ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام....اٹھارہ جولائی دوہزار اُنیس
روٹی کا مقدمہ!
پشاور کس سے فریاد کرے؟ اہل پشاور کو اِس بات (محرومی) کا شدت احساس سے ہورہا ہے کہ (اجتماعی) عوامی مفادات کا تحفظ کرنے میں صوبائی حکومت‘ ضلعی و بلدیاتی نمائندے اُور کمشنری نظام ”عملاً ناکام“ ثابت ہوئے ہیں۔ عام آدمی (ہم عوام) کی وابستہ توقعات اگر جمہوری طرز حکمرانی سے پوری نہیں ہو رہیں‘ تو اِس بارے میں خود کو عوام کا نمائندہ کہنے والوں کو بھی اپنے طرزفکروعمل اپنے بارے میں عوامی رائے پر غور کرنا چاہئے کیونکہ ”ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی!“
فیصلہ سازوں (صاحبان اقتدار) اُور عوام کے درمیان فاصلہ اُور خلاءنہیں ہونا چاہئے کیونکہ جہاں کہیں ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے وہاں دیگر حکومتی ادارے بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر رواں ہفتے پشاور ہائی کورٹ نے فی روٹی کی قیمت ’15 روپے‘ مقرر کئے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر پشاور کو بمعہ متعلقہ دستاویزات (ریکارڈ) آئندہ پیشی (24 جولائی) پر طلب کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ .... ”اگر مقررہ تاریخ پر روٹی کی قیمت میں اضافے سے متعلق عدالت کی تسلی تشفی نہ کرائی گئی اُور ڈپٹی کمشنر حاضر نہ ہوئے تو (سنگل) روٹی کی پرانی قیمت ’5 روپے‘ بحال کر دی جائے گی۔“ عدالت عالیہ کے سامنے ’روٹی کا مقدمہ‘ آفاق حسین نامی درخواست گزار نے پیش کیا ہے‘ جن کی جانب سے خورشید خان ایڈوکیٹ نے اپنے موکل کے لئے ’فوری ریلیف‘ حاصل کرنے کی استدعا کی اُور اپنے موقف پر زور دیا تو ’2 رکنی‘ بینچ (جسٹس ہلالی اُور جسٹس ابراہیم) نے ’مرکزی کردار (ڈپٹی کمشنر پشاور) کو طلب کرنے اُور تمام ریکارڈ دیکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ بصورت دیگر مقدمے کا فیصلہ ’یک طرفہ‘ کہلاتا۔ اگرچہ روٹی کے وزن اور قیمت سے متعلق اب تک ہوئی سماعت میں ’ڈپٹی کمشنر پشاور‘ کے کردار کا احتساب شامل نہیں لیکن اُمید ہے کہ آئندہ سماعت پر افسرشاہی کا محاسبہ بھی ہوگا جن کے لئے روٹی کی قیمت 10 سے 15 روپے کرنا کوئی بڑی بات نہیں اُور اِس بارے بھی یقینا استفسار ہوگا کہ جب ضلع ناظم (ارباب عاصم) نے مہنگائی کی شرح میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے روٹی کی فی قیمت میں 2 روپے اضافے کا فیصلہ کر دیا تھا تو اِس فیصلے پر فیصلہ کرنے کا اختیار ’ڈپٹی کمشنر‘ کو کیسے منتقل ہوا؟
نانبائیوں کے جن نمائندوں نے ضلع ناظم اُور ڈپٹی کمشنر پشاور سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اُن کی اصلیت کے بارے میں بھی غور ہونا چاہئے کہ بیک وقت اگر ایک سے زیادہ نانبائیوں کی تنظیمیں موجود ہیں تو اُن میں سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے اختیار و تائید کس کے پاس ہونی چاہئے!
فیصلہ سازوں (صاحبان اقتدار) اُور عوام کے درمیان فاصلہ اُور خلاءنہیں ہونا چاہئے کیونکہ جہاں کہیں ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے وہاں دیگر حکومتی ادارے بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر رواں ہفتے پشاور ہائی کورٹ نے فی روٹی کی قیمت ’15 روپے‘ مقرر کئے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر پشاور کو بمعہ متعلقہ دستاویزات (ریکارڈ) آئندہ پیشی (24 جولائی) پر طلب کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ .... ”اگر مقررہ تاریخ پر روٹی کی قیمت میں اضافے سے متعلق عدالت کی تسلی تشفی نہ کرائی گئی اُور ڈپٹی کمشنر حاضر نہ ہوئے تو (سنگل) روٹی کی پرانی قیمت ’5 روپے‘ بحال کر دی جائے گی۔“ عدالت عالیہ کے سامنے ’روٹی کا مقدمہ‘ آفاق حسین نامی درخواست گزار نے پیش کیا ہے‘ جن کی جانب سے خورشید خان ایڈوکیٹ نے اپنے موکل کے لئے ’فوری ریلیف‘ حاصل کرنے کی استدعا کی اُور اپنے موقف پر زور دیا تو ’2 رکنی‘ بینچ (جسٹس ہلالی اُور جسٹس ابراہیم) نے ’مرکزی کردار (ڈپٹی کمشنر پشاور) کو طلب کرنے اُور تمام ریکارڈ دیکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ بصورت دیگر مقدمے کا فیصلہ ’یک طرفہ‘ کہلاتا۔ اگرچہ روٹی کے وزن اور قیمت سے متعلق اب تک ہوئی سماعت میں ’ڈپٹی کمشنر پشاور‘ کے کردار کا احتساب شامل نہیں لیکن اُمید ہے کہ آئندہ سماعت پر افسرشاہی کا محاسبہ بھی ہوگا جن کے لئے روٹی کی قیمت 10 سے 15 روپے کرنا کوئی بڑی بات نہیں اُور اِس بارے بھی یقینا استفسار ہوگا کہ جب ضلع ناظم (ارباب عاصم) نے مہنگائی کی شرح میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے روٹی کی فی قیمت میں 2 روپے اضافے کا فیصلہ کر دیا تھا تو اِس فیصلے پر فیصلہ کرنے کا اختیار ’ڈپٹی کمشنر‘ کو کیسے منتقل ہوا؟
نانبائیوں کے جن نمائندوں نے ضلع ناظم اُور ڈپٹی کمشنر پشاور سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اُن کی اصلیت کے بارے میں بھی غور ہونا چاہئے کہ بیک وقت اگر ایک سے زیادہ نانبائیوں کی تنظیمیں موجود ہیں تو اُن میں سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے اختیار و تائید کس کے پاس ہونی چاہئے!
رواں ماہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں روٹی کی قیمت دس سے پندرہ روپے اضافے کی خبر ’جنگل کی آگ‘ کی طرح پھیلی۔ اگر روٹی کی قیمت پانچ روپے کم کی گئی ہوتی تو اکثر دکاندار کہتے اُنہیں ابھی تک حکومت کا اعلامیہ (نوٹیفیکشن) یا اپنی تنظیم کی طرف سے نرخنامہ موصول نہیں ہوا لیکن چونکہ یہاں بات اضافے کی تھی‘ اِس لئے بناءغور کئے اُور بناءتفصیلات میں گئے نانبائیوں نے روٹی کی قیمت بڑھانے پر فوری عمل درآمد کر لیا لیکن روٹی کی قیمت میں حالیہ اِضافے کی کہانی اُور مقدمہ اپنی جگہ دلچسپ پہلو رکھتے ہیں کہ عدالت کے روبرو پیش ہونے سے قبل یہ مقدمہ ’وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا‘ محمود خان کی عدالت میں پیش ہو چکا ہے البتہ فرق یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے روٹی کے ”مقررہ وزن“ میں کمی کا نوٹس لیا گیا قیمت کا نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ نانبائیوں نے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ مذاکرات میں یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ 15روپے کے عوض ’190گرام‘ روٹی فروخت کریں گے۔
