Sunday, August 4, 2019

TRANSLATION: Economic Slowdown by Dr. Farrukh Saleem

Economic slowdown
اِقتصادی سست روی
پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو سمجھنے کے لئے اِسے 2 حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔ پہلا درجہ وہ اقتصادیات ہے جس میں امریکی ڈالر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور دوسرا درجے میں پاکستانی روپے لین دین کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اگست 2018ءمیں جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تھی تو اُس وقت امریکی ڈالر قومی اقتصادیات پر حاوی تھا اُور قومی ضروریات قریب 28 ارب ڈالر تھیں جبکہ جاری اخراجات کا خسارہ 20 ارب ڈالر اُور قرضہ جات کی ادائیگی جیسی مالی ذمہ داری 8 ارب ڈالر تھی۔
تحریک اِنصاف حکومت کا ایک سال مکمل ہو چکا ہے اُور اِس عرصے کے دوران 2 کلیدی پیشرفتیں ہوئی ہیں جن سے بالخصوص ڈالر پر منحصر اقتصادی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے پہلا حاصل یہ ہے کہ جاری اخراجات کا خسارہ جو پہلے 20 ارب ڈالر تھا‘ اُسے کم کرتے ہوئے 13 ارب ڈالر تک لے آیا گیا ہے۔ دوسرا ’عالمی مالیاتی اِدارے (آئی ایم ایف)‘ نے پاکستان کے لئے 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری دی‘ جس کی وجہ سے قرضوں اور سود کی ادائیگی سمیت خزانے پر بوجھ میں وقتی کمی آئی جو کہ مہلت ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اِس مہلت سے کس قدر فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اِن دونوں اقدامات کی بدولت ڈالر پر منحصر اقتصادی صورتحال درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے جس سے استحکام آئے گا۔
روپے پر منحصر اقتصادیات کو مزید درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جن میں حکومتی شعبہ‘ کاروباری شعبہ اُور نجی شعبہ یعنی ایسے طبقات آتے ہیں جنہیں گھریلو صارفین کہا جاتا ہے۔ حکومتی سطح پر اصلاح کے لئے احتساب کا عمل پورے زور و شور سے جاری ہے‘ جو ایک خوش آئند پیشرفت ہے لیکن حکومتی اخراجات میں خاطرخواہ کمی نہیں آ رہی‘ جو نہایت ہی ضروری ہے۔ اگر ہم حکومتی اصلاحات کا مشاہدہ کریں تو بجلی کا پیداواری شعبہ اُور سرکاری محکموں کے اخراجات و خسارے کی اصلاح نظرانداز کر دی گئی ہے جو قطعی اچھی خبر نہیں۔

حکومت کی اصلاحاتی کوششیں اپنی جگہ اہم لیکن کاروباری شعبہ سست روی کا شکار ہے۔ ہنڈا اٹلس نامی موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنی نے اپنی پیداوار میں 35فیصد کمی کا اعلان کیا ہے جو اچھا شگون نہیں۔ پاکستان میں حصص کا کاروبار بھی مندی کا شکار ہے‘ جہاں کی جانے والی سرمایہ کاری میں 100 ارب ڈالر جیسی غیرمعمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

گھریلو صارفین کو دیکھیں تو اُن کی قوت خرید بھی کم ہو رہی ہے۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے جو کہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو صارفین پریشان ہیں! کم آمدنی والوں کے لئے روزمرہ گھریلو اخراجات جن سے صرف بنیادی ضروریات ہی پوری ہوتی ہیں‘ کا توازن رکھنا ممکن نہیں رہا۔ الغرض زندگی کے ہر شعبے پر مہنگائی اور مالیاتی پالیسیوں کے منفی اثرات نمایاں سے نمایاں تر ہو رہے ہیں۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 57 لاکھ افراد کو ہر تین ماہ بعد 5000 روپے دیئے جاتے تھے۔ موجودہ حکومت نے اِس مالی مدد کو 5500 روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ احسن اقدام ہے۔ بُری خبر یہ ہے کہ حکومت پیشہ ورانہ تعلیم پر خاطرخواہ توجہ نہیں دے رہی جس سے خودروزگاری بڑھے۔ اگر مالی طور پر کمزور خاندانوں کو ہنرمند بنا دیا جائے تو وہ اپنی گزربسر کے لئے کسی حکومتی امداد کے محتاج نہیں رہیں گے اُور ایسا کرنے سے اُن کی عزت نفس کے ساتھ سماجی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہوگا۔ بہتر یہی ہو گا کہ مچھلی تحفے میں دینے کی بجائے مچھلی پکڑنا سکھائی جائے۔

حکمرانوں کو توجہ دینی چاہئے کہ سرکاری ادارے (پبلک سیکٹر انٹرپرائزیز) سالانہ 1.1 کھرب روپے کا نقصان کرتے ہیں اُور یہ نقصان موجودہ حکومت کے دور میں بھی جاری ہے۔ کیا قومی خزانے پر سرکاری اداروں کا بوجھ کم نہیں ہونا چاہئے؟

خسارے میں چلنے والے اداروں کی اصلاح کون کرے گا؟

بجلی کا پیداواری شعبہ ہر دن 2 ارب روپے کا نقصان کر رہے ہیں اور یہ نقصان سارا سال جاری رہتا ہے یعنی سال کے ہر دن 2 ارب روپے نقصان ہوتا ہے لیکن اِس خسارے کو بھی ختم کرنے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ حکومت کے لئے سالانہ کھربوں روپے کی خریداری ہوتی ہے جن میں کئی کھرب کی خردبرد ہو رہی ہے لیکن اِسے بھی ختم کرنے کی کوئی تدبیر دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کو اہداف کا تعین کرنا ہوگا‘ جن کی روشنی میں حکمت عملی مرتب کرکے اِن اہداف کے حصول کے لئے کوششیں کرنا ہوں گی۔



(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

No comments:

Post a Comment