ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پراسرار خاموشی!؟
’ماضی‘ اُور ’یاد ماضی‘ کو عذاب نہ سمجھنے والے اگر ’اپنے آباواجداد کی نشانیوں‘ باقی ماندہ فن تعمیر کے
نمونوں اُور اقدار و روایات‘ کے اَمین بن کر ”زندہ“ رہنا چاہتے ہیں تو اِس میں حرج ہی کیا ہے؟ ماضی کو ’حال اُور مستقبل‘ سے جوڑ کر بہتری اُور سب سے بڑھ کر اپنی شناخت کا تحفظ چاہنے والے کسی بھی طرح سطحی فکروعمل کے مالک نہیں اُور نہ ہی اِن کی ”بے لوث جدوجہد“ کو معمولی سمجھنا چاہئے۔ کسی معاشرے میں ایسے ’بیدار‘ افراد کی تعداد ہمیشہ کم ہی ہوتی ہے‘ جو شعوری طور پر دوسروں کی رہنمائی کرنے میں عقل و منطق پر مبنی مثبت سوچ کے موتی (خیرات) بانٹ رہے ہوتے ہیں۔
پشاور کو محبوب بنائے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دردمندوں پر مشتمل ”ہیریٹیج ڈیفنس کونسل“ نامی غیرسرکاری تنظیم (Pressure Group) کسی نعمت سے کم نہیں لیکن افسوس کہ عوام کے منتخب اراکین اسمبلی‘ بلدیاتی نمائندے اُور سرکاری اہلکار خاطرخواہ تعاون نہیں کر رہے‘ جس کی ایک مثال مذکورہ کونسل کی جانب سے ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) کو لکھے گئے 2 خطوط ہیں‘ جنہیں ارسال کئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن (حسب توقع) ’اسسٹنٹ ڈائریکٹر پراپرٹی‘ اُور ’ڈسٹرکٹ ناظم‘ کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ پہلا خط ’چودہ مئی‘ اُور دوسرا خط ’پندرہ مئی‘ کو بذریعہ ’پوسٹ آفس‘ رجسٹرڈ میل ارسال کیا گیا‘ جن کی رسیدیں (اَسناد) بھی موجود ہیں۔ اِن خطوط کو ’بائی پوسٹ‘ اِرسال کرنے کے بعد ’ہیٹریج ڈیفنس کونسل‘ کے عہدیدار فرداً فرداً سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے متعلقہ دفاتر سے کئی مرتبہ بہ نفس نفیس رجوع بھی کر چکے ہیں لیکن ہر طرف ’ہو کا عالم‘ اُور ’پراسرار خاموشی‘ چھائی ہوئی ہے‘ جس سے اگر یہ مطلب اَخذ کیا جائے تو کیا غلط ہوگا کہ .... ”پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑے اثاثوں کی خرید و فروخت‘ اُنہیں نقصان پہنچانے اُور تجاوزات کی صورت پشاور کے وسائل سے ذاتی استفادہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی سیاسی و غیر سیاسی‘ منتخب و غیرمنتخب فیصلہ سازوں پر مشتمل ایک طبقہ کر رہا ہے!“ یہی سبب ہے کہ ’پشاور کا درد‘ اگر آج ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہا اُور پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑے ’اثاثوں کی حفاظت‘ اَخباری بیانات میں اِظہار تشویش و پریشانی سے زیادہ نہیں ملتی‘ تو یہ طرزعمل بہرحال تبدیل (پشاور کے حق میں اصلاح) ہونا چاہئے!
