ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تیئس اپریل دوہزار اُنیس
سری لنکا: غم کی شام!
انسداد دہشت گردی کی کوششیں کرنے والے ممالک کے لئے سری لنکا کی مثال میں عملی اسباق پوشیدہ ہیں جہاں فیصلہ سازوں نے اِنتہاء پسندی کی موجودگی اُور اِس کے محرکات کو جس کسی بھی وجہ سے نظرانداز کیا اور اِسی سبب سے اِنہیں ناقابل تلافی جانی نقصانات کی صورت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ درالحکومت کولمبو میں ’ایسٹر‘ نامی عیسائی تہوار کے موقع پر ہونے والے خودکش دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 310 تک پہنچ گئی ہے۔ رواں ہفتے (اکیس اپریل) کے روز کولمبو میں ’3 معروف ہوٹلوں (دی شینگریلا‘ سینامن گرانڈ اُور کنگز بری)‘ سمیت 3 گرجا گھروں کو خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا گیا۔ سری لنکن حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گرد کاروائی ’بین الاقوامی نیٹ ورک‘ کی مدد سے کی گئی۔ سری لنکا جو کہ پہلے ہی ’سیاسی بحران‘ سے گزر رہا تھا‘ کہ وہاں دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ صدر سریسینا نے اکتوبر میں وزیراعظم ’رانیل وکرماسنگھے‘ اُور ان کی کابینہ کو برخاست کر دیا تھا‘ جس کی جگہ دوسرا وزیراعظم لانے کی کوشش کی گئی جس سے آئینی بحران پیدا ہوا تھا۔ تب سری لنکن سپرئم کورٹ کی جانب سے دباؤ کے بعد صدر کو وزیراعظم وکرما سنگھے کو بحال کرنا پڑا۔ صدر اُور وزیراعظم کے درمیان سردجنگ کا اثر سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر بھی پڑا۔ یہی وجہ تھی کہ وزارت دفاع کی جانب سے 4 اپریل انتباہ (وارننگ) جاری ہونے کے باوجود بھی پولیس نے خاطرخواہ کاروائی نہیں کی۔ سیکورٹی حکام کے مطابق پولیس کو کسی غیرمعمولی حملے سے متعلق پیشگی معلومات ایک غیر ملکی خفیہ ادارے کی جانب سے بھی فراہم کی گئیں تھیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سری لنکن حکام کو امریکہ اور بھارت کی جانب سے اپریل کے اوائل میں کسی بڑی اُور ممکنہ دہشت گرد کاروائی کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔
سری لنکا میں ہنگامی حالات بائیس اپریل کی نصف شب سے نافذ ہیں‘ جس کے نتیجے میں پولیس اُور فوج کو عدالت کے حکم کے بغیر کسی بھی مشتبہ شخص کو حراست میں لینے اور اُس سے تفتیش کرنے کے وسیع اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ یہ غیرمعمولی اختیارات اِس سے قبل ملک میں جاری خانہ جنگی (23 جولائی 1983ء سے 18 مئی 2009ء) کے دوران انہیں حاصل تھے۔ علاؤہ ازیں بائیس اپریل کی شب 8 بجے کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا‘ جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے اِہلکاروں کو دارالحکومت کولمبو کی سنسان سڑکوں پر گشت کرتے دیکھا گیا۔ دھماکوں کے فوراً بعد سماجی رابطہ کاری کے وسائل (فیس بک‘ واٹس ایپ اور انسٹاگرام) کو بند کر دیا گیا جبکہ ملک گیر سطح پر ’قومی توحید جماعت‘ نامی تنظیم کے خلاف پولیس کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شبہ ہے کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات اِسی تنظیم کی کارستانی ہے۔ اگرچہ اس گروپ کی بڑے سطح پر حملے کی کوئی تاریخ نہیں ہے لیکن گذشتہ سال بدھ مذہب کے مجسموں کو نقصان پہنچانے کا الزام اِن پر لگایا گیا تھا۔
