Sunday, September 15, 2019

KP all set to Reform the Education sector with dress code!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

تعلیمی اِصلاحات:
پہلا قدم (بڑا فیصلہ)!


خیبرپختونخوا میں ’تعلیمی اِصلاحات‘ کے جاری سلسلے میں غوروخوض کا عمل دخل سطحی ہونے کے باعث سست روی کا شکار ہے جس سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔ اب تک ہوئے قابل ذکر اقدامات میں سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم بلند کرنے پر کم لیکن درسگاہوں کی تعداد میں اِضافے پر زیادہ توجہ دی گئی جو اپنی جگہ ایک الگ ضرورت تھی۔

کسی ایسے سکول کا تصور بھی بھلا کیسے کیا جا سکتا ہے جس میں بنیادی سہولیات (چاردیواری‘ کمرے‘ بجلی‘ پینے کے پانی‘ بیت اِلخلائ‘ سیکورٹی اِنتظامات اُور طلبہ کی تعداد کے مطابق تدریسی عملہ) تعینات نہ ہو۔ تحریک انصاف مبارکباد کی مستحق ہے جس نے اَساتذہ کی تربیت‘ اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کے لئے بائیومیٹرکس نظام سے استفادہ‘ چھاپہ مار ٹیموں کی تشکیل‘ محکمانہ ترقی کو اساتذہ کی کارکردگی (امتحانی نتائج) سے مشروط کرنے‘ نصابی کتب کے علاوہ دیگر ضروریات بھی مفت فراہمی‘ نصاب تعلیم پر نظرثانی اُور سرکاری سکولوں میں زیرتعلیم طلبہ کے لئے مراعات (وظائف) جیسے غیرمعمولی اقدامات کئے‘ جن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ اگرچہ اِن سبھی کوششوں سے سرکاری تعلیمی اِداروں کا معیار اُس سطح تک بلند نہیں ہو سکا‘ جہاں تسلی کا اظہار کیا جا سکے لیکن حکومتی کوششوں سے اُبھرنے والا ’خیبرپختونخوا کا تدریسی منظرنامہ‘ ماضی سے بہت مختلف اُور نکھرا نکھرا دکھائی دے رہا ہے۔

تصور کیجئے کہ کسی صوبے میں سب سے زیادہ سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے والا ’محکمہ تعلیم‘ میں اب ماضی کی طرح اساتذہ کی بھرتیاں سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر نہیں ہوتیں۔ تدریسی و غیرتدریسی ملازمتیں ’برائے فروخت‘ نہیں اُور اساتذہ کی بھرتیوں و تعیناتیوں میں قواعدوضوابط پر اِس قدر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے کہ خود اراکین اسمبلی اُور صوبائی کابینہ کے اراکین چاہتے ہوئے بھی عزیزواقارب یا منظورنظر افراد کو بھرتی نہیں کر سکتے لیکن اِن سبھی گرانقدر اقدامات کے باوجود سکولوں سے باہر (out-of-school) بچے بچیوں کو تدریسی عمل کا حصہ بنانے کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے‘ جس کے لئے فیصلہ سازوں نے پہلی مرتبہ والدین کے تحفظات دور کرنے پر توجہ دی ہے۔ وہ والدین جو باوجود خواہش بھی‘ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج رہے‘ اُن کے تحفظات کو سنجیدگی سے سُنا اُور سمجھا گیا ہے کہ کس طرح سماجی برائیاں اُور مسائل معاشرے میں اِس حد تک پھیل چکے ہیں کہ والدین نے اپنے بچے بچیوں کو سکول نہ بھیجنے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ قدرے تاخیر سے سہی لیکن بالآخر صوبائی فیصلہ سازوں نے ایسے سبھی منفی محرکات (رکاوٹوں) کو دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ جن کے باعث بالخصوص بچیوں (لڑکیوں) کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ اِس مقصد کے لئے بچیوں کے سکول جانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرتے ہوئے پہلا قدم (بڑا فیصلہ) ضلع ہری پور میں سامنے آیا ہے جہاں سرکاری تعلیمی اِداروں میں بچیوں کے لئے حجاب اُور عبایہ پہننے کو ’سکول یونیفارم‘ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ حجاب سر اُور چہرے کو ڈھانپنے کے استعمال ہوتا ہے جبکہ عبایا پورے لباس کے اُوپر اُوڑھ لیا جاتا ہے‘ جس سے جسم کی تراش خراش ظاہر نہیں ہوتی۔ سکول یونیفارم کی پابندی برقرار رہے گی لیکن ’ضلع ہری پور‘ کے تمام سرکاری سکولوں کے لئے آمدورفت میں طالبات حجاب اُور عبایا کا استعمال کریں گی۔ اِس سلسلے میں جب صوبائی وزیر تعلیم ’ضیاءاللہ بنگش‘ سے بذریعہ واٹس ایپ (What's App) رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے قریب 2منٹ کے صوتی پیغام میں جواباً اِس فیصلے سے متعلق جن امور کی وضاحت کی‘ اُن سے سکول یونیفارم میں اضافے پر اعتراض کرنے (اُنگلیاں اُٹھانے) والوں کی تسلی و تشفی ہو جانی چاہئے۔

