Sunday, May 12, 2019

Weaponized finance by Dr. Farrukh Saleem

Weaponized finance
اِقتصادی ہتھیار: مسلط جنگ!
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اَمریکہ کا محکمہ ¿ خزانہ دنیا بھر میں ایک خاص حکمت عملی کے تحت کام کرتے ہوئے عالمی سطح پر امریکی دفاعی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ اقتصادی امور کے ماہر اُور ’ایرایشیاءگروپ‘ کے بانی اِیان بریمر (Ian Bremmer) نے اِس حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”امریکہ ممالک کے ساتھ روائتی جنگ میں الجھنے کی بجائے اُن کے اقتصادی فیصلوں اور معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور پھر اِس اقتصادی حملے کے نتیجے میں کسی ہدف ملک کی اقتصادیات کو تباہ کر دیتا ہے۔“ ”یاہو فنانس (Yahoo Finance)“ نامی ویب سائٹ سے بات چیت کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ”آج کی دنیا میں حقیقت یہ ہے کہ ڈالر (امریکی کرنسی) کسی بھی جوہری بم سے زیادہ خطرناک ہتھیار ہے۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمت عملیاں مختلف رہی ہیں جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں امریکی صدر جارج واشنگٹن (George Washington) اور فرینکلن روزویلٹ (Franklin Roosevelt) کے ادوار میں عالمی سطح پر امریکی مفادات کا تحفظ کرنے اور امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل و حصول کے لئے مختلف حکمت عملیاں اختیار کی گئیں جبکہ موجودہ دور میں ’اقتصادیات سے بطور ہتھیار‘ کام لیا جا رہا ہے!“
امریکہ کے 76ویں وزیر خزانہ نے اقتصادیات اُور قومی مفادات کے حوالے سے منعقدہ ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اقتصادی طور پر کسی ملک پر گرفت کرنے کی حکمت عملی سے ایک نیا میدان جنگ معرض وجود میں آیا ہے۔ اب امریکہ کے فوجیوں کی جانیں خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے تاریخ کی نظروں میں مجرم بننے کی ضرورت رہی ہے۔“
اقتصادی جنگ مسلط کرنے کی اصطلاح سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کسی ملک کے اقتصادی فیصلوں کو اِس حد تک اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے کہ اُس کے تمام فیصلے بشمول دفاع بھی مفلوج ہو کر رہ جائے۔ دنیا میں اِس قسم کی جنگ صرف امریکہ ہی نہیں مسلط کر رہا بلکہ مالی طور پر مستحکم ممالک اپنے اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور اپنی قومی سلامتی کو ممکن بنانے کے لئے ’اقتصادی ہتھیاروں‘ ہی کا استعمال کر رہی ہیں۔ اِس سلسلے میں کئی دستاویزات اور خود امریکی حکام کے بیانات ’آن دی ریکارڈ‘ موجود ہیں‘ جنہوں نے کہیں اشارے کنائیوں تو کہیں واضح الفاظ میں اِس حقیقت کا اعتراف کیا کہ اقتصادی ہتھیار کے استعمال سے دنیا میں جغرافیائی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں جو ایک غیرروائتی ہتھیار ہے اُور یہ روائتی ہتھیاروں سے زیادہ کارگر ثابت ہوا ہے۔ 29 جنوری کے روز ’ویکی لیکس (WikiLeaks)‘ نامی ویب سائٹ نے امریکی فوج کی چند خفیہ دستاویزات منظرعام پر لائیں۔ اِن دستاویزات میں ایک دستاویز جس کا نمبر FM3-05-130 تھا‘ وہ ’غیرروائتی جنگی حکمت عملی‘ سے متعلق تھی اُور اِس میں تحریر تھا کہ .... ”امریکہ کی فوج ’عالمی مالیاتی ادارے (IMF)‘ اُور ’ورلڈ بینک (World Bank)‘ کو غیرروائتی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔“ اِس خفیہ حکمت عملی کے عیاں ہو جانے یعنی بھانڈا پھوٹ جانے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دنیا اُور بالخصوص مسلمان ممالک بشمول پاکستان خود کو ’آئی ایم ایف‘ اُور ’ورلڈ بینک‘ کے چنگل میں مزید پھنسنے کی بجائے اِس سے جلد از جلد چھٹکارہ پانے کی کوشش کرتے۔ اقتصادیات کو بطور ہتھیار استعمال کرنے سے متعلق امریکی فوجی حکمت عملی ظاہر ہونے کے بعد بھی اگر دنیا ہوش کے ناخن نہیں لے رہی تو یہ دانشمندانہ طرزعمل نہیں۔
امریکہ کی وزارت خزانہ اُور مرکزی خفیہ ادارہ (CIA) بظاہر دو الگ الگ حکومتی محکمے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی قریب رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ امریکہ کے وزیر خزانہ رہے ’ڈیوڈ کوہن (David Cohen)‘ کے عہدے کی مدت مکمل ہونے کے فوراً بعد اُنہیں ڈپٹی ڈائریکٹر ’سی آئی اے‘ تعینات کر دیا تھا‘ جس سے امریکی محکمہ ¿ خزانہ اُور خفیہ ادارے کے درمیان قربت (ایک جیسی حکمت عملی) کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
وہ زمانہ اب نہیں رہا جب کسی ملک پر بم برسائے جاتے ہیں۔ وہاں فوجیں اُتاری جاتی تھیں یا اُن پر زمینی فوجی دستے حملہ آور ہوتے تھے۔ آج کی دنیا میں امریکہ اقتصادی ہتھیار کو فتوحات کے لئے کامیابی سے استعمال کر رہا ہے‘ جس کے لئے اختیار کی جانے والی حکمت عملی انٹرنیٹ پر منحصر ’ڈیجیٹل‘ اسلوب بھی رکھتی ہے اور یہ کسی معیشت کو روائتی (قدیمی) طریقے سے چلانے والے نظام کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ اِس جدید ہتھیار سے جنگ میں دشمن ملک کا دفاع کرنے والوں کے جانی نقصانات نہیں ہوتے بلکہ مالی نقصانات اُور معاشی نظام پر دسترس حاصل کرکے کامیابی اپنے نام کی جاتی ہے۔
اقتصادی ہتھیاروں سے مسلط جنگ کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی میں کسی ریاست کے سبھی حصہ داروں پوری عوام‘ پوری سیاسی قیادت‘ فوجی قیادت‘ اقتصادی امور کے نگران فیصلہ سازوں اُور ہر سطح پر کاروباری طبقات کو مل جل کر حکمت عملی بنانا ہوگی کیونکہ اِس جنگ میں قومی وسائل اور افرادی قوت کی ترقی کو محدود جبکہ معیشت کو آسان فیصلوں سے بیرونی وسائل (عیاشیوں) کا عادی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ اِس لئے اقتصادی طور پر مسلط جنگ کے ہر محاذ پر مقابلہ کرنے کے لئے الگ الگ دفاعی حکمت عملیاں وقت کی ضرورت اُور پاکستان کے محفوظ مستقبل کے ناگزیر ہو چکی ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

No comments:

Post a Comment