Dear prime minister
بنام ’وزیر اعظم‘
جناب عالیٰ‘ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ آپ پاکستان کے ایسے پہلے وزیراعظم ہیں‘ جس نے ’انسداد بدعنوانی‘ اُور ’غربت کے خاتمے‘ کو اپنی ذاتی و سیاسی ترجیحات کا محور و مرکز بنا رکھا ہے اُور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو ہر قسم کی بدعنوانی اُور ہر قسم کی غربت و پسماندگی سے نجات کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے جنہوں نے حالیہ عام انتخابات (جولائی 2018ئ) میں تحریک انصاف کو ملک کے چاروں صوبوں میں منتخب کیا اُور اِس وقت تحریک انصاف ملک کی واحد قومی سیاسی جماعت دکھائی دیتی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد آپ کے اقدامات اُور حکمت عملیاں عوام میں خاطرخواہ مقبول نہیں رہیں!
اقتدار کے ساتھ جڑے چند حقائق آپ کے پیش نظر رہنے چاہیئں کہ صاحبان اقتدار کو خوشامدی اور مفاد پرست ٹولے گھیر لیتے ہیں‘ جن کی اپنی ترجیحات اور اہداف ہوتے ہیں اُور وہ ذاتی مفادات کے لئے حکمرانوں کو گمراہ کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہی تاثر ’تحریک انصاف‘ سے تعلق رکھنے والے جملہ حکمرانوں بشمول وزارت عظمیٰ جیسے منصب سے متعلق بھی ہے کہ اِنہیں برسرزمین حالات کی جو تصویر دکھائی جاتی ہے‘ وہ گمراہ کن حد تک غلط ہے۔
جناب عالی‘ ہر پاکستانی مرد و عورت اُور بچہ سالانہ اوسطاً ”13 ہزار روپے“ مختلف ٹیکسوں کی مد میں ادا کرتا ہے‘ جن میں سیلز ٹیکس‘ پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ڈیوٹیاں اُور کسٹم ڈیوٹی شامل ہے لیکن آمدنی کے لحاظ سے کم حیثیت رکھنے والوں پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کی بجائے ہر سال بڑھ رہا ہے اُور شنید ہے کہ آنے والے بجٹ میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرتے ہوئے ’1.4 کھرب روپے‘ مالیت کے اضافی ٹیکس وصول کئے جائیں گے۔ اِس اضافے سے ہر پاکستانی خاندان کو سالانہ اوسطاً ”47 ہزار روپے“ اَدا کرنا پڑیں گے۔ آپ کو یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہر ایک فیصد ٹیکس بڑھانے سے ملک کی اقتصادی ترقی 1.68فیصد کم ہو جاتی ہے۔ یہ بات ایک حالیہ تحقیق میں سامنے آئی ہے جس کا عنوان ہے ”An empirical analysis of Pakistan“ اُور اِسے شہزاد احمد‘ مقبول سیال اُور ناصر احمد نے ’پاکستان جرنل آف اپلائیڈ اکنامکس‘ کے شمارے (Vol.28 No.1 Summer 2018) کے لئے تحریر کیا تھا۔ اگر ٹیکسوں کی بڑھائی گئی تو اِس سے فی کس آمدنی میں مستقلاً کمی واقع ہوگی اُور یہ بات ایک اُور تحقیق سے ثابت کی گئی جو احتشام الحق اُور نعیم اکرم نے پیش کی ہے۔ اقتصادیات کے ماہرین کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ ٹیکسوں میں اضافے کی بجائے پیداوار میں اضافہ ہونا چاہئے تاکہ زیادہ پیداوار سے زیادہ ٹیکس حاصل ہوں۔ اگر بناءپیداوار میں اضافے ٹیکس کی شرح بڑھائی جاتی رہے گی تو عوام یہ ٹیکس کہاں سے اَدا کریں گے جو پہلے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوں گے اُور جن کے پاس روزگار نہیں ہوگا تو وہ بنیادی ضرورت کی اشیائے ضروریہ مہنگے داموں خریدنے کی سکت کہاں سے لائیں گے اُور کب تک اِس حال میں گزربسر کر سکیں گے۔ جناب وزیراعظم صاحب‘ اگر آپ کو اِس بات پر یقین نہ ہو تو جنوبی افریقہ کی مثال برائے مطالعہ موجود ہے‘ جہاں ٹیکس عائد کرنے کے سبب اقتصادی نشوونما متاثر ہوئی۔ دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھنا عقلمندوں کی نشانی ہوتا ہے۔
جناب عالیٰ‘ ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت ٹیکسوں کی بجائے ایسا مالیاتی ماحول فراہم کرتی ہیں‘ جن میں کاروباری سرگرمیاں نشوونما پائیں۔ عوام کی آمدن بڑھے لیکن پاکستان میں اِس کے برعکس (اُلٹ) صورتحال ہے کہ ایک طرف پیداوار کم ہونے کی وجہ سے آمدنی کم ہے اُور دوسری طرف حکومت کے عائد ٹیکسوں کی شرح میں ہر سال اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
جناب عالیٰ‘ پاکستان میں صنعتوں اُور کاروبار پر عائد (کارپوریٹ) ٹیکس کی شرح دنیا میں بلند ترین ہے‘ جو دنیا کی تیسری بلند شرح بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کے سیاست دانوں کی اِس لحاظ سے مثال نہیں ملتی کہ یہ دنیا کو باور کرواتے ہیں کہ اُن کے ہم وطن ٹیکس چور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ’مالی امداد‘ اُور ’قرض‘ دینے والوں کی خواہش پر کیا جاتا ہے اُور اگر پاکستان کے زمینی حقائق یعنی عوام کی غربت اور پیداواری کمی کو خاطر میں نہ لایا گیا تو ٹیکس وصولی میں کمی ہوتی چلی جائے گی۔
جناب عالیٰ‘ پاکستان مالیاتی بحران کا شکار ہے لیکن اِس بحران سے کا حل ٹیکسوں کی شرح میں ”اِضافہ در اِضافہ“ نہیں۔ حکومت کو اپنی آمدن میں اضافے کے لئے دو ہی طریقے اِختیار کرنا پڑتے ہیں‘ ایک تو ٹیکسوں میں اِضافہ کرے اُور دوسرا اپنے اَخراجات میں کمی لائے۔ گزشتہ 37 برس میں دنیا کے 21 ممالک نے مالیاتی اصلاحات کیں اُور اپنی آمدنی میں 85فیصد کمی پر قابو پانے کے لئے ٹیکسوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے اپنے اخراجات میں غیرمعمولی کمی کے ذریعے مالیاتی اصلاحات جیسے اہداف حاصل کئے۔ جناب عالیٰ‘ پاکستان حکومت کا مسئلہ ٹیکسوں کی کم شرح نہیں بلکہ حکومتی آمدن کے مقابلے حد سے زیادہ (غیرترقیاتی) اخراجات ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
No comments:
Post a Comment