ژرف نگاہ ....شبیرحسین اِمام
تعلیم و تعلم: تحقیق کا آئینہ!
مقصد حاصل نہیں ہو رہا۔ تعلیم بطور نمائش عام کر دی گئی ہے لیکن خواندگی کا دور دور تک نام و نشان نہیں! عالمی سطح پر ’درسی و تدریسی عمل‘ پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے ’ولسن سنٹر (Wilson Center)‘ نے پاکستان سے متعلق تحقیق (حقائق نامہ) جاری کیا ہے‘ جس کے ایک حصے میں ”مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت اُور اِس کے آپسی تعلق“ پر بھی مختصراً لیکن جامع انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ”پاکستان میں کئی سکول ایسے بھی ہیں جہاں باقاعدہ طور پر برسہا برس تعلیم حاصل کرنے کے باوجود طالب علم نصابی و غیرنصابی کتب سے ’ایک جملہ‘ تک پڑھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔“ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر بچے ناظرہ نہیں پڑھ سکتے تو وہ الفاظ و اسباق میں چھپے مطالب کو بھی نہیں سمجھ پائیں گے اور جب علم اسباق و الفاظ کے ذریعے منتقل نہیں ہو رہا تو اِس کی افادیت کیا رہ جاتی ہے؟ اگرچہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کسی تحقیقی ادارے نے اِس قسم کا نتیجہ ¿ خیال پیش کیا ہو بلکہ نجی ٹیلی ویژن چینلز‘ اشاعتی ادارے اُور غیر سرکاری تنظیمیں ایک عرصے سے (اِسی موضوع پر) اپنی سالانہ رپورٹیں جاری کر رہی ہیں جن میں بارہا اِس اَمر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ بالخصوص دیہی (پسماندہ) علاقوں میں دی جانے والی تعلیم کا ’بنیادی مقصد‘ حاصل نہیں ہو رہا لیکن مجال ہے کہ متعلقہ فیصلہ ساز ’ٹس سے مس‘ ہوتے ہوں اُور اپنی اُس غلطی کو تسلیم کر لیں جو سوائے اِن کے پوری دنیا کو ’روز روشن کی طرح‘ دکھائی دے رہی ہے!
اَمریکہ کے قانون ساز اِدارے ایوان بالا (کانگریس) نے 1968ءمیں ’ولسن سنٹر‘ نامی تحقیقی ادارہ ’1913ءسے 1921ءتک‘ 28ویں صدر رہے ’تھامس وڈرو ولسن‘ کی یاد میں قائم کیا‘ جسے ’زندہ یادگار (living memorial)‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اِس تحقیقی مرکز کا بنیادی کام ’عالمی مسائل‘ سے متعلق آزادانہ تحقیق اُور بحث و مباحثے (ڈائیلاگ) کی سرپرستی کرنا ہے تاکہ حاصل ہونے والے نتائج سے امریکی فیصلہ سازوں کو رہنمائی مل سکے۔ قابل ذکر ہے کہ ’ولسن سنٹر‘ کو علاقائی (ریجنل) اَمور سے متعلق امریکی تحقیق کا ’بڑا مرکز (تھنک ٹینک اِدارہ)‘ اُور اِس سے وابستہ تحقیق کاروں کے کام کو ’مستند‘ سمجھا جاتا ہے۔ ولسن سنٹر نے پاکستان میں ’درس و تدریس کے معیار‘ سے متعلق ’84 صفحات‘ پر مشتمل رپورٹ میں وہ سب کچھ ذکر کیا ہے‘ جو متعلقہ سیاسی فیصلہ ساز اُور حکومتی ادارے تسلیم نہ بھی کریں لیکن حقائق تبدیل نہیں ہوں گے‘ جن کی تلخی (زمینی حقائق) متقاضی ہیں کہ ”پاکستان میں تعلیم و تعلم بالخصوص بنیادی و ثانوی درجات کو مادری زبان کے قریب اُور غیرملکی اثرورسوخ (ملاوٹ) سے دور (پاک) کیا جائے۔“ مذکورہ رپورٹ ’ولسن سنٹر‘ کی ویب سائٹ (wilsoncenter.org) سے بلاقیمت حاصل (download) کی جا سکتی ہے۔ اُمید ہے کہ سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز‘ ماہرین تعلیم‘ اساتذہ اُور والدین مذکورہ رپورٹ کو ’خاطرخواہ اہمیت‘ دیں گے اُور کسی بھی وضاحت‘ اِعتراض یا اپنی رائے سے مصنفہ ’نادیہ ناوی والا‘ کو بذریعہ ٹوئیٹر (@NadiaNavi)‘ یا سنٹر کے منتظم مائیکل کلیگمن (@MichaelKugelman) کو مطلع کریں گے۔ سماجی رابطہ کاری ہی کے ذریعے ولسن سنٹر سے بذریعہ ہینڈلر @TheWilsonCenter بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
