Dear Prime Minister
گرامی قدر وزیراعظم کے نام!
پاکستان کی سیاسی قیادت اقتصادی مسائل کی شدت کا خاطرخواہ احساس نہیں کر رہی۔ اِس لئے وزیراعظم عمران خان‘ نواز شریف اور آصف علی زرداری صاحبان کی خدمت میں مؤدبانہ اور دل کی اتہاہ گہرائیوں سے التماس ہے کہ سیاست میں ایک دوسرے کو زچ کرنے کی بجائے پاکستان کے مستقبل اور مفادات کے بارے میں بھی سوچیں۔ گذشتہ برس‘ عام انتخابات (جولائی 2018ء) میں 3 کروڑ 70 لاکھ پاکستانیوں نے اپنا حق خودارادیت استعمال کیا اُور آج یہ سبھی ووٹر اور باقی ماندہ پاکستان کی عوام کو انتہائی سخت معاشی حالات کا سامنا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی موجودہ 95فیصد آبادی مہنگائی سے متاثرہ ہے اور اِس کے لئے بنیادی ضروریات کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔
گرامئ قدر وزیراعظم صاحب‘ پاکستان میں نجی شعبہ سونے کے انڈے دے رہا ہے اُور انہی پر ملک کا انحصار ہے لیکن نجی کاروباری اداروں کے لئے ماحول سازگار نہیں۔
گذشتہ ہفتے کی بات ہے جب میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ بڑے ہوٹل گیا۔ ہوٹل کا منیجر ہمارے پاس آیا اُور اپنی بڑھتی ہوئی کاروباری مشکلات کا رونا رونے لگا۔ اُس کا کہنا تھا کہ گذشتہ 10کے دوران اُن کی آمدن سات لاکھ روپے یومیہ سے کم ہو کر تین لاکھ روپے یومیہ ہو چکی ہے۔ اِسی ہوٹل کے ایک ویٹر نے بتایا کہ اُسے گاہگوں کی جانب سے بطور انعام (tip) ملنے والی رقم 1100 روپے سے کم ہو کر 500 روپے رہ گئی ہے۔
سڑک کنارے ’تکہ شاپ‘ کے مالک شیخ صاحب بھی فریادی نکلے۔ اُنہوں نے بتایا کہ 1998ء سے کاروبار کر رہے ہیں لیکن موجودہ حالات جیسی مندی کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی اُور اُن کی یومیہ کل فروخت جو پہلے 75 ہزار روپے ہوا کرتی تھی اب کم ہو کر 25 ہزار روپے رہ چکی ہے لیکن وہ اپنے ملازمین کی تعداد کم نہیں کرسکتا کیونکہ اِن میں بعض عرصہ 20 سال سے اُن کے ساتھ ہیں۔
میرے ایک پروگرام کے پروڈیوسر جو کہ ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ اُن کی ملازمت ختم ہو چکی ہے اور اب وہ گزربسر کے لئے ٹیکسی چلا کر گزارہ کر رہے ہیں۔ اِس پر ستم یہ کہ گذشتہ ماہ اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کے پاس کوئی دوسری صورت نہیں رہی لیکن وہ اپنے گھر کے گیس کا بل اَدا کرے یا بچوں کی فیسیں! مجھے اُس کے متفکر چہرے پر آنسوؤں کی قطاریں دکھائی دے رہی تھیں۔ چند دن پہلے کی بات ہے میں ایک خاتون پروگرام اینکر سے ملا‘ جس کی ملازمت ابھی جاری ہے۔ اُنہوں نے بھی یہی کہا کہ گیس کے بل اور بچوں کی سکول فیسیں ادا کرنے میں اُنہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک سال قبل 50 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ میں گزارہ ہو جایا کرتا تھا۔ دو روز قبل میں نے اپنے کیمرہ مین سے اُس کے گیس بل سے متعلق پوچھا تو اُس نے کہا کہ 15 ہزار روپے آیا ہے۔ یہ بل اُس کی ماہانہ آمدنی سے پندرہ فیصد زیادہ تھا۔ علاؤہ ازیں اُسے دیگر ضروریات کے لئے بھی اپنی تنخواہ کا پندرہ فیصد اُور گھر کا کرایہ ادا کرنے کے لئے 30 فیصد درکار تھا۔ اِن تمام ادائیگیوں کے بعد اُس کے پاس 20 ہزار روپے رہ جاتے تھے‘ جن سے اُسے پورا مہینہ گھر کے اخراجات‘ بچوں کی فیسیں‘ اُن کے یونیفارم اُور دیگر ضروریات پوری کرنا ہوتی تھیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2013ء میں زیرگردش نوٹوں کی تعداد 1.9 کھرب روپے تھی جو بڑھ کر 4.6 کھرب روپے ہو چکی ہے۔ اِس افراط زر کا مطلب ہے کہ عام آدمی کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور جن لوگوں کے پاس سرمایہ ہے اُنہوں نے ہاتھ روک رکھا ہے۔ کاروباری طبقات غیریقینی کا شکار ہیں۔ کوئی سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارے وزیراعظم سینکڑوں لوگوں کے لئے ’شیلٹر ہومز‘ بنا رہے ہیں جبکہ کاروباری ادارے ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کا بوجھ کم رہی ہیں۔
گردشی قرض بھی لائق توجہ ہے‘ جو 1.6 کھرب روپے جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے۔ یہ ایک ایسا بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اِس گردشی قرضے کا بوجھ 2 کروڑ 30لاکھ بجلی کے صارفین کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یعنی بجلی کے ہر صارف کو اوسطاً 70 ہزار روپے ادا کرنا پڑیں گے۔ ملک کی خام پیداوار (GDP) میں کمی کا مطلب ہے کہ مزید 11 لاکھ افراد بے روزگار ہوں گے۔ 41 لاکھ افراد خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے یعنی غربت بڑھے گی اور سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ تو خرابئ حالات کا ابھی آغاز ہے۔ ملک کے جملہ سیاسی فیصلہ سازوں سے التماس ہے کہ وہ کاروباری طبقات کی مشکلات کا احساس کریں‘ سازگار کاروباری ماحول اُور ترقی کے مواقعوں میں اضافہ کریں اُور سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو بچائیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
No comments:
Post a Comment