روٹی کا وزن اُس کی پختہ حالت میں کیا جاتا ہے لیکن نانبائی ایسوسی ایشن نے کمال مہارت سے روٹی کی قیمت میں اضافے کا نوٹیفیکشن تو جاری کروا دیا لیکن پختہ روٹی کا وزن نہیں بڑھایا۔ اِس ناانصافی پر عوامی حلقوں بالخصوص حزب اختلاف سے سیاسی جماعتوں نے شدید احتجاج کیا۔ جس کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلی نے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کا اجلاس طلب کیا اُور کم وزن روٹی بیچنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی ہدایت جاری کی۔ سیاسی فیصلہ سازوں کی جانب سے اِس قسم کے ’زبانی کلامی ہدایت ناموں‘ کی تاریخ رہی ہے کہ اِنہیں تاجر ہوں یا نانبائی‘ دکاندار ہوں یا صنعتکار‘ قصاب ہوں یا چائے فروش کبھی بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ وزیراعلیٰ نے لگے ہاتھوں روٹی کے وزن سے متعلق شکایات سے ’ڈپٹی کمشنر پشاور‘ کو آگاہ کرنے کا مشورہ بھی دیا‘ جو عام آدمی (ہم عوام) کی سمجھ میں نہیں آ سکا کہ آخر ڈپٹی کمشنر پشاور‘ کون سے پشاور میں رہتے ہیں کہ اُنہیں پشاور میں اپنے ہی مقررکردہ روٹی کے وزن سے متعلق علم نہیں اُور ایک عام آدمی کس طرح ڈپٹی کمشنر کے دربار میں اپنی شکایت درج کروانے جائے؟ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ڈپٹی کمشنر پشاور (صاحب بہادر) کا کام صرف یہی تھا کہ جناب روٹی کا وزن اُور قیمت مقرر کرتے لیکن اِس پر عمل درآمد کسی دوسرے حکومتی محکمے کی ذمہ داری ہے؟ کیا ضلع ناظم (ارباب عاصم) اُور عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی میں کمشنری حکمران (کمشنر‘ ڈپٹی کمشنرز اُور اسسٹنٹ کمشنر وغیرہ) ہونے چاہئیں؟ وزیراعلیٰ محمود خان کا یہ بیان آن دی ریکارڈ موجود ہے کہ ”ناجائز منافع خوری کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی“ لیکن ناجائز منافع خوری تجاوزات کی طرح ہر حکومت کی طرح موجودہ صوبائی حکومت کے لئے بھی کھلا چیلنج ہے!
پشاور شہر میں منافع خوروں اور کم وزن روٹی بیچنے والے نانبائیوں کے خلاف کریک ڈاو ¿ن سے متعلق ضلعی انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کو بریفنگ دے رکھی ہے اُور صوبائی حکومت کا عزم ہے کہ وہ ’عوامی مشکلات‘ رفع کرنے کے لئے ہر ممکن حد تک جائے گی لیکن یہ ساری ”خوبصورت باتیں“ اپنی جگہ اُس ایک ”بدصورت حقیقت“ کو عوام کے حق میں مفید نہیں بنا سکی ہیں‘ جو روٹی کے وزن اُور اِس کی قیمت سے متعلق ہے! یہی وجہ رہی کہ ایک شہری کو انصاف کے لئے عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا‘ جہاں پہلے ہی زیرالتوا ¿ مقدمات کی تعداد ہزاروں میں ہے اُور اگر روٹی کا وزن اُور اِس کی قیمت کا تعین بھی عدالت ہی نے کرنا ہے تو پھر عوام کے منتخب بلدیاتی و سیاسی نمائندوں اُور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ حکمرانی کرنے والے ’صاحب بہادر‘ ڈپٹی کمشنر کس مرض کی دوا ہیں!؟
”ہر سہارا بے عمل کے واسطے بیکار ہے ....
آنکھ ہی کھولے نہ جب کوئی‘ اُجالا کیا کرے (حفیظ میرٹھی)“
............
ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام....اُنیس جولائی دوہزار اُنیس
پشاوری تندور پراجیکٹ
’روٹی کا مقدمہ‘ (اُنیس جولائی) کے ذریعے پشاور کے سیاسی‘ ضلعی اُور انتظامی حکمرانوں کی کارکردگی کا ابتدائیہ پیش کیا گیا‘ جن کی اجتماعی دانش و کارکردگی سے ایک مرتبہ پھر یہ عنوان زیربحث ہے کہ بطور صارفین ’اہل پشاور کے مفادات کا تحفظ نہیں ہو رہا‘ اُور یہی وجہ رہی کہ ایک شہری کو بذریعہ وکیل ’پشاور ہائی کورٹ‘ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا‘ جہاں متوقع طور پر ’2 رکنی بینچ‘ نے مقدمے کی آئندہ سماعت (24 جولائی) پر روٹی کا وزن اُور قیمت طے کرنے کے علاو ¿ہ (متوقع طور پر) فیصلہ سازوں کا احتساب بھی کرے گا جنہوں نے ’اچانک‘ اُور ایک ایسی صورتحال میں روٹی کے نرخ میں ’50فیصد اضافہ‘ کرنے کو ضروری سمجھا‘ جبکہ اُن کا مارکیٹ پر کنٹرول نہیں۔ گراں فروشوں اور کم وزن روٹی بیچنے والوں کو حکومت‘ انتظامیہ کا قانون کا خوف نہیں اُور سب سے بڑھ کر یہ تاثر الگ سے تحقیق چاہتا ہے کہ مبینہ طور پر نانبائیوں سے ’رشوت‘ لیکر اُور نئے نرخنامے کی فروخت سے آمدن کے لئے روٹی کی قیمت بڑھائی گئی ہے!
یہ امر بھی عدالت کے سامنے زیرغور آنا چاہئے کہ صارفین کی تنظیم اُور پرائس ریویو کمیٹی سے مشاورت کو کیوں ضروری نہیں سمجھا گیا؟ منطقی اَمر تھا کہ حالیہ مہنگائی کی لہر‘ جس میں روپے کی قدر میں کمی اُور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے‘ بجلی و گیس کے یوٹیلیٹی بلز بڑھے ہیں تو روٹی کی قیمت میں بھی اضافہ متوقع تھا لیکن یہ اضافہ ’بیک جنبش قلم پچاس فیصد‘ ہو جائے گا‘ اِس شرح غیرمنطقی تھی اُور یہی وجہ ہے کہ 10سے 15روپے روٹی ہونے پر عوامی حلقوں کی جانب سے مذمت و پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی حکمرانوں کی بھی کارکردگی پر سوالات اُور انگلیاں اُٹھنے لگیں!
”انجمن پختونخوا نانبائی ایسوسی ایشن“ کی جانب سے پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں ’غیرمعینہ مدت‘ تک تندور رکھنے کے لئے ہڑتال کے پہلے دن (گیارہ جولائی دوہزار اُنیس) کے روز پشاور میں ’ہو کا عالم‘ دیکھا گیا۔ شہری سرگرداں تھے۔ ہر طرف سے روٹی روٹی کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں! سوشل میڈیا اُور بالخصوص واٹس ایپ گروپس میں تمام دن روٹی (جوئے شیر) کا حصول کرنے کے بارے معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا! عیاں ہوا کہ حکومت نام کی شے تو ہے لیکن منصوبہ بندی نہیں اُور نانبائیوں نے پشاور کو یرغمال بنا کر رکھا ہے! صرف ایک دن کی ہڑتال سے پشاور میں معمولات زندگی بُری طرح متاثر ہوئے کیونکہ پشاوریوں کے گھروں میں روٹی پکانے کا اب رواج نہیں رہا۔ ہڑتال کرنے والے نانبائیوں کا مطالبہ تھا کہ .... ”ضلعی انتظامیہ (ناظم ضلع پشاور ارباب عاصم) کی جانب سے 140گرام روٹی کی قیمت 12 روپے مقرر کی گئی لیکن اِس سلسلے میں اعلامیہ (نیا نرخنامہ) کیوں جاری نہیں کیا گیا جبکہ آٹے کی فی کلوگرام قیمت میں 10روپے اُور بجلی و گیس کی مدوں میں بیس سے تیس فیصد اضافے کی وجہ سے نانبائیوں کا نقصان ہو رہا ہے۔“ مذکورہ (گیارہ جولائی) کی ’کامیاب ہڑتال اُور احتجاجی مظاہرے‘ اُور ’عوامی کی پریشانی و دباو‘ سے نمٹنے کے لئے وزیراعلیٰ نے مسئلے کا ’قابل عمل حل‘ نکالنے کی ہدایت کرتے ہوئے ’تاجر مسائل کمیٹی‘ تشکیل دی لیکن دریں اثناءڈپٹی کمشنر پشاور (محمد علی اصغر) اُور اسسٹنٹ کمشنر پشاور (محترمہ سارہ رحمان) نے نانبائیوں کے ایک نمائندہ وفد سے ملاقات میں 140 گرام کی بجائے روٹی کا وزن 190گرام کرتے ہوئے قیمت 15 روپے مقرر کرنے کا ہاتھوں ہاتھ اعلامیہ جاری کر دیا! یہ سب کچھ اِس قدر تیزی سے ہوا کہ خود ضلع ناظم (ارباب عاصم) بھی بے خبر و حیران پائے گئے! اُور اِسی نے گویا ’جلتی پر تیل‘ ڈالنے کا کام کیا۔ وہ عام آدمی (ہم عوام) جو پہلے ہی نانبائیوں کی ہڑتال کے باعث ’روٹی کے نوالے نوالے‘ کو ترسے بیٹھے تھے‘ صوبائی و ضلعی حکومت و انتظامیہ کے اِس حل (solution) پر سراپا احتجاج بن گئے‘ جس کی دو بنیادی وجوہات سامنے آئیں۔ 1: پشاور کے طول و عرض میں بمشکل ایسا نانبائی ملے گا‘ جو مقررہ 140 گرام کی روٹی فروخت کر رہا ہو۔ ضلعی حکومت (بلدیاتی نمائندے) اُور ضلعی انتظامیہ (کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اُور اسسٹنٹ کمشنروں پر مبنی فوج ظفر موج) مقررہ وزن کے مطابق روٹی کی فروخت ممکن بنانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ 2: یہ سوال بھی اُٹھایا گیا کہ جو حکمران روٹی کے وزن پر عمل درآمد یقینی نہیں بنا سکے وہ ’ایک سو چالیس گرام‘ سے ’ایک سو نوے گرام‘ وزن کو کیسے لاگو کریں گے!؟ اُور 3: آخر ایسا کیوں ہے کہ پشاور کے اندرونی (شہری) اُور مضافاتی (دیہی) علاقوں میں روٹی الگ الگ وزن اُور الگ الگ معیار کی فروخت ہو رہی ہے؟
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا (محمود خان) نے ’تاجر مسائل کمیٹی‘ کے ذریعے ’روٹی کے مسئلے‘ کا حل تلاش کرنے کی تجویز دی ہے لیکن اہل پشاور کی کیا بات کہ جو اِس سے بھی ایک قدم آگے کی سوچ رکھتے ہیں!
پشاور ہائی کورٹ میں دائر ’روٹی کے مقدمے‘ میں اپنے موکل آفاق حسین کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل محمد خورشید صرف عدالتی کاروائی پر ہی اکتفا نہیں کئے بیٹھے بلکہ وہ اِن دنوں ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ نامی اچھوتے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں ہیں تاکہ نانبائی گیارہ جولائی کی طرح اہل پشاور کو دوبارہ یرغمال (اُور بیوقوف) نہ بنا سکیں۔ منصوبے کا ابتدائی خاکہ (سوچ) یہ ہے کہ صنعتی (بڑے) پیمانے پر‘ صاف ستھری اُور وزن کے مطابق معیاری روٹی بنا کر اِسے پشاور کے مختلف حصوں میں گشتی یا مستقل سیل پوائنٹس پر فروخت کیا جائے۔ یہ ایک قابل عمل منصوبہ ہے اُور کاروباری نکتہ نظر سے بھی ممکن ہے کیونکہ اگر پہلے مرحلے میں پشاور کی تمام 92 یونین کونسلوں کا احاطہ نہ بھی کیا جائے اُور صرف اندرون شہر کی 15سے 20 یونین کونسلوں میں کم سے کم 100 مقامات پر ’پکی پکائی روٹیاں‘ فروخت کے لئے پیش کی جائیں‘ تو گشتی یا مستقل سیل پوائنٹس پر یومیہ ایک سے دو لاکھ روٹیاں باآسانی فروخت کی جا سکتی ہیں۔
علاوہ ازیں حیات آباد‘ یونیورسٹی ٹاون‘ شامی روڈ‘ ورسک روڈ‘ صدر اُور چغل پورہ سے آگے بننے والی نئی ٹاون شپ اسکیموں میں رہنے والے صارفین ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ کے مستقل رکن (گاہگ) بن کر گھر بیٹھے روٹی حاصل کر سکیں گے۔ ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ کی رکنیت بذریعہ ویب سائٹ‘ موبائل ایپ‘ ٹیلی فون یا سوشل میڈیا سے متعارف کروائی جا سکتی ہے‘ جس کے لئے کوئی بھی صارف ’آن لائن‘ ادائیگی (پے منٹ) کر سکے گا۔ ”شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے .... اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے (اَحمد فراز)۔“ کم وزن اُور غیرمعیاری روٹی فروخت کرنے والے نانبائیوں کی اکثریت کے ہاتھوں ’بلیک میل‘ ہونے‘ سیاسی‘ ضلعی اُور انتظامی حکمرانوں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانے سے تو بہتر ہے کہ اہل پشاور کا دُکھ اُور ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ جیسے کاروباری موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ’سرمایہ کار‘ آگے آئیں کیونکہ ”خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی .... نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا (مولانا ظفر علی خان)۔“
پشاور ہائی کورٹ میں دائر ’روٹی کے مقدمے‘ میں اپنے موکل آفاق حسین کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل محمد خورشید صرف عدالتی کاروائی پر ہی اکتفا نہیں کئے بیٹھے بلکہ وہ اِن دنوں ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ نامی اچھوتے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں ہیں تاکہ نانبائی گیارہ جولائی کی طرح اہل پشاور کو دوبارہ یرغمال (اُور بیوقوف) نہ بنا سکیں۔ منصوبے کا ابتدائی خاکہ (سوچ) یہ ہے کہ صنعتی (بڑے) پیمانے پر‘ صاف ستھری اُور وزن کے مطابق معیاری روٹی بنا کر اِسے پشاور کے مختلف حصوں میں گشتی یا مستقل سیل پوائنٹس پر فروخت کیا جائے۔ یہ ایک قابل عمل منصوبہ ہے اُور کاروباری نکتہ نظر سے بھی ممکن ہے کیونکہ اگر پہلے مرحلے میں پشاور کی تمام 92 یونین کونسلوں کا احاطہ نہ بھی کیا جائے اُور صرف اندرون شہر کی 15سے 20 یونین کونسلوں میں کم سے کم 100 مقامات پر ’پکی پکائی روٹیاں‘ فروخت کے لئے پیش کی جائیں‘ تو گشتی یا مستقل سیل پوائنٹس پر یومیہ ایک سے دو لاکھ روٹیاں باآسانی فروخت کی جا سکتی ہیں۔
علاوہ ازیں حیات آباد‘ یونیورسٹی ٹاون‘ شامی روڈ‘ ورسک روڈ‘ صدر اُور چغل پورہ سے آگے بننے والی نئی ٹاون شپ اسکیموں میں رہنے والے صارفین ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ کے مستقل رکن (گاہگ) بن کر گھر بیٹھے روٹی حاصل کر سکیں گے۔ ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ کی رکنیت بذریعہ ویب سائٹ‘ موبائل ایپ‘ ٹیلی فون یا سوشل میڈیا سے متعارف کروائی جا سکتی ہے‘ جس کے لئے کوئی بھی صارف ’آن لائن‘ ادائیگی (پے منٹ) کر سکے گا۔ ”شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے .... اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے (اَحمد فراز)۔“ کم وزن اُور غیرمعیاری روٹی فروخت کرنے والے نانبائیوں کی اکثریت کے ہاتھوں ’بلیک میل‘ ہونے‘ سیاسی‘ ضلعی اُور انتظامی حکمرانوں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانے سے تو بہتر ہے کہ اہل پشاور کا دُکھ اُور ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ جیسے کاروباری موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ’سرمایہ کار‘ آگے آئیں کیونکہ ”خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی .... نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا (مولانا ظفر علی خان)۔“
No comments:
Post a Comment