کیمرے کی آنکھ!
فوٹوگرافی (عکاسی) کے ذریعے تخلیقی صلاحیتوں کا اِظہار ممکن ہے اُور فنون لطیفہ میں شمار ہونے والا یہی ذریعہ (میڈیم اُور مضمون) گردوپیش سے متعلق کسی فوٹوگرافر (عکاس) کی سوچ کا ترجمان بھی ہوتا ہے۔
پاکستان میں ’فن فوٹوگرافی‘ انتہائی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے‘ جس کی دلیل یہ ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی ماضی کے مقابلے کہیں گنا زیادہ اُور معیار کے لحاظ سے بہترین انداز میں ہو رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب غیرملکی فوٹو نیوز ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار عکاس‘ جنہیں پاکستان سے متعلق صحافتی فوٹوگرافی (Photojournalism) کی ذمہ داریاں (assignments) دی جاتی تھیں وہ دیگر موضوعات جیسا کہ روزمرہ معمولات زندگی اور پاکستان کے سیاحتی مقامات کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے لیکن ڈیجیٹل فوٹوگرافی (Digital Photography) کے کم قیمت اور باآسانی دستیاب آلات نے تو گویا انقلاب برپا کر دیا ہے اُور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اب تو ہر موبائل فون رکھنے والے کی جیب میں ایک عدد کیمرہ (camera) سما گیا ہے! اُور اگر ضرورت باقی رہ گئی ہے تو وہ تخلیقی صلاحیت اُور اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے کی جرات و حوصلے پر مبنی ’بہادری‘ دکھانے کی ہے۔
یاد رہے کہ 1975ءمیں ایسٹ مین کوڈک (Kodak) نامی کمپنی کے 24 سالہ انجنیئر اسٹیون ساسن (Steven Sasson) نے ’ڈیجیٹل فوٹوگرافی‘ ایجاد کی تھی اُور ’ایسٹ مین کوڈک‘ نامی کمپنی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِس نے دنیا کو پہلا ڈیجیٹل کیمرہ دیا‘ جس کی آجکل ایسی ترقی یافتہ اشکال دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ کیمرے کسی منظر سے منعکس ہونے والی روشنی اور اُس کی تفصیلات کی ایک سکینڈ سے بھی کم لمحے میں جانچ کر کے ازخود (automatically) درست تصویر (exposure) کا انتخاب کر لیتا ہے اُور کیمروں کی اِنہی صلاحیتوں کی وجہ سے فوٹوگرافی ہر دن پہلے سے زیادہ نکھری نکھری اُور آسان سے آسان تر ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر بنانا مشکل نہیں رہا لیکن اِس فن کو سمجھنا مشکل نہیں تو محنت و توجہ طلب ضرور ہے۔ موبائل ہو یا کسی بھی قسم کا کیمرہ‘ اُس پر لگے ایک خاص بٹن کو دبانے (click) سے تصویر تو بن سکتی ہے لیکن اِس تصویر میں مقصدیت ہی کسی عکاس کو کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کا ذریعہ ہو سکتی ہے اُور یہ ایک ایسا نادر موقع ہے جس سے یقینا ہر کوئی فائدہ اُٹھانا چاہے گا‘ بالخصوص موبائل فون اُور سوشل میڈیا کا امتزاج کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ دنیا منتظر و طلبگار ہے کہ کوئی کیمرے کی آنکھ سے اپنے گردوپیش میں دیکھنے کی اچھوتی کوشش کرے۔ خوش آئند ہے کہ عکاسی کے عالمی منظرنامے میں پاکستان ’غیرمانوس نام‘ نہیں رہا۔