سری لنکا میں عبادت گاہوں کی بہتات ہے۔ چند برس قبل جب درس و تدریس کے علم کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور طلباء و طالبات کے ’ویژن‘ کو وسعت دینے کے لئے اُنہیں بیرون ملک کے دورے کروانے جیسے انقلابی نظریات رکھنے والے ماہر تعلیم واحد سراج کے ہمراہ ایک وفد کی صورت سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا۔ وفد میں اگرچہ ’ماڈرن ایج پبلک سکول اینڈ کالج‘ سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کی اکثریت تھی تاہم ایبٹ آباد کے علاؤہ دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے اراکین ایک گلدستے کی مانند تھے‘ جن کے لئے مطالعاتی دورہ یقیناًاُن کی زندگی کے چند بہترین ایام کا مجموعہ ہوگا۔ ’کولمبو (بندرانائیکے) ائرپورٹ‘ سے باہر نکلتے ہی سب سے پہلی نظر سڑک کے پار مندر پر پڑی‘ جہاں ایک عبادت گزار اگربتیاں جلا رہا تھا۔ میزبان حکومتی اہلکار جلدی جلدی وفد کے اراکین کا سامان گاڑیوں میں ڈال رہے تھے اُور اِس دوران اسقدر فرصت نہیں تھی کہ سڑک کے پار مندر کو قریب سے دیکھا جاتا لیکن گنجان آباد کولمبو کی سڑکوں پر منظم ٹریفک اُور جابجا مندر دیکھ کر خوشگوار حیرت ہو رہی تھی جو ناقابل بیان ہے۔ دارالحکومت کولمبو اُور ملحقہ اضلاع میں قدر مشترک یہ تھی کہ وہاں ہر گلی اور چوراہے کے علاؤہ ’جاگنگ ٹریک‘ پر بھی چھوٹے بڑے مندر قائم تھے۔ چونکہ بدھ مت کے اندر بھی بہت سے فرقے ہیں لیکن کسی بھی فرقے یا مذہب کے ماننے والے کو اِس 70فیصد ہندو اکثریتی ملک میں دوسرے سے مسئلہ (گلہ شکوہ) نہیں تھا۔ سری لنکا میں ہندو مذہب کی اُن تعلیمات کو مانا جاتا ہے جو ’اشوکا‘ بادشاہ کے بیٹے اراتھ مہندہ (Arahath Mahida) 246قبل اپنے ساتھ لائے اُور اُنہوں نے اُس وقت کے سری لنکن بادشاہ ’دیواناپمیا ٹیسا (Devanampiya Tissa)‘ کو بدھ مت اختیار کروایا تھا۔ تیسری صدی عیسوی سے قبل سری لنکا کی اکثریت ہندوازم کی پیروکار تھی جس کے بعد یہ بدھ مت پھیل گیا۔ فی الوقت سری لنکا کی اکثریتی پرامن ’2 کروڑ 10 لاکھ‘ آبادی چار بنیادی مذاہب (بدھ مت‘ ہندو ازم‘ اسلام اُور عیسائیت) میں تقسیم ہے۔
’سری لنکا‘ کو قریب سے دیکھنے والے دہشت گردی کے واقعات پر دلی صدمے اور دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پابندی جیسے جیسے ختم ہو رہی ہے اور جیسے جیسے سری لنکا میں دوستوں سے رابطے بحال ہو رہے ہیں وہاں سے بھی دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی کی گہرائی و گیرائی کے بارے میں پائی جانے والی تشویش سے آگاہی ہو رہی ہے۔ جنہوں نے سری لنکا میں ’نسلی کشیدگی‘ دیکھی ہے‘ اُن کی آنکھوں میں آنسو اُور دعاؤں کے معنی مختلف ہیں۔ ’سنھالہ‘ اُور ’تامل‘ نامی نسلی گروہوں کے درمیان دہائیوں تک جاری رہنے والے تنازعات نے سری لنکا کو تباہ کر دیا تھا لیکن 2009ء کے بعد سے یہاں کافی حد تک امن قائم رہا۔ جنہوں نے کبھی جنگ جیسا کچھ نہیں دیکھا اُن کے لئے سری لنکا کی داخلی صورتحال ناقابل بیان حد تک دردناک اُور تشویشناک ہے! جو سمجھ رہے تھے کہ سری لنکا تشدد‘ نفرت‘ انتہاء پسندی اُور دہشت گردی کو ہمیشہ کے لئے شکست دے دی ہے‘ اُن کی جانب سے افسوس کے اظہار پر تشویش کا عنصر غالب ہے! سری لنکن دوستوں اور خیرخواہوں کے لئے بہت سارے امن اور بہت ساری خوشیوں کی دعاؤں کے ساتھ اُمید ہے کہ جلد ہی کولمبو کی رونقیں‘ خوشیاں اور چہروں پر مسکراہٹیں لوٹ آئیں گی۔ ’’دل نااُمید تو نہیں‘ ناکام ہی تو ہے ۔۔۔ لمبی ہے غم کی شام‘ مگر شام ہی تو ہے! (فیض احمد فیضؔ )‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment