Sunday, June 2, 2019

TRANSLATION: A weaponised space by Dr Farrukh Saleem

A weaponised space
مسلط جنگ: پرخطر محاذ!

دنیا میں ’انٹرنیٹ‘ سے استفادہ کرنے والے صارفین کی تعداد ’4.5 ارب‘ ہے جن میں 10 صارف فی سکینڈ کی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا تیزی سے مقبول ہونے کے ساتھ سماجی و انفرادی روئیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے اُور عمومی سطح دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کی وجہ سے برداشت ختم ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا کیا ہے؟ یہ اظہار کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو بناءکسی بڑی لاگت‘ بناءکسی نگرانی اُور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اثر کرنے والا ہتھیار ہے۔ ریاستی اور غیرریاستی عناصر سوشل میڈیا کا استعمال مختلف اہداف کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرتے ہیں‘ جن میں فرضی معلومات‘ جھوٹ پر مبنی اطلاعات اُور افواہیں پھیلانا بھی شامل ہے۔

پاکستان پر جنگ مسلط ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے‘ جس کے آغاز کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا اُور نہ ہی اِس کے لئے باقاعدہ فوج کشی کی گئی ہے۔ اِس جنگ میں عوام کے نکتہ ¿ نظر اُور اُن کے نظریات و روئیوں پر اثرانداز ہوا جا رہا ہے۔ اِس جنگ کی کوئی سرحد اور جغرافیائی علاقہ (حدود) بھی معین نہیں جبکہ اِس جنگ میں ریاستی و غیرریاستی عناصر جسمانی طور پر حصہ لینے کی بجائے ’سوشل میڈیا آلات‘ کے ذریعے وار (حملہ) اُور جوابی وار (دفاع) کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کا استعمال پاکستان پر حملہ آور ہونے والوں نے کیا ہے‘ جس کے ذریعے اقدار‘ عقائد‘ تاثرات‘ جذبات‘ تحریکی خیالات‘ دلائل اُور روئیے نشانے پر ہیں اُور اِس کے ذریعے وہ سبھی اہداف‘ ایک ایک کر کے‘ حاصل کئے جا رہے ہیں جو کسی ملک پر باقاعدہ فوج کشی کی صورت میں پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا کا پہلا وار ’دانستہ طور پر‘ غلط خبریں پھیلانا ہوتا ہے اُور ایسی افواہیں بھی جن کے ذریعے عوام میں مایوسی پھیلے۔ اُنہیں اپنا اُور ریاست کا مستقبل تاریک نظر آنے لگے۔ اُن میں مایوسی اور نااُمیدی جیسے جذبات پیدا ہوں اُور وہ بہتری کے لئے کوشش یا اصلاحات کے لئے حکومتی اقدامات کا اعتبار نہ کریں۔ اِس طرح معاشرے میں نفرت‘ بداعتمادی اور انتشار پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کے ایک مقبول ذریعے ’ٹوئیٹر (twitter)‘ کی بات کریں تو اِس کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں فرضی ناموں سے صارفین کے اکاو ¿نٹس کی مدد سے ’گمراہ کن حقائق اُور اعدادوشمار‘ پر مبنی اطلاعات کو اِس قدر بڑے پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے کہ جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگے۔ ہر طرف سے ’غلط اطلاعات و معلومات‘ کے بم برسائے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی صارف درست خبر‘ ایک ’نئے موضوع (Hashtag)‘ سے جاری کرتا ہے تو اُس ’ہیش ٹیگ‘ کو استعمال کرتے ہوئے یلغار کر دی جاتی ہے‘ جس سے اصل بات‘ موضوع اور حقائق دب کر رہ جاتے ہیں یا کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ اِس قسم کی کاروائیاں خودکار انداز میں کمپیوٹر پروگراموں کے ذریعے سے بھی کئے جاتے ہیں‘ جنہیں ’بوٹس (bots)‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ’بوٹس‘ کسی اِنسان کی طرح سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اُور جب اِن کو دیئے گئے عنوانات یا موضوعات سے متعلق کوئی صارف کچھ لکھتا ہے‘ تو اُس کے ٹوئیٹر پیغام کو دیگر صارفین تک پہنچنے نہ دینے کے لئے اُس پر ہونے والی بحث کو کسی دوسری سمت میں موڑ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی تکنیکی قسم کی چال ہے‘ اُور سوشل میڈیا کے بارے میں عمومی یا سطحی معلومات رکھنے والے صارف کی سمجھ میں یہ بات (طریقہ واردات) باآسانی نہیں آتی!

پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ”سوشل میڈیا وسائل“ سے استفادہ کرتی ہے‘ جن میں معروف سائٹس ’فیس بک (facebook)‘ ٹوئیٹر (Twitter)‘ یو ٹیوب (You Tube)‘ اُور انسٹا گرام (Instagram)‘ شامل ہیں اُور انہی کے ذریعے دل کا حال (خبروں یا معلومات) کا دنیا سے تبادلہ کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت کو اُس جنگ کے بارے میں قطعی کوئی اندازہ ہی نہیں جو مسلط ہے‘ اُور جس میں صارفین کی ’آن لائن سرگرمیوں‘ پر بھی نظر رکھی جاتی ہے‘ تاکہ اُنہیں ’ہدف (ٹارگٹ)‘ بنایا جا سکے۔ القصہ مختصر سوشل میڈیا ایک ایسا غیر فوجی جنگی ہتھیار ہے جس سے جنگی مقاصد
و اہداف حاصل کئے جا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا ’تباہ کن‘ اُور ’باعث ہلاکت‘ اثرات رکھتا ہے۔ اِس میں اِنسانوں کے خیالات اُور اُن کے عقائد و نظریات کو تبدیل یا الجھایا جا رہا ہے اُور عجیب (زیادہ پریشان کن) بات یہ ہے کہ جن سوشل میڈیا صارفین پر جنگ مسلط ہے‘ اُنہیں اِس بات کا احساس بھی نہیں۔ ہدف صرف ایک ہے کہ پاکستان کو کمزور بنایا جائے۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت‘ سیاسی حکمرانوں اُور ریاست کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں۔

پاکستان کو کمزور اُور ناتواں یا ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کیا جائے‘ جو (خدانخواستہ) ناکام ہونے جا رہی ہے اُور جس کا کوئی (روشن) مستقبل نہیں! سوشل میڈیا وسائل سے استفادہ کرنے والوں کو اِن حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اپنی ’آن لائن سرگرمیوں‘ میں پہلے سے زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ سوشل میڈیا کی شرانگیزیاں توجہ طلب ہیں۔ ہر اطلاع اور ہر خبر درست نہیں ہوتی بالکل اِسی طرح سوشل میڈیا پر زیرگردش (وائرل اُور مقبول عام) ہر تصور اُور تصویر بھی حقائق کے برخلاف ’دروغ گوئی یا جعل سازی‘ کا مجموعہ ہو سکتی ہے! 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment