تین مئی دوہزار اُنیس
پشاور: طعنہ اُور حقیقت!
اہل پشاور نے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ ’21 اپریل‘ کی شب بیرون کوہاٹی گیٹ‘ سٹی سرکلر روڈ پر ’فصیل شہر‘ کا 57 فٹ حصہ منہدم کرنے کے خلاف ہر سطح پر غیرمعمولی احتجاج دیکھنے میں آیا‘ جس کا ذکر ’ذرائع ابلاغ‘ سے ہوتا ہوا ’سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) پر پھیلتا چلا گیا اُور پشاور کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ ’بااثر‘ سرمایہ دار اُور قبضہ مافیا جیسی خصوصیات رکھنے والے طبقے اُور سوچ کے خلاف ’اہل پشاور‘ کی جیت ہوئی ہو‘ جسے اپنی نوعیت کی ’پہلی کامیابی‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’22 اپریل‘ کو پولیس مقدمہ درج ہونے کے بعد ’یکم مئی‘ سے دیوار کے مذکورہ حصے (57x12 فٹ) کی اَزسرنو تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ متعلقہ بلدیاتی اہلکار اُور نمائندوں نے جس ’کارکردگی‘ اُور ’تشویش‘ کا عملاً اظہار کیا ہے اگر یہ طرزعمل شروع دن سے اختیار کیا جاتا تو ’فصیل شہر‘ کا 200فٹ حصہ اُور چند ٹکڑے ہی باقی نہ رہتے‘ نہ ہی 16 میں سے 14 دروازے راتوں رات غائب ہو کر اربوں روپے کی سرکاری اراضی قبضہ نہ ہو چکی ہوتی!
یہ طعنہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اہل پشاور نے اپنے آباو و اجداد کی نشانیاں اُونے پونے داموں فروخت کرتے وقت کیوں نہیں سوچا کہ تاریخ و ثقافت پر مبنی آثار قدیمہ کے نمونے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے؟ وہ تاریخ میں مجرم قرار پائیں گے اور جب جائیدادیں اپنی رضامندی سے فروخت کر دی گئی ہیں تو مگرمچھ کے آنسو کیوں بہائے جا رہے ہیں؟ ’پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل‘ کی جانب سے ’فصیل شہر‘ مہندم کئے جانے کی واردات بارے احتجاج کیا گیا جس کی تصاویر اُور ویڈیوز جب ’فیس بک (facebook)‘ پر شیئر (share) کی گئیں تو ایک معزز قاری ’ہمایوں اَخوند‘ نے ’رومن پشتو‘ زبان میں کئے گئے اپنے تبصرے میں لکھا ”خوری ڈاغرے‘ خاریانو ہم دَاسے خہ اَے“ (ترجمہ) ”دھکے کھاو۔ اہل پشاور تم لوگ ایسے ہی اچھے ہو۔“ پٹھان قبائل اہل پشاور کو ”خارے (شہری)“ کہتے ہیں جو کسی بھی طرح ’بُرا تخلص‘ نہیں بلکہ اِس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ’شہر میں رہنے والے علمی و ادبی طور پر نسبتاً زیادہ تحصیل یافتہ اُور تہذیب و تمدن اور طور طریقوں کے ساتھ زیادہ رکھ رکھاو ¿ پر مبنی معاشرت کے عادی ہوتے ہیں۔ ”شہری“ ہونا اپنی جگہ اعزاز ہے اُور اگر ایسا نہ ہوتا تو پہاڑوں‘ غاروں اور دیہی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت ’اچھی (باسہولت و بامعنی) زندگی‘ کے لئے شہروں کو رخ نہ کرتے!
