Black economy
سیاہ اقتصادیات!
پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی طور پر رائج ’سیاہ اِقتصادیات‘ نامی اصطلاح کے مطالب و معانی کا اطلاق ہمارے ہاں کی غیرقانونی طرز اقتصادیات پر نہیں ہوتا۔ عمومی اور اصطلاحی طور پر ’بلیک اکانامی‘ اُس آمدن اور طرز کاروبار کو کہا جاتا ہے‘ جو نشہ آور منشیات کا دھندا یا پھر منظم جرائم پیشہ عناصر کرتے ہیں۔ پاکستان میں اِس کا مطلب ایسی کاروباری سرگرمیاں جس میں حکومت کے مقرر کردہ قواعد و ضوابط کا احترام نہ کیا جائے اُسے ’بے ضابطہ اقتصادیات‘ کہا جائے گا اُور یہی بے ضابطہ اقتصادی سرگرمیاں پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت (مرکزی حیثیت) رکھتی ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں چھوٹے بڑے کاروباری طبقات غیرقانونی ذرائع کو اختیار کرنا زیادہ مفید سمجھتے ہیں؟ اِس بظاہر سیدھے سادے سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے کاروبار کا عمومی طریقہ سمجھنا ہوگا۔ پہلی بات: پاکستان میں کم سے کم 73فیصد ملازمتیں ملک کی ’بناءضابطہ اقتصادی حکمت عملی‘ سے وابستہ ہیں۔ دوسری بات: پاکستان کی بناءضابطہ اقتصادی حکمت عملی کا تعلق اشیاءکی تیاری اور خدمات کی فراہمی کے شعبے سے ہے۔
معلوم (ناقابل تردید) حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کی حکومت ہر دور میں خسارے کا شکار رہتی ہے۔ حکومت کے ادارے (پبلک سیکٹر انٹرپرائزیز) سالانہ مجموعی طور پر ’1100 ارب روپے‘ کا خسارہ کرتے ہیں۔ ملک کا گردشی قرضہ ’1600 ارب روپے‘ جیسی بلند سطح پر پہنچ چکا ہے۔ گیس کی فراہمی کے نظام میں 2 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ سرکاری اداروں کے لئے کی جانے والی خریداریوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں کو وجہ سے قومی خزانے کو ہرسال کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
اصل طرز حکمرانی کا ہے۔ اگر عوام سالانہ ’10 کھرب روپے‘ بھی ٹیکس ادا کریں پھر بھی حکومت کے بجٹ کا خسارہ (آمدن و اخراجات میں عدم توازن) برقرار رہے گا۔ جس کی وجہ بڑے پیمانے پر جاری ’بناءضابطہ اقتصادی سرگرمیاں‘ نہیں بلکہ حکومت کرنے کا انداز ہے‘ جس میں ہر حکومتی ادارہ مالی وانتظامی بدعنوانیوں کی تصویر بنا ہوا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر زیادہ بڑی تعداد میں عوام ٹیکس دیں تو پاکستان ترقی کر سکتا ہے تو وہ خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ درحقیقت سارا مسئلہ حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی ہے‘ جس کے باعث قومی خزانے کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ اِس تناظر اور منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم ’تحریک انصاف حکومت‘ کی اقتصادی حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ سازی کے مراحل میں بیماری کو تشخیص کئے بغیر اُس کے علاج کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے ’خرید و فروخت اور لین دین (transactions) کے نظام‘ کو ختم کر دیا ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر نعیم الحق کہتے ہیں کہ ”اگر لین دین اُور خریدوفروخت کا نظام باقی نہ رہے تو اِس سے اقتصادی ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ مارکیٹیں سازوسامان اور اجناس سے بھری پڑی ہوتی ہیں لیکن خریدار کم ہو جاتے ہیں۔ کاروباری طبقات کا خسارہ اُن کی برداشت سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ نجی شعبے میں ملازمتیں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ نئی سرمایہ کاری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ملازمتوں کے نئے مواقع تخلیق نہیں پاتے۔ حکومت نے نئے ٹیکس عائد کرنے جیسی سہل پسندی کا انتخاب کیا‘ جس سے کاروباری سرگرمیوں بُری طرح متاثر ہوئیں ہیں۔
پاکستان کے نئے وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے کندھوں پر بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے کہ اُنہیں پاکستان کی بے ضابطہ
اقتصادیات کو ایسا ماحول فراہم کرنا ہے کہ وہ پھر سے رواں دواں ہو سکے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے مالی امور کو کاروباری طبقات کے اعتماد کو بحال کرنا ہے اُور اِس کے فوراً بعد اُنہیں ’عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)‘ سے قرض کا حصول کرنا ہے۔ حکومتی اقدامات میں اصلاحات لانا ہے‘ جن سے سرکاری خریداریوں کے طریقہ ¿ کار میں جاری بے قاعدگیوں کا خاتمہ ہو۔ توانائی یعنی بجلی و گیس کے پیداوار اور تقسیم کاری کے عمل میں موجود خرابیاں دور ہوں۔
اقتصادیات کو ایسا ماحول فراہم کرنا ہے کہ وہ پھر سے رواں دواں ہو سکے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے مالی امور کو کاروباری طبقات کے اعتماد کو بحال کرنا ہے اُور اِس کے فوراً بعد اُنہیں ’عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)‘ سے قرض کا حصول کرنا ہے۔ حکومتی اقدامات میں اصلاحات لانا ہے‘ جن سے سرکاری خریداریوں کے طریقہ ¿ کار میں جاری بے قاعدگیوں کا خاتمہ ہو۔ توانائی یعنی بجلی و گیس کے پیداوار اور تقسیم کاری کے عمل میں موجود خرابیاں دور ہوں۔
’آئی ایم ایف‘ چاہتی ہے کہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ضرور ایسی کوئی حکمت عملی تشکیل دی ہوگی جس سے ملک کی کم آمدنی والے طبقات پر مالی بوجھ کم سے کم منتقل ہو۔ ’آئی ایم ایف‘ چاہتا ہے کہ 600 ارب روپے مالیات کے ٹیکس بوجھ کا اضافہ کیا جائے اور ڈاکٹر حفیظ شیخ نے یقینا ایسی حکمت عملی سوچ رکھی ہوگی جس سے کم آمدنی رکھنے والے خاندانوں پر کم سے کم سے ٹیکس کا دباو بڑھے۔
دنیا کے ہر ملک میں کسی نہ کسی طور پر ’بے ضابطہ اقتصادی سرگرمیاں‘ ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ محنت (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے بقول امریکہ میں ’بناءضابطہ اکانامی‘ سے 40فیصد روزگار وابستہ ہے۔ پاکستان میں بے ضابطہ اقتصادیات ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتی ہے‘ جس پر نصف ملکی پیداوار حاصل ہو رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 4 کروڑ 50 لاکھ پاکستانی محنت کش اُور اُن کے خاندانوں کا دارومدار ’بے ضابطہ اقتصادی شعبے‘ سے وابستہ ہے۔ حکومت کو نہیں چاہئے کہ وہ ساڑھے چار کروڑ پاکستانیوں اُور اُن کے خاندانوں کا روزگار (معاشی مستقبل) خطرے میں ڈالے۔ التجا ہے کہ ایسے فیصلوں سے گریز کیا جائے‘ جس کی وجہ سے ’بے ضابطہ کاروباری اور اقتصادی سرگرمیاں‘ متاثر ہوں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
............
No comments:
Post a Comment