اکتوبر 2017ءمیں جب جاپان کی معروف کیمرہ ساز کمپنی نیکون (Nikon) نے نئے ماڈل کا کیمرہ (D-850) متعارف کروایا تو اُس کے تجرباتی استعمال (فوٹوشوٹ) کے لئے دنیا کے بہترین اور معروف فوٹوگرافروں کو جاپان طلب کیا گیا‘ جہاں اُنہوں نے اپنی اپنی مہارت اُور صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اِن میں پاکستان سے فیشن فوٹوگرافر ’ٹپو جویری (Tapu Javeri)‘ بھی شامل تھے اُور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک جیسے آلات اُور ایک جیسے حالات میں کام کرتے ہوئے ’ٹپو جویری‘ نے مدمقابل غیرملکی فوٹوگرافروں کو حیران بلکہ پریشان کیا! ’ٹپو جویری‘ تو ایک پیشہ ور عکاس ہیں‘ جن کا اُوڑھنا‘ بچھونا ہی عکاسی ہے لیکن آج ہمیں ایسی خواتین بالخصوص طالبات ملتی ہیں جنہوں نے عکاسی کے عمل کو شوق و ذوق کی تسکین کے لئے اپنایا اُور پھر اِس میدان میں آگے بڑھتی چلی گئیں۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ’24 سالہ‘ سماحہ جہانگیر (Smaha Jahangir) ایسی ہی ایک عکاس ہیں‘ رواں ماہ (ستمبر دوہزار اُنیس) اُن کی بنائی ہوئی ایک تصویر معروف عالمی میگزین ’نیشنل جیوگرافک‘ میں شائع ہوئی ہے‘ جو امریکہ سے شائع ہوتا ہے اُور دنیا میں دستاویزی فوٹوگرافی کا مستند ادارہ ہے۔ اِس اعزاز کی وجہ سے سماحہ جہانگیر دنیا کے لئے اجنبی نہیں رہیں۔ آپ اُن 10 پاکستانی خواتین میں بھی شامل ہیں‘ جو سوشل میڈیا کی وساطت سے عالمی منظرنامے پر پاکستان کا حوالہ (پہچان) ہیں۔ سماحہ جہانگیر (@fictionography) کے علاوہ خدیجہ ابتسام (@kibtisam)‘ ندا علوی (@nidalvi_)‘ مہ حور جمال (@mahoorjamal)‘ عظیمہ الیاس (@_zeemee)‘ نتاشا خان (@natty.a.khan)‘ آنیہ (@anniyah._)‘ نوال مظہر (@i.nawalmazhar)‘ توبا اُور اقصیٰ(@thenerdtwins)‘ عایزہ حماد (@aiza_Hammad) کے نام کسی اضافی تعارف کے محتاج نہیں۔ اِس مرحلہ فکر پر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ صرف وہی عکاس بہترین (کامیاب) نہیں ہوتے کہ جن کی تصاویر کسی عالمی میگزین میں شائع ہوں بلکہ وہ سبھی مردوخواتین جو عکاسی کو سنجیدگی سے لیتے ہیں‘ اُن کی محنت‘ جذبے‘ لگن‘جنون اُور سب سے بڑھ کر الگ سوچنے کے انداز کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ بظاہر عمومی دکھائی دینے والا ہنر‘ عکاسی کسی بھی طرح معمولی نہیں بلکہ اِس کے لئے اُس ’اَن دیکھے‘ کی تلاش کرنا پڑتی ہے‘ جو سب کو یکساں اور برابر دکھائی دے رہا ہوتا ہے لیکن کسی عکاس کی آنکھ ہی اُسے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیتی ہے!
کسی عکاس سے پوچھیں تو کہے گا کہ فوٹوگرافی کے لئے آپ کو جدید کیمرے‘ ٹرائی پوڈ‘ کیمرہ بیگ‘ عدسوں کی ضرورت ہے لیکن اِن بیش قیمت آلات کی ضرورت صرف اُسی صورت ہوتی ہے جبکہ فوٹوگرافی کو بطور کاروبار (پیشہ) شروع کرنا مقصود ہو۔ سوشل میڈیا کے ذریعے گردوپیش میں خوبیوں اور خوبصورتیوں کو تلاش کرنے کے لئے آلات سے زیادہ ’ژرف نگاہی‘ اُور سوچ (deep-thinking) چاہئے ہوتی ہے۔
سماجی و صحافتی موضوعات ہوں یا سیاحتی مقامات کی دلفریبی کو قید کرنا‘ اِس کام کے لئے کیمرے کے علاوہ جن 3 چیزوں کی اِنتہائی اَشد اُور ناگزیر ضرورت ہوتی ہے وہ صبر‘ تحمل اُور برداشت ہیں۔ عمومی غلطی یہی کی جاتی ہے کہ اندھا دھند تصاویر (clicks) کرنے کو فوٹوگرافی سمجھا جاتا ہے کہ چلو کوئی ایک تصویر تو اچھی آ ہی جائے گی ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن یہ حربہ ہر وقت کارگر ثابت نہیں ہوگا‘ جب تک کہ کسی بظاہر بے جان اُور خاموش تصویر کے قالب سے روشنی اُور خیالات بولتے دکھائی نہ دیں۔ رنگوں کو بات کرنی چاہئے اُور باتوں سے خوشبو وہ اضافی خصوصیت ہے‘ جو کسی تصویر کو خاص بلکہ بہت خاص بنا سکتی ہے۔
...