حجاب اُور عبایہ کو یونیفارم کی طرح لازماً استعمال کرنے والوں کے عمومی اعتراضات یہ ہیں 1: خیبرپختونخوا حکومت ’طالبان طرز حکمرانی‘ کو فروغ دے رہی ہے! 2: پردے سے متعلق شرعی قواعد پر ’سخت گیر‘ عمل درآمد سے تنگ نظری پھیلے گی۔ معاشرہ اِنتہاءپسندی کی طرف راغب ہوگا اُور 3: اِس سے عالمی سطح پر پاکستانی معاشرے سے متعلق منفی تاثر اُبھر کر سامنے آئے گا۔ صوبائی حکومت اِن سبھی اعتراضات کو رد کرتے ہوئے مصر ہے کہ حجاب اُور عبایا سے سکولوں میں بچیوں کا داخلہ بڑھے گا۔

رواں ہفتے کی اہم خبر قرار دی جاسکتی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے تمام اضلاع میں طالبات کے لئے حجاب اُور عبایا کا استعمال لازمی قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ضلع ’ہری پور‘ سے ہوئی ابتداءسے متعلق صوبائی وزیر تعلیم ضیاءاللہ بنگش کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی سرکاری سکولوں میں بچوں کو داخل کرنے کی مہم (enrollment-drive) کا آغاز کیا گیا‘ تاہم اِس مرتبہ فیصلہ سازی کرتے ہوئے اُن والدین کے تحفظات کو پیش نظر رکھا گیا ہے جو گردوپیش میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی سے پریشان تھے اُور جو دیگر ایسے سماجی برائیوں (مسائل) کی وجہ سے اپنے بچے بچیوں کو تعلیمی اداروں میں نہ بھیجنے کا فیصلہ کئے بیٹھے تھے۔“

برسرزمین حقائق متقاضی ہیں کہ تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو روائتی انداز میں زبانی کلامی بیانات کی بجائے عملی اقدامات سے دور کیا جاتا۔ اِس سلسلے میں محکمہ ¿ تعلیم پہلے ہی ہر ضلع میں بچے اُور بچیوں کے لئے الگ الگ نگرانوں کو خصوصی اختیارات دے چکی ہے‘ تاکہ وہ اپنے اپنے علاقے میں مخصوص حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات (فیصلے) کریں۔

ضلع ہری پور کی نگران (ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر‘ ڈی اِی اُو) برائے خواتین (فی میل)‘ محترمہ ثمینہ الطاف نے پیش قدمی کرتے ہوئے حجاب اُور عبایا کے لازمی استعمال سے متعلق اعلامیہ (حکمنامہ) جاری کیا‘ جو صوبائی وزارت تعلیم کے فیصلہ سازوں کے علم میں تھا اُور صوبائی وزیر نے ’ڈی اِی اُو‘ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اِس اقدام کو صوبے کے دیگر حصوں میں وسعت دینے کے فیصلے کی تصدیق کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سماجی سطح پر برائیاں اِس حد تک پھیل چکی ہیں تو زیادہ بڑی تعداد میں لڑکیاں تو نجی اداروں میں زیرتعلیم ہیں‘ جہاں اُنہیں اُور اُن کے والدین یا سکولوں کی انتظامیہ کو آمدورفت میں حائل سماجی برائیوں جیسی مشکلات کا سامنا نہیں تو آخر کیا وجہ ہے صرف سرکاری تعلیمی ادارے ہی نشانے پر ہیں؟ علاو ¿ہ ازیں حجاب اُور عبایا کا اطلاق نجی تعلیمی اداروں پر بھی ہوگا یا ہونا چاہئے؟

شک و شبے اُور مزید تحقیق سے بالاتر حقیقت ہے کہ تعلیم سے زیادہ اہم کوئی دوسری ضرورت نہیں بالخصوص خیبرپختونخوا کے تناظر میں شرح خواندگی میں اضافے کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح معاشرے میں عمومی و خصوصی جرائم کی موجودگی بھی اپنی جگہ لمحہ فکریہ ہے‘ جس کی وجہ سے تعلیم جیسی خوبی سے نئی نسل محروم ہو رہی ہے۔ صوبائی حکومت کو اِس بارے میں بھی غور کرنا چاہئے کہ کسی ایک ضلع (ہری پور) میں اگر نوجوانوں میں بے راہ روی اِس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہاں بچیوں کا گھروں سے نکلنا تک محال ہو چکا ہے تو اِس بیماری کا علاج بھی ضروری ہے اُور صرف مرض کی علامات ہی نہیں بلکہ اِس کی وجوہات کا قلع قمع کرنے کے لئے بھی اقدامات ہونے چاہیئں کیونکہ اگر بچیوں کو حجاب اُور عبایا پہنا بھی دیئے جائیں‘ پھر بھی گھر سے سکول تک کے سفر میں اُنہیں لاحق ’مبینہ خطرات‘ موجود رہیں گے۔

سگریٹ (تمباکو) نوشی کے نت نئے انداز (چلم شیشہ محافل)‘ چرس (Hashish)‘ پوڈر (Diamorphine)‘ اُور الکوحل (Ethanol) کے بعد اب آئس (Crystal Methamphetamine) نامی نشے کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ کیبل نیٹ ورکس‘ انٹرنیٹ اُور چوبیس گھنٹے بیدار و مادر پدر آزاد سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر نکال دی ہے! بیروزگاری کی بلند شرح‘ فنی علوم سے ناآشنائی اُور مزید تعلیم کے مواقعوں کی کمی کے باعث نوجوانوں صحت مند اور بامقصد سرگرمیوں سے الگ ہیں! کیا اِن سبھی محرکات پر غور کرتے ہوئے فیصلہ ساز اپنی ذمہ داریوں کا ازسرنو تعین کریں گے؟

کیا ہم اُس مقام پر نہیں آ پہنچے جہاں قانون نافذ کرنے والوں کی سرزنش ہونی چاہئے‘ جن کی کارکردگی اِس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ اب بچے بچیوں کی تعلیم کا حرج ہونے لگا ہے! فیصلہ سازوں کو کسی ایک زاویئے کی بجائے صورتحال کے بارے مختلف پہلووں سے سوچنا چاہئے کہ اگر حجاب اُور عبایا (سکول یونیفارم میں اضافے) جیسے اقدامات بھی کارگر ثابت نہ ہوئے تو کیا صوبائی حکومت طالبات کو سکول لانے لیجانے (تحفظ فراہم کرنے) کے لئے بکتر بند گاڑیوں کا بندوبست کرے گی!؟
............

No comments:

Post a Comment