”کیا وجہ ہے کہ پاکستانی بچے پڑھ نہیں سکتے؟ Why Can't Pakistani Children Read نامی حقائق نامہ (رپورٹ) کے سرورق پر جلی حروف میں لکھا گیا ہے کہ ”پاکستان میں تعلیمی اِصلاحات میں ناکامی کی درپردہ وجوہات کیا ہیں“ اُور اِن ’درپردہ وجوہات (inside story)‘ کا بیان (احاطہ) کمال مہارت سے ہر باب اُور ہر سطر میں کرتے ہوئے بہت سے سوالات (کام) قارئین کے لئے بھی چھوڑ دیئے گئے ہیں‘ جیسا کہ تعلیم کے حوالے سے مختلف سیاسی و غیرسیاسی ادوار میں ہونے والی ’زبانی جمع خرچ (دعووں اُور وعدوں)‘ کی حقیقت کیا ہے!
وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے تعلیم کے لئے مختص کئے جانے والے مالی وسائل (بجٹ)‘ تعلیم کے مختلف حکومتی اِداروں کی تفصیلات‘ ترقیاتی و غیرترقیاتی اخراجات‘ نصاب تعلیم کی اصلاح میں غیرملکی تعاون‘ مختلف اِقسام کے تعلیمی نصاب‘ نجی سکولوں کا کردار‘ اِمتحانی طریقہ ¿ کار اُور طالب علموں (بچے بچیوں) کے رجحانات کس طرح منفی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ حکومتی مالی معاونت سے چل رہے اداروں کی مجبوری ہوتی ہے کہ یہ بہت کچھ ’بین السطور‘ بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ سخت سے سخت بات بھی محتاط الفاظ کے ذریعے کہی جاتی ہے۔ ’ولسن سنٹر‘ کی رپورٹ میں بھی تعلیم کی زبوں حالی کے لئے ذمہ دار ’پاکستان کے قومی مجرموں‘ کا ذکر ’واضح الفاظ‘ میں تو نہیں کیا گیا لیکن نئے پیرائے (زیادہ دلچسپ اَنداز) میں اِشارے‘ کنائیوں اُور اِستعاروں میں وہ سب ’سچی باتیں‘ موجود ہیں! جو اِس سے قبل بھی‘ اِسی قسم کی تحقیقی کاوشوں کا حصہ رہی ہیں!
دیباچے (پیش لفظ) میں ولسن سنٹر کے سربراہ ’مائیکل گوگیلمن (Michael Kugelman) نے لکھا ہے کہ .... ”نادیہ ناوی والا کی تین سالہ اَدھوری تحقیق کو مکمل کیا گیا ہے“ اُور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ’پاکستان میں تعلیمی بحران: اَصل کہانی“ مکمل تو نہیں لیکن اِس موضوع پر تازہ ترین دستاویز ہے‘ جس میں صرف مسائل کی نشاندہی ہی نہیں بلکہ اِس کے آخری باب میں ’16تجاویز‘ کے ذریعے مسائل کا حل بھی تجویز کر دیا گیا ہے۔ اعدادوشمار کی حقیقت پر بحث ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ ستر لاکھ بچے پرائمری تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن جو ’پچاس لاکھ‘ باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر رہے‘ اُن کی کم و بیش تعداد کا تعین الگ سے ہونا چاہئے لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جو بچے سکول جا رہے ہیں اُن کی بڑی تعداد بھی زیادہ کچھ سیکھ نہیں پا رہی! اُور سالہا سال زیرتعلیم رہنے کے باوجود بھی اگر وہ ایک جملہ تک نہیں پڑھ سکتے تو ایسا ’تعلیمی نظام‘ سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔ ’ولسن سنٹر‘ کی جاری کردہ ”تحقیق کے آئینے“ میں وفاقی اُور ہر صوبائی حکومت کو اپنا اپنا چہرہ دیکھنا چاہئے!
وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے تعلیم کے لئے مختص کئے جانے والے مالی وسائل (بجٹ)‘ تعلیم کے مختلف حکومتی اِداروں کی تفصیلات‘ ترقیاتی و غیرترقیاتی اخراجات‘ نصاب تعلیم کی اصلاح میں غیرملکی تعاون‘ مختلف اِقسام کے تعلیمی نصاب‘ نجی سکولوں کا کردار‘ اِمتحانی طریقہ ¿ کار اُور طالب علموں (بچے بچیوں) کے رجحانات کس طرح منفی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ حکومتی مالی معاونت سے چل رہے اداروں کی مجبوری ہوتی ہے کہ یہ بہت کچھ ’بین السطور‘ بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ سخت سے سخت بات بھی محتاط الفاظ کے ذریعے کہی جاتی ہے۔ ’ولسن سنٹر‘ کی رپورٹ میں بھی تعلیم کی زبوں حالی کے لئے ذمہ دار ’پاکستان کے قومی مجرموں‘ کا ذکر ’واضح الفاظ‘ میں تو نہیں کیا گیا لیکن نئے پیرائے (زیادہ دلچسپ اَنداز) میں اِشارے‘ کنائیوں اُور اِستعاروں میں وہ سب ’سچی باتیں‘ موجود ہیں! جو اِس سے قبل بھی‘ اِسی قسم کی تحقیقی کاوشوں کا حصہ رہی ہیں!
دیباچے (پیش لفظ) میں ولسن سنٹر کے سربراہ ’مائیکل گوگیلمن (Michael Kugelman) نے لکھا ہے کہ .... ”نادیہ ناوی والا کی تین سالہ اَدھوری تحقیق کو مکمل کیا گیا ہے“ اُور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ’پاکستان میں تعلیمی بحران: اَصل کہانی“ مکمل تو نہیں لیکن اِس موضوع پر تازہ ترین دستاویز ہے‘ جس میں صرف مسائل کی نشاندہی ہی نہیں بلکہ اِس کے آخری باب میں ’16تجاویز‘ کے ذریعے مسائل کا حل بھی تجویز کر دیا گیا ہے۔ اعدادوشمار کی حقیقت پر بحث ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ ستر لاکھ بچے پرائمری تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن جو ’پچاس لاکھ‘ باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر رہے‘ اُن کی کم و بیش تعداد کا تعین الگ سے ہونا چاہئے لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جو بچے سکول جا رہے ہیں اُن کی بڑی تعداد بھی زیادہ کچھ سیکھ نہیں پا رہی! اُور سالہا سال زیرتعلیم رہنے کے باوجود بھی اگر وہ ایک جملہ تک نہیں پڑھ سکتے تو ایسا ’تعلیمی نظام‘ سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔ ’ولسن سنٹر‘ کی جاری کردہ ”تحقیق کے آئینے“ میں وفاقی اُور ہر صوبائی حکومت کو اپنا اپنا چہرہ دیکھنا چاہئے!
............
سولہ جولائی دو ہزار اُنیس بروز منگل
بارہ ذیقعد چودہ سو چالیس ہجری
............
سولہ جولائی دو ہزار اُنیس بروز منگل
بارہ ذیقعد چودہ سو چالیس ہجری
............
No comments:
Post a Comment