Incidents
واقعات
پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اُور بنیادی ضروریات سے متعلق دیگر اخراجات نے متوسط طبقات کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے سراپا فریاد ہیں کہ اُن کی آمدن میں ہر دن کمی لیکن اُن کے اخراجات (مالی بوجھ) میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس سلسلے میں ذاتی تجربے اور چند انفرادی مثالوں سے صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے۔
پہلا واقعہ: خشک میوہ جات فروخت کرنے والے ایک دکاندار نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ ماضی قریب (آٹھ ماہ قبل) میں اُس کی یومیہ فروخت کا حجم 2 لاکھ روپے تھا جو کم ہو کر 70 ہزار روپے ہو چکا ہے اُور یہ کمی 65فیصد ہے۔
دوسرا واقعہ: پانچ ستارہ ہوٹل میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا جہاں کے ایک ملازم نے توجہ دلائی کہ اُس کے گھر کا بجلی بل 6 ہزار روپے آیا ہے جبکہ اُسے تنخواہ کے علاو ¿ہ بخشش کے طور پر جو رقم ملا کرتی تھی اُس میں انتہائی تباہ کن (غیرمعمولی) کمی آئی ہے‘ جس کی وجہ سے اُسے آئندہ ماہ بچے کی سکول فیس یا بجلی کے بل میں سے کسی ایک ذمہ داری کی ادائیگی کا انتخاب کرنا ہوگا۔
تیسرا واقعہ: ہوٹل سے نکلتے ہوئے ایک اُور ملازم نے اپنی روداد سے آگاہ کیا کہ اُس کی ماہانہ تنخواہ 22 ہزار روپے ہے جبکہ اُس کے گھر کا بل 5ہزار 900 روپے آیا ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ یقینا تمہارے گھر برقی آلات زیادہ ہوں گے تو اُس نے کہا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ گھر میں صرف دو پنکھے‘ ایک فریج اُور چند ٹیوب لائٹس ہیں۔ میں گھر والوں کو ہفتے میں صرف دو دن بجلی کی استری استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔ اِس شخص کی آمدنی اور بجلی کے بل کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی کل آمدنی کا 25فیصد کس طرح بجلی کی قیمت ادا کرنے کے لئے دے سکتا ہے؟
چوتھا واقعہ: حجام سے ہوئی بات چیت سے معلوم ہوا کہ اُس کا کاروبار مندی کا شکار ہے جبکہ اُس کے بجلی کا ماہانہ بل 9 ہزار روپے آیا ہے۔ میں پوچھا کہ کیا لوگوں نے بال کٹوانے چھوڑ دیئے ہیں‘ جس پر اُس نے کہا کہ نہیں لیکن اب وہ زیادہ وقفہ کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص ہر چار یا پانچ ہفتے (ایک ماہ) میں بال کٹواتا تھا تو اب اُس نے ہیرکٹ آٹھ سے دس ہفتے (دو ماہ) بعد کروانا شروع کر دیا ہے‘ جس کی وجہ سے اکثر حجاموں کے کاروبار میں 50فیصد کمی آئی ہے جبکہ دوسری طرف بجلی کے بل 100 فیصد بڑھ گئے ہیں۔ آمدن میں کمی اُور یوٹیلٹی بلز و مہنگائی کا مسئلہ اُن کاروباری و ملازمت پیشہ افراد کے لئے زیادہ سنگین ہے‘ جو مشترک خاندان (جائنٹ فیملی سسٹم) کی صورت رہتے ہیں۔
پانچواں واقعہ: گاڑیاں دھلوانے والے (سروس اسٹیشن) اُور گاڑیوں کی مرمت کرنے والے (کار مکینک) نے بھی اپنی کاروباری آمدنی میں کمی اُور اخراجات میں اضافے کی جانب یہ کہتے ہوئے توجہ دلائی کہ ماضی کے مقابلے اب ہر روز اوسطاً 3 سے 4 گاڑیاں دھلائی (سروس) کے لئے آتی ہے‘ جو نہایت ہی کم تعداد ہے اُور اِتنی کم تعداد میں گاڑیوں کی سروس کرنے سے حاصل ہونے والی کل آمدنی سے اخراجات پورے نہیں ہو پا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے کاروباری حضرات نے اپنے ملازمین کی تعداد کم کرنا شروع کر دی ہے۔
چھٹا واقعہ: فوٹوکاپی (Photo-copy) کرنے والا ایک دکاندار جو عرصہ دس برس سے اپنا کاروبار کامیابی سے چلا رہا ہے‘ تعلیمی لحاظ سے اکاونٹنٹ ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ کاروبار میں 50فیصد کمی آئی ہے جس کی وجہ سے اُس نے اپنے سات میں سے چار ملازمین کو فارغ کردیا ہے لیکن اِس کے باوجود بھی آمدن و اخراجات میں توازن برقرار نہیں رکھ پا رہا۔
ساتواں واقعہ: شہر کی ایک سرمایہ دار بستی میں ایک گوشت فروخت کرنے والے (قصاب) نے بھی اپنے کاروبار میں کمی کی داستان مختلف انداز میں سنائی کہ گوشت کے خریدار اب بھی آتے ہیں لیکن اُنہوں نے گوشت کی کم مقدار خریدنا شروع کر دی ہے۔
لب لباب یہ ہے کہ پاکستان میں معاشی سرگرمیاں زوال پذیر ہیں۔ آمدن و اخراجات میں توازن برقرار رکھنا ہر دن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ چھوٹے بڑے کاروباری اداروں اُور انفرادی طور پر بزنس کرنے والوں کے منافع میں غیرمعمولی شرح سے کمی آئی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں کمی لانے کے لئے حکومت کو خاطرخواہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
واقعات
پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اُور بنیادی ضروریات سے متعلق دیگر اخراجات نے متوسط طبقات کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے سراپا فریاد ہیں کہ اُن کی آمدن میں ہر دن کمی لیکن اُن کے اخراجات (مالی بوجھ) میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس سلسلے میں ذاتی تجربے اور چند انفرادی مثالوں سے صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے۔
پہلا واقعہ: خشک میوہ جات فروخت کرنے والے ایک دکاندار نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ ماضی قریب (آٹھ ماہ قبل) میں اُس کی یومیہ فروخت کا حجم 2 لاکھ روپے تھا جو کم ہو کر 70 ہزار روپے ہو چکا ہے اُور یہ کمی 65فیصد ہے۔
دوسرا واقعہ: پانچ ستارہ ہوٹل میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا جہاں کے ایک ملازم نے توجہ دلائی کہ اُس کے گھر کا بجلی بل 6 ہزار روپے آیا ہے جبکہ اُسے تنخواہ کے علاو ¿ہ بخشش کے طور پر جو رقم ملا کرتی تھی اُس میں انتہائی تباہ کن (غیرمعمولی) کمی آئی ہے‘ جس کی وجہ سے اُسے آئندہ ماہ بچے کی سکول فیس یا بجلی کے بل میں سے کسی ایک ذمہ داری کی ادائیگی کا انتخاب کرنا ہوگا۔
تیسرا واقعہ: ہوٹل سے نکلتے ہوئے ایک اُور ملازم نے اپنی روداد سے آگاہ کیا کہ اُس کی ماہانہ تنخواہ 22 ہزار روپے ہے جبکہ اُس کے گھر کا بل 5ہزار 900 روپے آیا ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ یقینا تمہارے گھر برقی آلات زیادہ ہوں گے تو اُس نے کہا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ گھر میں صرف دو پنکھے‘ ایک فریج اُور چند ٹیوب لائٹس ہیں۔ میں گھر والوں کو ہفتے میں صرف دو دن بجلی کی استری استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔ اِس شخص کی آمدنی اور بجلی کے بل کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی کل آمدنی کا 25فیصد کس طرح بجلی کی قیمت ادا کرنے کے لئے دے سکتا ہے؟
چوتھا واقعہ: حجام سے ہوئی بات چیت سے معلوم ہوا کہ اُس کا کاروبار مندی کا شکار ہے جبکہ اُس کے بجلی کا ماہانہ بل 9 ہزار روپے آیا ہے۔ میں پوچھا کہ کیا لوگوں نے بال کٹوانے چھوڑ دیئے ہیں‘ جس پر اُس نے کہا کہ نہیں لیکن اب وہ زیادہ وقفہ کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص ہر چار یا پانچ ہفتے (ایک ماہ) میں بال کٹواتا تھا تو اب اُس نے ہیرکٹ آٹھ سے دس ہفتے (دو ماہ) بعد کروانا شروع کر دیا ہے‘ جس کی وجہ سے اکثر حجاموں کے کاروبار میں 50فیصد کمی آئی ہے جبکہ دوسری طرف بجلی کے بل 100 فیصد بڑھ گئے ہیں۔ آمدن میں کمی اُور یوٹیلٹی بلز و مہنگائی کا مسئلہ اُن کاروباری و ملازمت پیشہ افراد کے لئے زیادہ سنگین ہے‘ جو مشترک خاندان (جائنٹ فیملی سسٹم) کی صورت رہتے ہیں۔
پانچواں واقعہ: گاڑیاں دھلوانے والے (سروس اسٹیشن) اُور گاڑیوں کی مرمت کرنے والے (کار مکینک) نے بھی اپنی کاروباری آمدنی میں کمی اُور اخراجات میں اضافے کی جانب یہ کہتے ہوئے توجہ دلائی کہ ماضی کے مقابلے اب ہر روز اوسطاً 3 سے 4 گاڑیاں دھلائی (سروس) کے لئے آتی ہے‘ جو نہایت ہی کم تعداد ہے اُور اِتنی کم تعداد میں گاڑیوں کی سروس کرنے سے حاصل ہونے والی کل آمدنی سے اخراجات پورے نہیں ہو پا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے کاروباری حضرات نے اپنے ملازمین کی تعداد کم کرنا شروع کر دی ہے۔
چھٹا واقعہ: فوٹوکاپی (Photo-copy) کرنے والا ایک دکاندار جو عرصہ دس برس سے اپنا کاروبار کامیابی سے چلا رہا ہے‘ تعلیمی لحاظ سے اکاونٹنٹ ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ کاروبار میں 50فیصد کمی آئی ہے جس کی وجہ سے اُس نے اپنے سات میں سے چار ملازمین کو فارغ کردیا ہے لیکن اِس کے باوجود بھی آمدن و اخراجات میں توازن برقرار نہیں رکھ پا رہا۔
ساتواں واقعہ: شہر کی ایک سرمایہ دار بستی میں ایک گوشت فروخت کرنے والے (قصاب) نے بھی اپنے کاروبار میں کمی کی داستان مختلف انداز میں سنائی کہ گوشت کے خریدار اب بھی آتے ہیں لیکن اُنہوں نے گوشت کی کم مقدار خریدنا شروع کر دی ہے۔
لب لباب یہ ہے کہ پاکستان میں معاشی سرگرمیاں زوال پذیر ہیں۔ آمدن و اخراجات میں توازن برقرار رکھنا ہر دن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ چھوٹے بڑے کاروباری اداروں اُور انفرادی طور پر بزنس کرنے والوں کے منافع میں غیرمعمولی شرح سے کمی آئی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں کمی لانے کے لئے حکومت کو خاطرخواہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
No comments:
Post a Comment