ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور: چڑیاں اُور کھیت
سٹی سرکلر روڈ پر کوہاٹی گیٹ سے متصل ’فصیل شہر‘ کا 57فٹ حصہ گرا دیا گیا ہے۔ راتوں رات کسی دیوار کا اِس قدر بڑا حصہ گرانے کی واردات بلدیاتی حکومت کے دفاتر (فائر بریگیڈ) کے بلمقابل سرانجام پائی ہے لیکن اُس وقت کسی کو دکھائی نہیں دی جب تک دیوار کی ہر ایک اینٹ ہٹا نہیں دی گئی۔ یاد رہے کہ کوہاٹی گیٹ کے مذکورہ مقام پر فصیل شہر کا باقی ماندہ 200 فٹ حصے میں سے 57 فٹ ختم ہو چکا ہے۔ فصیل شہر مغل عہد میں تعمیر ہوئی۔ سکھ دور میں اِس کی توسیع و مرمت ہوئی اور انگریز راج میں اِسے پختہ اینٹوں کے اضافے سے زیادہ پائیدار اور مضبوط بنایا گیا لیکن اِس دیوار کو خطرہ موسمی اثرات یا وقت سے نہیں بلکہ قبضہ مافیا ہے‘ جن کی نظر میں پشاور اُور اِس کے آثار قدیمہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ پشاور کے دیگر حصوں کی طرح اِس مرتبہ بھی طلسماتی طور پر ’فصیل شہر‘ کا ایک حصہ یوں گدھے کے سر سے سینگھ کی طرح غائب ہو چکا ہے (چڑیاں کھیت چگ گئی ہیں!)۔ درحقیقت یہ ایک ”ناقابل تلافی نقصان“ اُور خیبرپختونخوا کے آثار قدیمہ کے قانون (Antiquities Act 2016) کی 44ویں شق کے چوتھے حصے کی ’خلاف ورزی‘ ہے اُور اِسی قانون کو بنیاد بناتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والے خلاف متعلقہ پولیس اسٹیشن (تھانہ کوتوالی) میں مقدمہ (ایف آئی آر) بھی درج کروا دی گئی ہے‘ جس میں محکمہ ¿ آثار قدیمہ فریق ہے۔ مذکورہ قانون کی رو سے اگر کوئی شخص آثار قدیمہ قرار دی گئی کسی بھی عمارت کو نقصان پہنچاتا ہے تو اُسے زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ روپے جرمانہ اور 2 سال کی قید جیسی سزائیں ہو سکتی ہیں جبکہ حقیقت ہے یہ ہے کہ پشاور کے آثار قدیمہ ایک ایک کر کے ’صفحہ ¿ ہستی‘ سے مٹتی چلی گیئں لیکن آج تک کسی ایک بھی مجرم کو نشان عبرت نہیں بنایا گیا۔ تصور کیجئے کہ لب سڑک‘ دیوار کا قریب ساٹھ فٹ اُونچا حصہ گرایا جا رہا تھا اُور ہر ایک اینٹ چیخ چیخ کر اہل پشاور کو آوازیں دے رہی ہوگی لیکن پشاور کی نمائندگی پر فخر محسوس کرنے اُور خود کو ’فخر پشاور‘ سمجھنے والے سیاسی و غیرسیاسی منتخب نمائندے مدد کو نہ پہنچ سکے
کوہاٹی گیٹ سے متصل ’فصیل شہر‘ کے ساتھ رہائشی مکانات (کواٹروں) میں بلدیہ پشاور کے مسیحی ملازمین آباد تھے‘ جنہیں یہ کہتے ہوئے یہاں سے ’بیدخل‘ کیا گیا تھا کہ باقی ماندہ ’فصیل شہر‘ کو بچایا جائے گا۔ یہی طریقہ ¿ واردات ’لاہوری گیٹ‘ سے متصل کواٹروں کی اراضی واگزار کراتے وقت بھی اختیار کیا گیا لیکن مذکورہ پٹی نجی اثاثوں میں منتقل ہو گئی! جس میں خاص کردار چند وکلاءنے ادا کیا اور یہ سب تفصیلات عدالتی کاروائیوں اور دیگر قانونی چارہ جوئی کا حصہ ہیں۔ کوہاٹی گیٹ والی اراضی کے کرایہ داروں میں اکثریت مسیحی خاندانوں کی تھی لیکن فیصلہ سازی کے مراحل سے آگاہ اُور اِس پر اثرانداز ہونے کی حیثیت رکھنے ’بااَثر تاجر‘ خاندانوں نے بھی ’بہتی گنگا‘ میں ہاتھ دھوئے اُور یوں بلدیہ یعنی پشاور کی زیادہ قیمتی اراضی اپنے نام منتقل کروائی گئی۔ یہ سارا معاملہ سیاسی طور پر کچھ اِس انداز میں تصفیہ (رفع دفع) ہوا کہ پشاور کی بجائے چند اَفراد کے مفادات کا تحفظ واضح اُور مقصود رہا۔ آج بھی پشاور اُنہی ’مفاد پرستوں‘ کے نرغے میں ہے‘ جن کے لئے تاریخ‘ فن تعمیر‘ ثقافت اُور وہ سماجی نشانیاں کہ جنہیں ’آثار قدیمہ‘ قرار دے کر تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن سب کچھ رائیگاں ہو چکا ہے!
