Sunday, April 7, 2019

Apr07: Who should be declare PROUD of PESHAWAR?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
فخر پشاور !؟

پشاور سے ’دِلی محبت‘ کا اِظہار ’عمل‘ سے بھی ہونا چاہئے اُور اِسی ’’عملی اِظہار‘‘ کے لئے ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) نے سماجی‘ علمی و اَدبی شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والوں کی ’بذریعہ اِعزازات‘ حوصلہ اَفزائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس سلسلے میں باقاعدہ تقریب کا اِنعقاد ’2 مئی 2019ء‘ کی ’سہ پہر 3 بجے‘ نشترہال میں منعقد ہوگی اُور کسی بھی شعبے میں ’حسن کارکردگی‘ کا مظاہرہ کرنے والے ’اہل پشاور‘کو مطلع کیا گیا ہے کہ وہ ’’12 اَپریل‘‘ تک اپنی درخواستیں ’ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس‘ کو پہنچا دیں۔ اِس سلسلے میں تعلیم‘ صحت‘ ویمن ایمپاورمنٹ‘ ادب و فنون لطیفہ‘ آرٹ‘ موسیقی‘ یوتھ ڈویلپمنٹ‘ کھیل‘ تاریخ و ثقافت‘ آثارقدیمہ‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ زراعت اُور تجارت سمیت کئی دیگر شعبوں میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے زندہ یا فوت شدگان کو ’فخر پشاور ایوارڈ‘ دیا جائے گا۔

ناقابل یقین منطق اُور تعجب خیز طریقۂ کار یہ ہے کہ ’’پشاور کے لئے خود کو وقف کرنے والوں کو تحریری درخواست دینا پڑے گی کہ ’’جناب ضلع ناظم صاحب‘ مؤدبانہ گزارش ہے کہ فدوی نے اپنی تمام زندگی پشاور کے لئے وقف کئے رکھی اُور متمنی ہے کہ اِن خدمات کے عوض اِسے ’فخر پشاور ایوارڈ‘ سے نوازہ جائے! عین نوازش ہو گی۔‘‘ پشاور کے ساتھ اِس سے ’’گھناؤنا اُور سنجیدہ مذاق‘‘ کوئی دوسرا ممکن ہی نہیں کہ زمینی حقائق سے لاعلم ضلعی حکومت اَندھیرے میں تیر چلاتے ہوئے جلدبازی میں ’فخر پشاور‘ جیسے اعزازات کی ’بندر بانٹ‘ کرے۔ اندیشہ ہے کہ افسرشاہی (بیوروکریسی)کے من پسند افراد کی فہرست میں چند نام منتخب ضلعی نمائندوں کے شامل کر کے ایک اچھے خاصے مقصد کو دفن کر دیا جائے گا اور پھر وہ ساری زندگی اپنے نام کے ساتھ ’فخر پشاور‘ لکھنے والوں سے کوئی نہیں پوچھ سکے گا کہ وہ کس بنیاد پر ’قابل فخر (رشک)‘ قرار پائے ہیں۔ تاریخ میں ایسے حکمرانوں کا ذکر مذاق کے طور پر درج ملتا ہے‘ جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے لیکر عوام کی خدمت کا حق اَدا نہیں کیا۔ مٹی کی محبت ’آشفتہ سری‘ چاہتی ہے۔ کوئی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ اور اعلیٰ سے اعلیٰ مقصد بھی ’بناء قربانی‘ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پشاور کے لئے کارہائے نمایاں سرانجام دینے کی واحد کسوٹی (پیمانہ اُور اصول) یہ ہونا چاہئے کہ ’’پشاور کے لئے اپنے ذاتی و سیاسی مفاد کی قربانی کس نے دی اُور یہ قربانی کتنی بڑی تھی!‘‘ علاؤہ ازیں اعزازات کی بارش کرنے کی بجائے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے صرف ایک ہی شخص کو ’اعزاز کے لئے سزاوار‘ قراد دینا چاہئے۔ اصولی طور پر (زیادہ بہتر تو یہی ہوتا کہ) درخواستیں طلب کرنے کی بجائے ضلعی حکومت خود اِس بات کی کھوج کرتی کہ رواں برس ’’فخر پشاور اعزاز‘‘ کے لئے مستحق کون ہے‘ کہاں ہے اور اُس کا تعلق خدمات کے کس شعبے سے ہے۔ اعزاز دینے کے لئے ’کم سے کم معیار‘ بھی مقرر ہونا چاہئے۔ جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر سے منسوب ’فخر پشاور‘ جیسا معتبر نام متقاضی ہے کہ دیگر اعزازات کی طرح اِس کی ساکھ (عزت افزائی) میں اضافہ کیا جائے اور یہ اعزاز کسی بھی زاویئے سے ’اعزاز کی توہین‘ قرار نہ پائے۔

