Sunday, May 5, 2019

TRANSLATION: What went wrong? by Dr Farrukh Saleem

What went wrong?

دانستہ‘ غیردانستہ غلطیاں

دنیا کی سب سے سبک (برق) رفتار جنس ’سرمایہ‘ ہے۔ اِس کے پر نہیں ہوتے لیکن یہ طاقت پرواز رکھتی ہے۔ یہ آن کی آن میں اپنا ٹھکانہ بدل سکتی ہے اور اِس کی پرواز اُس بلندی سے بھی بلند ہو سکتی ہے‘ جس تک ہر جنس کو رسائی حاصل نہ ہو بالکل شاہین کی طرح جو آسمان کی وسعتوں اُور بلندیوں میں پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی ہوا ہے۔ تحریک انصاف نے ایسا ماحول پیدا کیا جس سے گھبرا کر سرمایہ کاروباری سرگرمیوں سے نکل کر کہیں بلندیوں میں روپوش ہو گیا۔ خوف اِس قدر تھا کہ سرمائے کو امریکی ڈالر اور دیگر غیرملکی کرنسیوں میں تبدیل کر کے ذخیرہ کر لیا گیا اُور یوں وہ سرمایہ جس کے بل بوتے پر پاکستان میں معاشی اور کاروباری سرگرمیاں جاری تھیں‘ دیکھتے ہی دیکھتے (آن 
کی آن میں) پرواز کر گیا۔


قومی سطح پر حساس فیصلہ سازی کرنے والوں سے آخر ایسی کونسی دانستہ او غیردانستہ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں‘ جن کی وجہ سے سرمایہ داروں نے کنارہ کشی اختیار کی؟ گیس کی قیمت میں اضافہ اور یہ اضافہ تین ہندسوں تک کر دیا گیا۔ بجلی کی قیمت بڑھی اُور یہ قیمت دو ہندسوں میں پہنچا دی گئی۔ ڈالر کی قدر بھی دو ہندسوں میں بڑھا دی گئی۔ اِن سبھی اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانیوں کی آمدنی میں غیرمعمولی کمی آئی۔ قوت خرید تیزی سے کم ہوئی۔ ماضی کی طرح اب گھر سے باہر کھانا کھانے کے لئے جانے والوں کا ہجوم نہیں ہوتا۔ شاپنگ مالز میں خریدوفروخت کرنے والوں کی تعداد بھی غیرمعمولی طور پر کم ہوئی ہے اور لوگ خریدنے کی بجائے مائل بہ فروخت ہیں۔ یہ سبھی محرکات حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے اثرات ہیں!


پاکستان کی اقتصادیات کا پہیہ رک گیا ہے۔ سرمایہ کاری اور لین دین نہیں ہو رہی۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں یا اُن کی سرگرمیاں سکڑ رہی ہیں۔ ادارے اپنے افراد بوجھ کو اُتار رہے ہیں۔ کم سے کم 1.1 ملین (گیارہ لاکھ) پاکستانی ایسے ہیں‘ جنہیں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ کم سے کم 4.1 ملین (41 لاکھ) پاکستانیوں کا شمار خط غربت سے نیچے زندگی بسر ہونے لگا ہے اُور یہ سب حکومت کی دانستہ و غیردانستہ غلطیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔


فاقی حکومت کے سامنے پہاڑ کی صورت کھڑے مسائل میں ’1600 ارب روپے‘ کا گردشی قرضہ‘ سرکاری اِداروں کا 1100 اَرب روپے‘ خسارہ اُور گیس کے شعبے میں کئی ارب ڈالر جیسے مستقل نقصانات شامل ہیں‘ جن سے چھٹکارہ حاصل کئے بغیر اقتصادی ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔


تحریک انصاف سے دانستہ اور غیردانستہ طور پر سرزد ہونے والی غلطیوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حکومت کے اقتصادی فیصلہ ساز خاطرخواہ اہل یا صاحب بصیرت نہ تھے۔ وہ یہ بات نہ سمجھ سکے کہ ٹیکس کی وصولی اقتصادی سرگرمی کا حاصل ہوتی ہے۔ اگر اقتصادی سرگرمیاں محدود ہو جائیں گی تو ٹیکس وصولی نہیں بڑھے گی۔ فیصلہ سازوں کی دانستہ اور غیردانستہ غلطیوں کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہوئیں جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر جا پہنچی یعنی رواں مالی سال میں لگائے گئے تخمینہ جات سے ’485 ارب روپے‘ کم ٹیکس وصول ہوا۔


پاکستان کی اقتصادیات ایک ”بحرانی دور“ سے گزر رہی ہے اُور اِس صورتحال سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار دیکھنے والے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کی جنگیں ’سوشل میڈیا‘ کے میدانوں میں لڑی جا رہی ہیں جہاں مفروضوں پر مبنی گمراہ کن معلومات عام کی جاتی ہیں‘ جس سے رائے عامہ متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا محاذ پر حملہ آور ہونے والوں کی کوشش ہے کہ وہ عوام اُور فوج کے اِدارے کے درمیان غلط فہمیاں اُور فاصلے پیدا کریں کیونکہ سوشل میڈیا اکیسویں صدی کا ہتھیار ہے۔ اِس کے ذریعے سیاسی بے چینی اور ابتری کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غلط معلومات کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے جس سے ملک کی اقتصادیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ دشمن پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے حملہ آور ہے۔ یہ صورتحال ’وینزویلا‘ نامی ملک جیسی ہے‘ جہاں بیرونی طاقتوں نے حکومتی اداروں اور عوام کے درمیان فاصلوں (عدم اعتماد) کے ذریعے اِسی طرح کے حالات پیدا کئے۔


ئے وزیر خزانہ‘ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے لئے مشکلات کی کمی نہیں۔ اُنہیں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کو حالت سکون میں لانا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے سے بات چیت کے ذریعے اُس قرض کے حصول کی کوشش کرنا ہے جو ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ بجلی اُور گیس کے شعبوں میں ہونے والے اَربوں ڈالر کے نقصانات پر قابو پانا ہے جبکہ اِس جیسے دیگر کئی ایک ’سنگین اِقتصادی چیلنجز‘ درپیش ہیں‘ جن کی فہرست طویل ہے۔ ایک بات جو پورے وثوق سے کہی اور حالات کے تناظر میں سمجھی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف اُور اِن مالیاتی اداروں کے تربیت یافتہ اہلکار کتابوں میں درج نظریات سے آگے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ ’لکیر کے فقیر‘ ہوتے ہیں‘ جو کسی اِقتصادی مشکل کا وہی حل پیش کرتے ہیں‘ جو کتابوں میں درج ہوتی ہے اُور اگر پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو درست کرنے کے لئے ’کتابی نظرئیوں‘ پر اکتفا کیا گیا تو اِس سے صورتحال سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑ جائے گی۔ 


(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

No comments:

Post a Comment