Electrocuted in Karachi
بجلی‘ کرنٹ اُور کراچی!
دنیا میں ایسے شہروں کی تعداد 4 ہزار 416 ہے‘ جن کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ سوال: دنیا کا ایسا شہر کونسا ہے کہ جہاں بارش کے بعد بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ کی وجہ سے درجنوں لوگ ہر سال ہلاک ہو جاتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے والوں کے لئے چند اشارے یہ ہیں کہ وہ شہر افریقہ یا جنوبی امریکہ کا نہیں بلکہ براعظم ایشیاءسے تعلق رکھتا ہے۔ جواب ہے کراچی۔ جی ہاں کراچی دنیا کا ایسا واحد شہر ہے جہاں ہر سال بارشوں کے موسم میں درجنوں ہلاکتیں صرف اِس وجہ سے ہوتی ہیں کیونکہ بجلی کا ترسیلی نظام خرابیوں کا مجموعہ ہے۔
کراچی میں اوسط 6.8 انچ بارش ہوتی ہے۔ کولمبیا کا شہر کیبوڈو (Quibdo) میں سالانہ 288 انچ بارش ہوتی ہے۔ جنوبی افریقہ کے ملک لائبریا (Liberia) کے شہر مون روویا (Monrovia) جس کی آبادی مشکل دس لاکھ ہے وہاں سالانہ 182 انچ بارش ہوتی ہے لیکن اِن شہروں میں ایک بھی ہلاکت بجلی کا کرنٹ لگنے (electrocution) کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ اِسی طرح ہوائی (Hawaii) کے شہر ہیلو (Hilo) میں سالانہ 127 انچ بارش ہوتی ہے اور یہ سلسلہ سال 272 دن جاری رہتا ہے لیکن وہاں بھی کوئی ایک ہلاکت بجلی کا کرنٹ لگنے سے نہیں ہوتی۔ ایسے بہت سے شہروں کی فہرست پیش کی جاسکتی ہے جہاں کراچی سے زیادہ بارش ہوتی ہے لیکن تصور کیجئے کہ 6.8 انچ بارش ہونے پر بھی کراچی میں درجنوں ہلاکتیں ہونا کس قدر تشویشناک اور افسوسناک امر ہے۔ دنیا پاکستان کے بارے میں کیا سوچتی ہو گی کہ یہاں کس قسم کے فیصلہ ساز بستے ہیں‘ جن کی تعلیمی اسناد پلندوں میں پڑی دکھائی دیتی ہے لیکن اُن کی منصوبہ بندیاں اُور برسرزمین کارکردگی انتہائی ناقص و مایوس کن ہے۔
کراچی میں بارش سے ہونے والی درجنوں ہلاکتیں مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ ہیں‘ جن کے لئے کیا ’نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (NEPRA)‘ کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے؟ کاروباری اخلاقیات بھی کیا کوئی چیز ہوتے ہیں؟ ایک ایسا شہر‘ جہاں کی شرح خواندگی 20فیصد ہو۔ کیا یہ ادویہ ساز ادارے (فارماسوٹیکل کمپنیوں) کو جائز ہے کہ وہ کراچی کی 80فیصد آبادی کو زائد المعیاد ادویات فروخت کریں؟ اِسی طرح اموات بجلی کے کرنٹ لگنے سے ہوتی ہیں اور درجنوں لوگ مر چکے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز کہاں ہیں اُور کیا کر رہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ بجلی کی تاریں جن کھمبوں سے باندھی جاتی ہیں لیکن اُنہیں محفوظ نہیں بنایا جاتا کہ کرنٹ بارش کے پانی کے ساتھ نہ پھیلے اُور نہ ہی اِن کھمبوں (بجلی کے ترسیلی نظام) پر باقاعدگی سے نظر رکھی جاتی ہے تاکہ اِن سے قیمتی انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو۔
سال 2012ءمیں انجنیئر ارشد عباسی نے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (KESC) کی نجکاری کے بعد کی کارکردگی کے بارے میں ایک تحقیق کی۔ جس میں نجکاری کے عمل کا بھی جائزہ شامل تھا۔ سوال یہ تھا کہ آخر حکومت کو اِس بات کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ وہ بجلی کی ترسیلی کمپنی کی نجکاری کر دے؟ اِس کا جواب یہ تھا کہ کراچی میں بجلی کی فراہمی پر حکومت کو بھاری رعایت (سبسڈیز) دینا پڑ رہی تھیں۔ جب حکومت بجلی کی ترسیلی کمپنی چلا رہی تھی تو اِسے سالانہ 9 ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑتی تھی جس کا بوجھ ختم کرنے کے لئے نجکاری کی گئی لیکن سبسڈی دینے کا سلسلہ ختم نہ ہوا بلکہ بڑھ گیا۔ سال 2013ءمیں حکومت نے 76 ارب روپے کی سبسڈی دی تھی۔ تلخ حقیقت ہے کہ کراچی میں بجلی کی ترسیلی کمپنی (K-Electric) کو نجکاری کے بعد سے ”400 ارب روپے“ سبسڈی دی جا چکی ہے۔
کیا ’نیپرا‘ نے کبھی ’کے الیکٹرک‘ سے پوچھا ہے کہ اُسے اب تک جو 400 ارب روپے سبسڈی دی گئی ہے تو اِس کا استعمال کہاں اور کیسے کیا گیا ہے؟ حکومت ’کے الیکٹرک‘ کو 600 میگاواٹ بجلی کم نرخوں پر دیتی ہے جسے مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ رواں برس اپریل میں سیکرٹری پاور عرفان علی نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ ”کے الیکٹرک نے مختلف محکموں کے 125 ارب روپے دینے ہیں۔ اِس اجب الاداء رقم میں 90 ارب سوئی سدرن گیس کمنی اور 35 ارب ’این ٹی ڈی سی‘ کے بقایا جات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سبسڈی کا بوجھ اُتارنے کے لئے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نجکاری کی گئی تھی اُور نجکاری کے بعد بھی سبسڈی دینے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اِس سبسڈی (قومی خزانے کو پہنچنے والے خسارے) میں اضافہ ہو رہا ہے تو ایسی نجکاری کا فائدہ ہی کیا ہے؟ دوسری طرف ’کے الیکٹرک‘ کا مو ¿قف ہے کہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین بلوں کی ادائیگی نہیں کر رہے اُور اُس کے عوام کے ذمے واجب الاداءبل کی مجموعی مالیت 158.8 ارب روپے ہیں!
اعدادوشمار کے اِس گورکھ دھندے میں ’کے الیکٹرک‘ میں سرمایہ کاری کرنے والے مستفید ہو رہے ہیں‘ قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہے اُور کراچی کے عوام کرنٹ لگنے سے مر رہے ہیں!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
No comments:
Post a Comment