فوٹوگرافی (عکاسی) کے ذریعے تخلیقی صلاحیتوں کا اِظہار ممکن ہے اُور فنون لطیفہ میں شمار ہونے والا یہی ذریعہ (میڈیم اُور مضمون) گردوپیش سے متعلق کسی فوٹوگرافر (عکاس) کی سوچ کا ترجمان بھی ہوتا ہے۔
پاکستان میں ’فن فوٹوگرافی‘ انتہائی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے‘ جس کی دلیل یہ ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی ماضی کے مقابلے کہیں گنا زیادہ اُور معیار کے لحاظ سے بہترین انداز میں ہو رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب غیرملکی فوٹو نیوز ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار عکاس‘ جنہیں پاکستان سے متعلق صحافتی فوٹوگرافی (Photojournalism) کی ذمہ داریاں (assignments) دی جاتی تھیں وہ دیگر موضوعات جیسا کہ روزمرہ معمولات زندگی اور پاکستان کے سیاحتی مقامات کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے لیکن ڈیجیٹل فوٹوگرافی (Digital Photography) کے کم قیمت اور باآسانی دستیاب آلات نے تو گویا انقلاب برپا کر دیا ہے اُور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اب تو ہر موبائل فون رکھنے والے کی جیب میں ایک عدد کیمرہ (camera) سما گیا ہے! اُور اگر ضرورت باقی رہ گئی ہے تو وہ تخلیقی صلاحیت اُور اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے کی جرات و حوصلے پر مبنی ’بہادری‘ دکھانے کی ہے۔
یاد رہے کہ 1975ءمیں ایسٹ مین کوڈک (Kodak) نامی کمپنی کے 24 سالہ انجنیئر اسٹیون ساسن (Steven Sasson) نے ’ڈیجیٹل فوٹوگرافی‘ ایجاد کی تھی اُور ’ایسٹ مین کوڈک‘ نامی کمپنی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِس نے دنیا کو پہلا ڈیجیٹل کیمرہ دیا‘ جس کی آجکل ایسی ترقی یافتہ اشکال دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ کیمرے کسی منظر سے منعکس ہونے والی روشنی اور اُس کی تفصیلات کی ایک سکینڈ سے بھی کم لمحے میں جانچ کر کے ازخود (automatically) درست تصویر (exposure) کا انتخاب کر لیتا ہے اُور کیمروں کی اِنہی صلاحیتوں کی وجہ سے فوٹوگرافی ہر دن پہلے سے زیادہ نکھری نکھری اُور آسان سے آسان تر ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر بنانا مشکل نہیں رہا لیکن اِس فن کو سمجھنا مشکل نہیں تو محنت و توجہ طلب ضرور ہے۔ موبائل ہو یا کسی بھی قسم کا کیمرہ‘ اُس پر لگے ایک خاص بٹن کو دبانے (click) سے تصویر تو بن سکتی ہے لیکن اِس تصویر میں مقصدیت ہی کسی عکاس کو کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کا ذریعہ ہو سکتی ہے اُور یہ ایک ایسا نادر موقع ہے جس سے یقینا ہر کوئی فائدہ اُٹھانا چاہے گا‘ بالخصوص موبائل فون اُور سوشل میڈیا کا امتزاج کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ دنیا منتظر و طلبگار ہے کہ کوئی کیمرے کی آنکھ سے اپنے گردوپیش میں دیکھنے کی اچھوتی کوشش کرے۔ خوش آئند ہے کہ عکاسی کے عالمی منظرنامے میں پاکستان ’غیرمانوس نام‘ نہیں رہا۔
اکتوبر 2017ءمیں جب جاپان کی معروف کیمرہ ساز کمپنی نیکون (Nikon) نے نئے ماڈل کا کیمرہ (D-850) متعارف کروایا تو اُس کے تجرباتی استعمال (فوٹوشوٹ) کے لئے دنیا کے بہترین اور معروف فوٹوگرافروں کو جاپان طلب کیا گیا‘ جہاں اُنہوں نے اپنی اپنی مہارت اُور صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اِن میں پاکستان سے فیشن فوٹوگرافر ’ٹپو جویری (Tapu Javeri)‘ بھی شامل تھے اُور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک جیسے آلات اُور ایک جیسے حالات میں کام کرتے ہوئے ’ٹپو جویری‘ نے مدمقابل غیرملکی فوٹوگرافروں کو حیران بلکہ پریشان کیا! ’ٹپو جویری‘ تو ایک پیشہ ور عکاس ہیں‘ جن کا اُوڑھنا‘ بچھونا ہی عکاسی ہے لیکن آج ہمیں ایسی خواتین بالخصوص طالبات ملتی ہیں جنہوں نے عکاسی کے عمل کو شوق و ذوق کی تسکین کے لئے اپنایا اُور پھر اِس میدان میں آگے بڑھتی چلی گئیں۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ’24 سالہ‘ سماحہ جہانگیر (Smaha Jahangir) ایسی ہی ایک عکاس ہیں‘ رواں ماہ (ستمبر دوہزار اُنیس) اُن کی بنائی ہوئی ایک تصویر معروف عالمی میگزین ’نیشنل جیوگرافک‘ میں شائع ہوئی ہے‘ جو امریکہ سے شائع ہوتا ہے اُور دنیا میں دستاویزی فوٹوگرافی کا مستند ادارہ ہے۔ اِس اعزاز کی وجہ سے سماحہ جہانگیر دنیا کے لئے اجنبی نہیں رہیں۔ آپ اُن 10 پاکستانی خواتین میں بھی شامل ہیں‘ جو سوشل میڈیا کی وساطت سے عالمی منظرنامے پر پاکستان کا حوالہ (پہچان) ہیں۔ سماحہ جہانگیر (@fictionography) کے علاوہ خدیجہ ابتسام (@kibtisam)‘ ندا علوی (@nidalvi_)‘ مہ حور جمال (@mahoorjamal)‘ عظیمہ الیاس (@_zeemee)‘ نتاشا خان (@natty.a.khan)‘ آنیہ (@anniyah._)‘ نوال مظہر (@i.nawalmazhar)‘ توبا اُور اقصیٰ(@thenerdtwins)‘ عایزہ حماد (@aiza_Hammad) کے نام کسی اضافی تعارف کے محتاج نہیں۔ اِس مرحلہ فکر پر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ صرف وہی عکاس بہترین (کامیاب) نہیں ہوتے کہ جن کی تصاویر کسی عالمی میگزین میں شائع ہوں بلکہ وہ سبھی مردوخواتین جو عکاسی کو سنجیدگی سے لیتے ہیں‘ اُن کی محنت‘ جذبے‘ لگن‘جنون اُور سب سے بڑھ کر الگ سوچنے کے انداز کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ بظاہر عمومی دکھائی دینے والا ہنر‘ عکاسی کسی بھی طرح معمولی نہیں بلکہ اِس کے لئے اُس ’اَن دیکھے‘ کی تلاش کرنا پڑتی ہے‘ جو سب کو یکساں اور برابر دکھائی دے رہا ہوتا ہے لیکن کسی عکاس کی آنکھ ہی اُسے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیتی ہے!
کسی عکاس سے پوچھیں تو کہے گا کہ فوٹوگرافی کے لئے آپ کو جدید کیمرے‘ ٹرائی پوڈ‘ کیمرہ بیگ‘ عدسوں کی ضرورت ہے لیکن اِن بیش قیمت آلات کی ضرورت صرف اُسی صورت ہوتی ہے جبکہ فوٹوگرافی کو بطور کاروبار (پیشہ) شروع کرنا مقصود ہو۔ سوشل میڈیا کے ذریعے گردوپیش میں خوبیوں اور خوبصورتیوں کو تلاش کرنے کے لئے آلات سے زیادہ ’ژرف نگاہی‘ اُور سوچ (deep-thinking) چاہئے ہوتی ہے۔
سماجی و صحافتی موضوعات ہوں یا سیاحتی مقامات کی دلفریبی کو قید کرنا‘ اِس کام کے لئے کیمرے کے علاوہ جن 3 چیزوں کی اِنتہائی اَشد اُور ناگزیر ضرورت ہوتی ہے وہ صبر‘ تحمل اُور برداشت ہیں۔ عمومی غلطی یہی کی جاتی ہے کہ اندھا دھند تصاویر (clicks) کرنے کو فوٹوگرافی سمجھا جاتا ہے کہ چلو کوئی ایک تصویر تو اچھی آ ہی جائے گی ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن یہ حربہ ہر وقت کارگر ثابت نہیں ہوگا‘ جب تک کہ کسی بظاہر بے جان اُور خاموش تصویر کے قالب سے روشنی اُور خیالات بولتے دکھائی نہ دیں۔ رنگوں کو بات کرنی چاہئے اُور باتوں سے خوشبو وہ اضافی خصوصیت ہے‘ جو کسی تصویر کو خاص بلکہ بہت خاص بنا سکتی ہے۔
...
![]() |
https://www.instagram.com/fictionography/ https://twitter.com/smahajahangir |
No comments:
Post a Comment