs1.4 trillion. For the record, the PTI government added Rs260 billion in 137 days. For the record, the PTI government is adding Rs2 billion a day every day of the year (a few years ago, the same figure was Rs1 billion a day). Figures do not lie. No reforms. Things in this sector are getting from bad to worse. Whatever we are trying to do in this sector is not working.
From 2000 till 2008, profits earned by the Pakistan Steel Mills stood at Rs20 billion. Between 2008 and 2013, the Pakistan Steel Mills lost Rs100 billion. Between 2013 and 2018, the Pakistan Steel Mills lost Rs138 billion. Currently, the Pakistan Steel Mills is losing more than Rs70 million a day every day of the year. Figures do not lie. Whatever we are trying to do with the Pakistan Steel Mills is not working.
ReplyDeleteIn 2013, our public-sector enterprises (PSEs) lost a colossal Rs495 billion. By 2018, losses had gone up to Rs1,100 billion. On November 15, the cabinet decided to set up the ‘Sarmaya Pakistan Company’. Since November 15, PSEs lost an additional Rs500 billion. Figures do not lie. Whatever we are trying to do with the PSEs is not working.
According to the State Bank of Pakistan, total foreign investment during July-January FY2018 was $4.1 billion. The same figure for July-January FY2s019 is $1 billion. Figures do not lie. Whatever we are trying to do to make Pakistan attractive for foreign investors is not working.
The ultimate test is the growth in Pakistan’s total debt and liabilities. In 2008, our debt stood at Rs6 trillion. In five years, the PPP took it to Rs16 trillion by taking on additional debt of Rs5 billion a day. In 2013, our debt stood at Rs16 trillion. In five years, the PML-N took it to Rs30 trillion by taking on additional debt of Rs7.7 billion a day. Red alert: The PTI is taking on additional debt of Rs14 billion a day.
Alarm bell: Our foreign debt has gone up by $5.7 billion over the past seven months. Red alert: We are taking on additional foreign debt at the rate of $814 million a month every month (PML-N took $566 million a month).
Voters have given PTI a five-year mandate – that’s 1,825 days. For the record, one-eighth of that mandate has just slipped through our fingers.