نمونوں اُور اقدار و روایات‘ کے اَمین بن کر ”زندہ“ رہنا چاہتے ہیں تو اِس میں حرج ہی کیا ہے؟ ماضی کو ’حال اُور مستقبل‘ سے جوڑ کر بہتری اُور سب سے بڑھ کر اپنی شناخت کا تحفظ چاہنے والے کسی بھی طرح سطحی فکروعمل کے مالک نہیں اُور نہ ہی اِن کی ”بے لوث جدوجہد“ کو معمولی سمجھنا چاہئے۔ کسی معاشرے میں ایسے ’بیدار‘ افراد کی تعداد ہمیشہ کم ہی ہوتی ہے‘ جو شعوری طور پر دوسروں کی رہنمائی کرنے میں عقل و منطق پر مبنی مثبت سوچ کے موتی (خیرات) بانٹ رہے ہوتے ہیں۔
پشاور کو محبوب بنائے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دردمندوں پر مشتمل ”ہیریٹیج ڈیفنس کونسل“ نامی غیرسرکاری تنظیم (Pressure Group) کسی نعمت سے کم نہیں لیکن افسوس کہ عوام کے منتخب اراکین اسمبلی‘ بلدیاتی نمائندے اُور سرکاری اہلکار خاطرخواہ تعاون نہیں کر رہے‘ جس کی ایک مثال مذکورہ کونسل کی جانب سے ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) کو لکھے گئے 2 خطوط ہیں‘ جنہیں ارسال کئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن (حسب توقع) ’اسسٹنٹ ڈائریکٹر پراپرٹی‘ اُور ’ڈسٹرکٹ ناظم‘ کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ پہلا خط ’چودہ مئی‘ اُور دوسرا خط ’پندرہ مئی‘ کو بذریعہ ’پوسٹ آفس‘ رجسٹرڈ میل ارسال کیا گیا‘ جن کی رسیدیں (اَسناد) بھی موجود ہیں۔ اِن خطوط کو ’بائی پوسٹ‘ اِرسال کرنے کے بعد ’ہیٹریج ڈیفنس کونسل‘ کے عہدیدار فرداً فرداً سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے متعلقہ دفاتر سے کئی مرتبہ بہ نفس نفیس رجوع بھی کر چکے ہیں لیکن ہر طرف ’ہو کا عالم‘ اُور ’پراسرار خاموشی‘ چھائی ہوئی ہے‘ جس سے اگر یہ مطلب اَخذ کیا جائے تو کیا غلط ہوگا کہ .... ”پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑے اثاثوں کی خرید و فروخت‘ اُنہیں نقصان پہنچانے اُور تجاوزات کی صورت پشاور کے وسائل سے ذاتی استفادہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی سیاسی و غیر سیاسی‘ منتخب و غیرمنتخب فیصلہ سازوں پر مشتمل ایک طبقہ کر رہا ہے!“ یہی سبب ہے کہ ’پشاور کا درد‘ اگر آج ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہا اُور پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑے ’اثاثوں کی حفاظت‘ اَخباری بیانات میں اِظہار تشویش و پریشانی سے زیادہ نہیں ملتی‘ تو یہ طرزعمل بہرحال تبدیل (پشاور کے حق میں اصلاح) ہونا چاہئے!
”پشاور ہیریٹیج ڈیفنس کونسل“ بنام ’اَسسٹنٹ ڈائریکٹر (پراپرٹی) سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو لکھے گئے خط بعنوان ”2000ءسے 2019ءتک فصیل شہر کے بارے میں معلومات زیردفعہ 3 معلومات تک رسائی“ میں ”9 سوالات“ پوچھے گئے۔ اِن سوالات میں 1: مذکورہ عرصے میں (پشاور کی) فصیل شہر کو کتنی مرتبہ مسمار کیا گیا؟ 2: سٹی ڈسٹرکٹ حکومت نے اِس قانون شکنی کے مرتکب ملزمان کے خلاف کتنی مرتبہ قانونی کاروائی کی گئی؟ 3: کتنے مقدمات قائم ہوئے‘ عدالتی کاروائیاں ہوئیں؟ 4: فصیل شہر کو کلی یا جزوی طور پر نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ ’ضلعی حکومت‘ نے کیا معاملہ کیا اُور کتنے مقدمات دائر کرنے کے بعد ختم کئے گئے؟ 5: مذکورہ اُنیس برسوں میں فصیل شہر کو نقصان پہنچانے والے کتنے ملزموں کو سزائیں ہوئیں؟ 6: کتنے مقدمات اب بھی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں؟ 7: صوبائی حکومت اُور ضلعی حکومت ’فصیل شہر‘ و دیگر تاریخی مقامات کی حفاظت کے لئے سالانہ کتنے مالی وسائل (گرانٹ) مختص کرتی ہے۔ 8: خیبرپختونخوا کے آثار قدیمہ سے متعلق قانون (Antiquities Act 2016) کے تحت ’سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ‘ کی ذمہ داریاں (فرائض) کیا ہیں اُور 9: مذکورہ عرصے (سال دوہزار سے دوہزار اُنیس تک) فصیل شہر کا نشان مٹا کر کتنی کمرشل جائیدادیں بنائی گئیں اُور اِس رجحان کے خلاف ’ضلعی حکومت‘ نے کیا اقدامات کئے؟ اصولی طور پر ایسا ہی ایک مکتوب خیبرپختونخوا کے ’محکمہ ¿ آثار قدیمہ‘ کے سربراہ بالخصوص پشاور شہر سے متعلق آثار قدیمہ کے نگران کو بھی ارسال کیا جانا چاہئے تھا‘ جنہیں عوام کے ٹیکسوں سے عہدے (اختیارات)‘ تنخواہیں اُور مراعات اِسی لئے باقاعدگی سے دی جاتی ہیں تاکہ وہ ’قانون شکنوں کے نہیں‘ بلکہ عوامی (پشاور کے) مفادات کا تحفظ کریں!
