Sunday, April 21, 2019

The fourth republic by Dr Farukh Saleem

The fourth republic
مثالی ریاست!

فرانس کی پہلی جمہوری حکومت 1792ء میں قائم ہوئی۔ تب دارالحکومت پیرس کی سڑکوں پر بھوکے پیاسے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ تب غربت‘ بھوک اُور افلاس کا حل یہ نکالا گیا کہ بہتری کے لئے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے شروعات کی جائے۔ نیا آئین بنا لیکن وہ دکھوں کا مداوا نہ سکا اُور یوں فرانس کی پہلی جمہوریہ حکومت اصلاحات اور تبدیلی لانے میں ناکام ہو گئی۔ 1870ء میں فرانس نے نیا طرزحکمرانی اختیار کیا‘ جو یہاں کی تیسری ایسی جمہوری حکومت تھی۔ فرانس کی چوتھی جمہوریہ کا وجود 1946ء سے 1958ء کے درمیان رکھا گیا‘ جس نے ملک کے چوتھے آئین کے تابع طرز حکمرانی کو فروغ دیا۔ یہ چوتھا حکومتی دور بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا اُور 1958ء میں منہدم ہو گیا۔ جس کے بعد پانچواں قانون اور پانچویں حکومت وجود میں آئی۔ اِس پانچویں حکومت کی ’پارلیمانی جمہوریت‘ نے لی جو ایک نیم پارلیمانی‘ نیم صدارتی ایسا طرز حکمرانی تھا‘ جس میں طاقت کے سرچشمے اور اختیارات دو عہدوں سربراہان مملکت کو حاصل تھے۔

1972ء میں جنوبی کوریا نے نیا قانون منظور کیا اور اِس نئے قانون کے تحت ’جمہوریہ‘ معرض وجود میں آئی۔ 1981ء میں فلپائن میں چوتھی جمہوریہ بنائی گئی۔ 1993ء میں افریقی ملک گھانا (Ghana) میں چوتھی جمہوریہ بنی۔ 1996ء میں نائیجر (Niger) میں نیا قانون منظور ہوا جس سے چوتھی جمہوریہ بنی۔ 1999ء میں نائیجریا (Nigeria) میں چوتھی جمہوریہ بنی۔ 2011ء میں ہنگری (Hungary) کا نیا قانون اور ملک کی چوتھی جمہوریہ بنی۔

تاریخ عالم گواہ ہے کہ جہاں جہاں سیاسی طرز حکمرانی اُس مقام تک پہنچی کہ جہاں اِس کے ذریعے ریاست کے مسائل حل نہیں ہو رہے تھے وہاں وہاں نئے قانون وضع کئے گئے تاکہ ریاست کو مضبوط اور ریاست کے مفادات کا زیادہ بہتر انداز سے تحفظ کیا جا سکے۔ قابل ذکر ہے کہ نیا قانون ہمیشہ اُسی وقت بنایا جاتا ہے جبکہ پرانے قانون کے تحت ملکی مسائل کا حل ممکن نہ ہو۔ جی ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ نئے قانون کی ضرورت تب پڑتی ہے جب پرانے قانون سے بہتری نہ آ رہی ہو۔

پاکستان کے آئین 1956ء میں اِسے پارلیمانی جمہوریہ بنایا گیا جس کے سربراہ وزیراعظم مقرر ہوئے جبکہ ملک کا صدر محض ایک رسمی عہدہ رکھا گیا۔ یہ طریقہ کار وضع کیا گیا لیکن چل نہ سکا۔ 1962ء میں نئے قانون کے تحت ’’صدارتی نظام‘‘ متعارف کروایا گیا‘ جس کے تحت اُس وقت کے اقتصادی مسائل بڑی حد تک حل ہوئے۔1973ء کا قانون بنایا گیا جس میں ایک مرتبہ پھر وزیراعظم کو ملک کا سربراہ بنا دیا گیا۔ کیا 1973ء کا آئین پاکستان کے لئے بہتر ثابت ہوا؟ کیا آئین میں سزا و جزا کا جو طریقۂ کار رکھا گیا اُس سے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے؟ کیا پاکستان کو بھی موجودہ قانون اور طرز حکمرانی سے دامن چھڑانا چاہئے اور ملک کو نیا آئین یعنی نیا طرز حکمرانی دے کر ایک نئی ’جمہوریہ‘ بنایا جائے؟

ذرائع ابلاغ ماضی و حال کے سیاسی فیصلہ سازوں کی مالی بدعنوانیوں کو طشت از بام کر رہے ہیں لیکن ہمارے طرزحکمرانی میں سزا و جزا کے تصورات تو موجود ہیں لیکن اُن کے نافذ کرنے کے طریقے اِس قدر فرسودہ اور کمزور رکھے گئے ہیں کہ بدعنوانی کے معلوم و ظاہر مرتکب افراد کا بھی احتساب ممکن نہیں ہو رہا اور ریاست کے وسائل لوٹنے والے تو معلوم ہیں لیکن اُن کے احتساب کا عمل خاطرخواہ تند و تیز نہیں۔ پاکستان نے ہر طرح کے طرزحکمرانی کا تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے لیکن ریاست اور عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں ہو پایا ہے۔

قابل ذکر ہے دنیا میں 12 درجن جمہوریتیں ہیں‘ جن میں 100 صدارتی یا نیم پارلیمانی اُور 3 درجن پارلیمانی ہیں۔ یہ پارلیمانی جمہورتیں اُنہی ممالک میں رائج ہیں جہاں برطانیہ نے راج کیا تھا۔

پاکستان کی ریاستی حکمت عملیاں اور ادارے نااہل ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا طرزحکمرانی سیاسی جماعتوں اور اُن کے قائدین کو فائدہ پہنچانے کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا ہر شعبہ بحران سے گزر رہا ہے۔ سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں جبکہ توانائی کی کمی کی وجہ سے روزمرہ معمولات زندگی متاثر ہیں۔ اِس صورتحال میں نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کمزور اور ناتواں دکھائی دے رہی ہے اور ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ریاست کو مضبوط بنایا جائے۔ پاکستان کو کم نہیں بلکہ زیادہ جمہوریت کی ضرورت ہے ایک ایسی جمہوریت جس میں بدعنوانی اور بدعنوانوں کا راج نہ ہو۔ 1956ء‘ 1962ء اُور 1973ء کے آئین پر عمل درآمد کر کے دیکھ لیا گیا ہے‘ جن سے مضبوط ریاست اور عوامی مفادات کے تحفظ جیسے اہداف (نتائج) باوجود کوشش و خواہش بھی حاصل نہیں ہو سکے تو کیا یہ درست وقت نہیں کہ پاکستان کو ایک نئے جمہوریہ کے قالب میں ڈھالا جائے۔ ایک نیا آئین دیا جائے اور ایک ایسا آئین جس میں سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ ریاست مضبوط ہو۔ جس میں سیاسی جماعتوں کے نہیں عوام کے وارے نیارے ہوں!؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

No comments:

Post a Comment