گرامی قدر ہمایوں اخوند (بحوالہ فیس بک تاریخ پیدائش 26 ستمبر 1965) کا شمار علمی ادبی حلقوں میں ہوتا ہے۔ آپ معلم ہیں اُور آج بھی اُن کی رائے تاریخ و ادب کے حوالے سے مستند مقام رکھتی ہے۔ آپ گردوپیش سے بے نیاز نہیں بلکہ وسیع مطالعے اور مشاہدے پر منحصر تاریخ و ثقافت جیسے موضوعات اُور اِس حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں پر نگاہ رکھتے ہیں۔ ہمایوں اخوند حقیقت پسند اِنسان ہیں‘ جن کی لغت میں نفرت نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ پشاور کی محبت اُن کی ذات کا حوالہ ہے اُور اُنہوں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی یا اظہار مروت میں ’پشاور کا لبادہ‘ نہیں اُوڑھ رکھا بلکہ پشاور اور پشاوریوں کے مزاج آشنا ہیں۔ اِسی لئے ’اہل پشاور (خاریانوں) کو طعنہ دیا کہ اگر اُنہیں اچانک پشاور کی تباہی کا احساس ہو گیا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہے لیکن شاید یہ استعارہ 100فیصد درست نہیں۔
دیر تو ہوئی ہے لیکن ’بیداری کی لہر‘ اُٹھنے میں بہت دیر بہرحال نہیں ہوئی اُور یہی وجہ ہے کہ فصیل شہر کا منہدم ہونے والے ٹکڑے کی ’اَزسرنو تعمیر‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا چند برس قبل تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مئی 2013ء اور جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں تبدیلی کے جس سورج کی کرنیں پھیلی ہیں‘ اُن کی روشنی میں منظرنامہ کچھ نہ کچھ تبدیل ضرور لگ رہا ہے۔ ”ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے .... میں اُور تو کیا چیز ہیں‘ تنکے پتے ایک نشان .... عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں اِنسان .... کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان (جیلانی کامران)“
درحقیقت پشاور کی دریافت تو ہو چکی لیکن اِس تلاش کا سفر (عمل) جاری ہے۔ جیسے جیسے لوگ ’پشاور آشنا‘ ہو رہے ہیں ویسے ویسے اُس ’بیداری کا حصہ‘ بن رہے ہیں جو پشاور کے اثاثوں کی حفاظت سے متعلق ہے۔
منہدم فصیل شہر کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ پشاور کی تاریخ کو پھر سے اینٹ اینٹ کر کے جوڑا جا رہا ہے۔ قابل ذکر اور لائق غور ہے کہ پشاور کی تاریخ میں اِس قسم کی کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں جس میں راتوں رات منہدم ہونے والی ’فصیل شہر‘ کے کسی بھی حصے کی اِس طرح فوری تعمیر کر دی گئی ہو۔ آج کوئی ایک بھی اعلیٰ سے ادنیٰ فیصلہ ساز ایسا نہیں ملتا جو ماضی کی طرح کے آثار قدیمہ سے اِظہار بیزاری کرتا ہو۔ جو باتیں ماضی میں ڈھکے چھپے انداز میں کی جاتی تھیں آج وہ باتیں دلوں اُور اِستعاروں کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
ایک وقت وہ تھا کہ جب پشاور کی ماضی میں اِس قسم کی ’بے قاعدگیاں‘ اُور اُن کے بارے میں ’رسمی تحقیقات‘ فائلوں میں دب کر ختم ہو جایا کرتی تھیں۔ ذرائع ابلاغ چند دن واویلا کرنے کے بعد خاموش ہو جایا کرتے تھے لیکن سوشل میڈیا کے زمانے میں نیند محال ہے۔ وہ سبب اَسباب اُور وجوہات کہ جن کے باعث ماضی میں ’فصیل شہر‘ ضلع و ٹاون ناظمین کے کاروباری مفادات کی نذر ہوئیں اُور آج بھی ایسی جائیدادیں (ثبوت) موجود ہیں کہ جن کے مالک و وارث ماضی و حال میں پشاور کے سیاہ و سفید (فیصلوں) کے مالک رہے ہیں! تو اُمید ہے اہل پشاور آئندہ بلدیاتی انتخابات میں فیصلہ سازی کے منصب پر ایسے کرداروں کو ’فائز (منتخب)‘ کریں گے جن کے ذاتی و کاروباری مفادات پشاور سے متصادم نہ ہوں۔ سطحی صورتحال کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لیا جائے تو سیاست اُور مفادات پر مبنی طرز سیاست و حکمرانی ایسا ”المیہ“ ہے کہ جو صرف پشاور کی حد تک محدود نہیں بلکہ قومی و صوبائی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کے اکثر فیصلے اُن کے ذاتی اَثاثوں میں اِضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ تو یہ بھی تبدیلی کا ثمر ہی ہے کہ آج صرف پشاور نہیں بلکہ اُس طرزحکمرانی کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا جا رہا ہے‘ جس سے لاحق خطرات کا شمار ممکن نہیں!
........
No comments:
Post a Comment