دوسرا خط ”پشاور ہیریٹیج ڈیفنس کونسل“ بنام ضلع ناظم (پشاور) بعنوان ”تصدیق شدہ جملہ دستاویزات برائے منظوری تعمیراتی نقشہ جات مسماة نسیم آفتاب زوجہ نور حضرت“ سولہ مئی (دوہزار اُنیس) کو ’پوسٹ آفس‘ کی ’رجسٹرڈ میل‘ ہی کے ذریعے ارسال کیا گیا لیکن ضلع پشاور کے ناظم یا اُن کے دفتر سے اِس کا تحریری یا زبانی کلامی جواب بھی تاحال موصول نہیں ہوا۔ درخواست گزار تنظیم کی جانب سے مدعا نہایت ہی سادہ ہے کہ ”(گذشتہ چند ہفتوں کے دوران) بیرون کوہاٹی گیٹ‘ کے مقام پر ’فصیل شہر‘ کے جس ٹکڑے کو منہدم (شکار) کیا گیا اُس سے ملحقہ تعمیراتی کام کا نقشہ ’ضلعی حکومت‘ کی منظوری سے جاری ہوا۔ مذکورہ قطعہ ¿ اراضی (پلاٹ) ’مسماة نسیم آفتاب زوجہ نور حضرت سکنہ چرچ روڈ پشاور‘ کی ذاتی ملکیت ہے‘ جس کی جملہ دستاویزات اُور نقشے کی تصدیق شدہ نقول (کاپیاں) (ہیریٹیج کونسل کو) فراہم کی جائیں تاکہ فصیل شہر کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں تیزی لائی جا سکے“۔
مقصد و ہدف (مطلوب) یہاں بھی نہایت ہی واضح ہے کہ اگر پشاور کے آثار قدیمہ کی اہمیت خاطر میں نہ لانے والے (بے قدرے) قانون شکنوں کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو آثار قدیمہ سے جڑی نشانیاں ایک ایک کر کے (ہماری دیکھتے ہی دیکھتے) ختم ہوتی چلی جائیں گی اُور پھر پچھتائے کیا ہوگا‘ جبکہ چڑیاں کھیت چگ گئی ہوں گی! یہاں بھی ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِسی قسم کی خط و کتابت کے ذریعے خیبرپختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ کو جگایا (جھنجھوڑا) جائے اُور کیا مضائقہ ہے کہ اگر پشاور سے منتخب ہونے والے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں‘ ضلعی حکومت اُور سینیٹرز سمیت بالخصوص حزب اختلاف کے اراکین کو بھی اِس جانب متوجہ کیا جائے۔ اگر مالی وسائل دستیاب ہوں تو ”پشاور ہیریٹیج ڈیفنس کونسل“ کے پلیٹ فارم سے ”تحفظ پشاور کانفرنس“ کے لئے ’کل جماعتی نشست (بیٹھک)‘ طلب کرنے سے بھی ’پشاور شناسی اُور یہاں کے آثار‘ حقوق و اثاثوں‘ سے جڑے پیچیدہ مسائل‘ بشمول متعلقہ حکومتی اِداروں کی کارکردگی اُور حسب شان و ضرورت اِقدامات کو زیادہ بڑے پیمانے پر اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment