Continuity
تسلسل
اقتصادی مارکیٹ کا انحصار اور خوشحالی ’تسلسل‘ میں ہوتا ہے۔ معاشی حالات ایک ڈگر پر چلنے کے تسلسل سے مراد یہ ہے کہ عوام کی قوت خرید کسی ایک سطح پر برقرار رہے اُور اِس میں کمی تو ہرگز نہیں ہونی چاہئے لیکن پاکستان میں سرمایہ کاری اُور عوام کی قوت خرید دونوں ہی کم ہو رہے ہیں جس کی ایک جھلک کراچی سٹاک ایکسچینج میں بہتری کے آثار سے سمجھا جا سکتا ہے اُور اگر ملک کی اقتصادی صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کے فیصلے کو دیکھا جائے تو اِس فیصلے کے پس پردہ محرکات کی بخوبی سمجھ آ جائے گی۔ فی الوقت کراچی کی حصص مارکیٹ (KSE-100) انڈکس میں 2585 پوائنٹس کا اضافہ ہوا‘ جس کا مطلب ہے کہ 500 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ تصور کیجئے کہ حصص مارکیٹ میں کسی بھی ایک ہفتے کے دوران ہونے والی یہ بلند ترین سرمایہ کاری ہے۔
اگست 2018ءمیں جب تحریک انصاف حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اُس وقت حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج ’کرنٹ اکاونٹ خسارہ‘ تھا یعنی حکومت کی آمدنی کم اور جاری اخراجات آمدنی سے زیادہ تھے۔ جولائی 2018ءکی بات ہے یعنی تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے ایک ماہ قبل ’کرنٹ اکاونٹ ماہانہ خسارہ‘ 2130 ملین ڈالر تھا۔ جولائی 2019ء(تحریک انصاف حکومت کے پہلے سال) کے دوران یہ خسارہ کم ہو کر 579 ملین ڈالر ہو چکا ہے‘ جو قریب ایک سال میں ’73 فیصد‘ بہتری ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ 1: ڈالر پر منحصر پاکستان کی اقتصادیات پر حکومت کا کنٹرول پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ 2: ایک سال قبل پاکستانی روپے پر جو دباو تھا اُس میں کمی آئی ہے اُور 3: ملک چلانے کے لئے ڈالروں کی ضرورت ماضی کے مقابلے کم ہوئی ہے۔ یہ سبھی اشارے حکومت کی اقتصادی حکمت عملیوں کی کامیابی کے اشارے ہیں۔
پاکستان کی داخلی صورتحال کے تناظر میں اگر ’جنرل باجوہ کے نظریات (Bajwa Doctrine)‘ کا جائزہ لیا جائے تو یہ7 ستونوں پر استوار دکھائی دیتا ہے۔ 1: ایک ایسا طرزحکمرانی جو عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ہاتھ میں ہو۔ 2: ایک ایسی حکومت کا قیام جو آزاد و شفاف انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئے ہوں۔ 3: قومی وسائل کی لوٹ مار پر مبنی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ 4: جمہوری حقوق کو مقدم سمجھتے ہوئے اِن کا بہرصورت تحفظ ہونا چاہئے۔ 5: قومی اداروں میں سیاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔ 6: پاکستان کی ریاست کا اِس کے 7 لاکھ 96 ہزار 95 مربع کلومیٹر رقبے کے ہر حصے پر کنٹرول ہونا چاہئے اُور خوف و دہشت پھیلانے والے چاہے وہ کسی بھی لبادے اور کسی بھی نام سے ہوں انہیں تخریب کاری کی کھلی چھوٹ نہیں ہونی چاہئے اُور 7: وفاق پاکستان کو مضبوط بنایا جائے۔
جنرل باجوہ نظریات کو مشرق میں بھارت کا سامنا ہے‘ جہاں ہندو انتہاءپسند جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ برسراقتدار ہے۔ مغربی محاذ پر جنرل باجوہ نظریات کی کامیابی کے مغربی و امریکی ممالک بھی معترف ہیں۔ پانچ ستمبر کو بنکاک اُور پھر پیرس میں 18 سے 23 اکتوبر ’FATF‘ اجلاس بڑے چیلنجز ہیں۔ دنیا پاکستان کی پالیسیوں میں تسلسل کو سراہا رہی ہے۔
پاکستان کی داخلی اقتصادیات کی بات کی جائے تو یہ غیرمتوقع طور پر سست روی کا شکار ہے۔ چند ہفتے قبل مہنگائی کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتری سے متعلق جو پیشنگوئیاں کی گئی تھیں‘ وہ سب کی سب غلط ثابت ہوئی ہیں۔ روٹی کی قیمت میں اضافہ کسی بھی صورت اچھی خبر نہیں۔ روپے پر انحصار کرنے والی معیشت کو پانچ مشکلات کا سامنا ہے۔ 1.7 کھرب روپے کا گردشی قرضہ‘ 1.6 کھرب روپے سرکاری اداروں کا سالانہ خسارہ‘ سرکاری خریداریوں میں سالانہ ایک کھرب روپے کی بدعنوانیاں‘ گیس کے شعبے میں دو ارب ڈالر کا سالانہ خسارہ اُور حکومتی ضروریات کے لئے 734 ارب روپے کا قرض۔ اِن پانچ شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اِنہی پانچ شعبوں کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے پاکستان کا قرض 40 کھرب روپے جیسی بلند سطح تک پہنچ گیا ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت ایک تسلسل کے ساتھ اپنی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہے‘ جس کی وجہ سے اُمید ہو چلی ہے کہ اگر یہ تسلسل برقرار رہتا ہے تو اِس سے اقتصادی بہتری آئے گی۔ پاکستان کے دشمنوں کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو اقتصادی طور پر اتنا کمزور کر دیں کہ وہ جنگ کے بارے میں سوچنے سے بھی گھبرائے۔ اگر حکومت مذکورہ پانچ شعبوں کو اصلاحاتی ترجیحات کا حصہ بناتی ہے تو اِس سے نہ صرف داخلی و خارجی محاذ پر پاکستان کی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ تعمیروترقی کے نئے دور اور نئے پاکستان کی تخلیق بھی عملاً ممکن ہو جائے گی۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
No comments:
Post a Comment