زندگی کو وفا شعار کرو
دل و جاں کیا جہاں نثار کرو
جو نچھاوڑ ہوئے پشاور پر
ایسے احباب کا شمار کرو

ضلعی حکومت کے منتخب و غیرمنتخب فیصلہ سازوں کو غوروفکر کی دعوت ہے کہ وہ عام یا ضمنی انتخابات جیسے مواقعوں پر پوسٹروں‘ بینروں اُور دیگر تشہیری مواد کے ذریعے خودساختہ ’فخر پشاور‘ شخصیات کو بھی ’اظہار وجوہ‘ کے نوٹسیز جاری کریں اُور اِس بات پر پابندی عائد ہونی چاہئے کہ ذرائع ابلاغ ہوں یا اخبارات و جرائد‘ ہر خاص و عام خاطر جمع رکھے کہ ’’اپنا خرچا اُور اپنا چرچا‘‘ نامی حکمت عملی کے تحت کوئی بھی شخص ’فخر پشاور‘ یا ’بابائے پشاور‘ نہیں بن سکتا‘ جب تک کہ اُس کی باقاعدہ منظوری‘ توثیق و تائید (سند) ضلعی حکومت کی جانب سے نہیں مل جاتی۔ عجیب مذاق ہے کہ جس کا دل چاہے پشاور کے وسائل اور اِس کے نام کو استعمال کر لیتا ہے حتیٰ کہ پشاور کے اثاثے (در و دیواروں) پر بھی اُنہی کا حق مسلمہ ہے‘ جو مالی استطاعت اور سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ 

ضلعی حکمرانوں کو اِس بات کا بھی سختی سے نوٹس لینا چاہئے کہ فصیل شہر اُور دروازوں پر لگے پوسٹروں سمیت ہر قسم کی سیاسی و غیرسیاسی ’وال چاکنگ‘ پر پابندی عائد کی جائے۔ پشاور کو خوبصورت بنانے کا عزم اپنی جگہ لیکن ضلعی حکومت ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے پشاور کو ’آلودہ‘ کرنے والوں سے عملاً نمٹ سکتی ہے! عام آدمی (ہم عوام) حیرت زدہ ہیں کہ آج تک پشاور کا کوئی ایک بھی دیرینہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے جیسا کہ تجاوزات! ہر دور حکومت میں پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر تجاوزات کے خلاف مہمات شروع کی جاتی ہیں‘ جن کے نتائج گلی گلی اور محلے محلے بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ کاروباری و رہائشی علاقوں میں تمیز تیزی سے ختم ہو رہی ہے لیکن اِس خلاف ورزی پر بھی قانون حرکت میں نہیں آ رہا۔ کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں‘ جن میں پارکنگ اور دیگر حفاظتی انتظامات کا اہتمام نہیں کیا جاتا لیکن اِس سلسلے میں بھی ضلعی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے! ملاوٹ شدہ اشیاء کی بھرمار بھی پشاور کا مسئلہ ہے‘ جس کے موجودہ حکمرانوں سے حل ہونے کی اُمید نہیں رہی! وقت ہے کہ دوسروں کے لئے بلکہ ضلعی حکومت اپنے لئے لائحہ عمل تشکیل دے۔ 

پشاور پر حکمرانی کرنے والوں کی کمی نہیں عوام کو خدام کی تلاش ہے۔ پہلا ’خادم پشاور‘ کون ہوگا؟ شہر و مضافاتی علاقوں میں پینٹر (خطاط) حضرات اُور پینافلیکس بنانے والوں کو ہدایات جاری کی جا سکتی ہیں کہ وہ غیرضروری طور پر ناموں کے ساتھ القابات کا اضافہ کرنے سے گریز کریں اور اگر کسی نے پشاور کی درودیواروں پر وال چاکنگ پر عائد پابندی کا عملاً مذاق اڑایا تو ایسے افراد کے خلاف بلاامتیاز سخت گیر کاروائی کی جائے گی۔ 

’فخر پشاور‘ کا اِعزاز ’ضلعی ناظم‘ کو ملنا چاہئے؟ کیا وہ خود کو ایسے کسی اعزاز کا مستحق سمجھتے ہیں؟ اگر نہیں تو (اب بھی دیر نہیں ہوئی اُور) ژرف نگاہی سے دیکھا جانا چاہئیکہ ’’پشاور سے محبت کے عملی اِظہار و کردار کی اِصلاح کیونکر (کیسے) ممکن بنائی جا سکتی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2019-04-07

No comments:

Post a Comment