”میری پہچان ہیں تیرے در و دیوار کی خیر .... میری جاں میرے پشاور میرے گلزار کی خیر۔“ فصیل شہر پناہ اُور 16 دروازے (کابلی‘ اندرشہر‘ کچہری‘ ریتی‘ رامپورہ‘ ہشت نگری‘ لاہوری‘ گنج‘ یکہ توت‘ کوہاٹی‘ سرکی‘ سردچاہ‘ آسیہ‘ رام داس‘ ڈبگری اور باجوڑی گیٹ) پشاور کی پہچان (سند) ہے۔ ’تازہ سانحہ‘ کوہاٹی گیٹ کے قریب رونما ہوا ہے‘ جس پر متعلقہ فیصلہ سازوں (حکام) لاعلم نہیں۔ ٹاو ¿ن ون کے چیف بلڈنگ آفیسر انجنیئر شہزاد شاہ کے مطابق ”اُنہیں سٹی وال کا حصہ گرائے جانے کی اطلاع 23 اپریل کی صبح 5 بجے دی گئی۔ جس پر فوری کاروائی کرتے ہوئے ٹاو ¿ن ون کا متعلقہ عملہ موقع پر پہنچا۔ تعمیراتی کام بند کروایا گیا۔ ضلع ناظم اُور اُن کا ماتحت عملے سمیت محکمہ ¿ آثار قدیمہ کے حکام بھی موقع پر پہنچے اور فیصلہ کیا گیا کہ خلاف ورزی کرنے والے جناب نور حضرت اور اُن کی اہلیہ کے خلاف ’صوبائی آثار قدیمہ‘ قانون کے مطابق کاروائی کی جائے۔ اِسی سلسلے میں پولیس رپورٹ درج کروا دی گئی ہے۔“ اُن کے پرسکون اور دھیمے لہجے سے عیاں تھا کہ جیسے کچھ خاص نہیں اُور کم سے کم اُن کی ملازمت یا صحت پر کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اگر پشاور ’فصیل شہر‘ کے کسی ایک حصے سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو چکا ہے کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اِس میں نئی بات کیا ہے؟ علاوہ ازیں ’فصیل شہر‘ کو نقصان پہنچانا ’قابل پھانسی جرم‘ نہیں‘ جو اگر ثابت ہوا تو زیادہ سے زیادہ جرمانہ 5 لاکھ روپے جبکہ زیادہ سے زیادہ سزا 2 سال قید ہوگی اُور وہ بھی ایک الگ قانون کی وجہ سے کسی بزرگ (سینیئر سیٹیزن) کو نہیں دی جا سکے گی‘ یوں معاملہ مختلف عدالتوں میں طے ہو جائے گی۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ فصیل شہر کو منہدم کر کے جس اراضی کی قیمت میں ”1000 گنا“ اضافہ کیا گیا‘ اُس کی فی الوقت مارکیٹ ویلیو 10سے 15کروڑ روپے بتائی جا رہی ہے جبکہ اِس پر کثیرالمنزلہ تجارتی و رہائشی عمارت قائم ہونے کے بعد اِس تعمیراتی منصوبے کی کل لاگت (کم سے کم) چار سے پانچ ارب روپے ہو گی۔ سینکڑوں کروڑ روپے جیسی غیرمعمولی سرمایہ کاری کرنے والے یقینا عام لوگ نہیں‘ جن کے لئے پٹوارخانے سے ضلعی حکومت‘ ٹاو ¿ن ون اُور متعلقہ تھانے کے نصف درجن اعلیٰ حکام کو ”اعتماد“ میں لینا (ہم خیال بنانا) کوئی بڑی بات نہیں۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ پشاور کو تبدیلی کی جس صبح کا انتظار تھا‘ اُس کی سحر نہیں ہوئی۔ پشاور کی ملکیت تاریخی اثاثہ جات ہوں یا زیراستعمال جائیدادیں‘ اِس ’شہر ناپرساں‘ کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ معمولی ’کمی بیشی‘ کے ساتھ آج بھی جاری ہے!
عشق‘ احساس‘ رحمت و زحمت
زندگی کے اصول ہو جائیں
کچھ تو مجنوں بنام شہر بھی ہوں
جو پشاور کی دھول ہو جائیں
No comments:
Post a Comment