ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
!تدبر بمقابلہ تدبیر
ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی وقتی طور پر ’تین سطحی سیکورٹی پلان‘ کے تحت پشاور میں 10 ہزار پولیس
اہلکار تعینات ہوں گے‘ جبکہ موبائل فونز کی بندش بھی کی جائے گی اُور اِس پوری تدبیر کو ’فول پروف (fool-proof)‘ سیکورٹی کا نام دیا گیا ہے! ماہ محرم الحرام کے حوالے سے پشاور کے ماضی و حال میں زمین آسمان کا فرق کیوں ہے؟
فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اہل پشاور باہم شیروشکر ہوا کرتے تھے تو بھائی چارے اور برداشت کا وہ ماحول پھر سے بحال کیوں نہیں ہو سکتا‘ جو پشاور کا خاصہ تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ سوال اہم ہے کہ آخر امن کے لئے ’دائمی خطرہ‘ بننے والوں سے کیوں نہیں نمٹا جاتا‘ جبکہ اُن کرداروں کے نام و کام ڈھکے چھپے نہیں! دیر اب بھی نہیں ہوئی‘ موثر پولیسنگ کے ذریعے وہ سب کچھ ممکن ہے‘ جو فی الوقت ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ امن و امان کی عمومی صورتحال معمول پر آنے کے باوجود اگر محرم الحرام کے موقع پر ماضی کے مقابلے زیادہ سخت حفاظتی انتظامات کرنا پڑ رہے ہیں‘ تو اِس کا سیدھا سادا مطلب تو یہ ہے کہ دہشت کا سبب بننے والا تخریب و خطرہ اُور انتہاءپسندی اپنی جگہ موجود ہے‘ جس سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی عاجلانہ حکمت عملی (تدبیر) پر غور (تدبر) کرنا چاہئے۔
!تدبر بمقابلہ تدبیر
اقوام عالم کے عروج و زوال کے اسباب و اسباق غور طلب ہیں۔ گیارہ مارچ دوہزار گیارہ کے روز جاپان کے شہر ’فوکوشیما (Fukushima)‘ میں زلزلے سے جوہری بجلی گھر سے تابکاری کا اخراج شروع ہوا‘ جس سے بچانے کے لئے پورے شہر کی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لئے حکومتی مشینری حرکت میں آئی۔ جاپان کی تاریخ میں چرنوبل (ستمبر 1982ئ) کے بعد یہ دوسرا بڑا حادثہ تھا‘ جس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں لیکن سب سے خاص بات یہ ہے کہ تین لاکھ آبادی کے ’فوکوشیما‘ شہر سے تعلق رکھنے والے کسی ایک بھی بچے کو‘ کسی ایک بھی دن سکول سے رخصت نہیں دی گئی بلکہ قریبی (محفوظ) شہروں میں کھیلوں کے میدانوں کو سکولوں میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ تعلیم کا حرج نہ ہو۔
تعلیم کو ترجیح دینے کے ثمرات یہ ہیں کہ جاپان کا شمار دنیا کے سرفہرست تین امیرترین ممالک میں ہوتا ہے‘ جہاں فی کس اوسط آمدنی سالانہ 50 ہزار جبکہ پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی قریب 6 ہزار ڈالر ہے! زلزلے جیسے قدرتی آفت سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے والے جاپان میں اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں تعلیمی اداروں کو کسی بھی وجہ سے ایک دو نہیں بلکہ کئی کئی روز تک بند کیا جا سکتا ہے لیکن کیا پاکستان کے فیصلہ سازوں میں اِس قدر حساسیت پائی جاتی ہے کہ وہ تعلیم کو خاطرخواہ اہمیت کا احساس کریں؟
تعلیم کو ترجیح دینے کے ثمرات یہ ہیں کہ جاپان کا شمار دنیا کے سرفہرست تین امیرترین ممالک میں ہوتا ہے‘ جہاں فی کس اوسط آمدنی سالانہ 50 ہزار جبکہ پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی قریب 6 ہزار ڈالر ہے! زلزلے جیسے قدرتی آفت سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے والے جاپان میں اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں تعلیمی اداروں کو کسی بھی وجہ سے ایک دو نہیں بلکہ کئی کئی روز تک بند کیا جا سکتا ہے لیکن کیا پاکستان کے فیصلہ سازوں میں اِس قدر حساسیت پائی جاتی ہے کہ وہ تعلیم کو خاطرخواہ اہمیت کا احساس کریں؟
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے حکم جاری کیا گیا ہے کہ ”ماہ محرم الحرام (چودہ سو اکتالیس ہجری) کے ’پہلے 10روز‘ پشاور میں 15 تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔“ ظاہر ہے کہ ایسا کرنے کی سفارش محکمہ ¿ پولیس کی جانب سے کی گئی ہو گی جس کی محرم الحرام سے متعلق ’خصوصی حفاظتی تدابیر (سیکورٹی پلان)‘ میں تدبیر تو ملتی ہے البتہ تدبر کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے
محرم الحرام کے پہلے عشرے (ابتدائی دس دنوں کو) ’مثالی (نمائشی) پرامن‘ بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے مختلف ادارے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں لیکن اگر اِسی ’اشتراک عمل‘ کا سال کے باقی مہینوں (پیشگی مظاہرہ) جاری رہتا تو محرم الحرام کے موقع پر ایسی ہنگامہ خیزی کی قطعی ضرورت ہی نہ پڑتی‘ کہ جس سے اہل پشاور کے معمولات (ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر) بُری طرح متاثر ہوں گے۔ مثال کے طور پر رواں برس پہلی مرتبہ 10روز کے لئے ’15 سرکاری و نجی تعلیمی اداروں‘ کو بند رکھنے کا فیصلہ غیرمنطقی ہے۔ فیصلہ سازوں کی ذہانت کو داد دینی پڑتی ہے‘ جو عشرہ محرم کی ابتداءاور اختتام پر اندرون شہر کے تعلیمی اداروں کی تالہ بندی کر دیتے ہیں۔ سلامتی کے مراکز مساجد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کر دیا جاتا ہے جبکہ آمدورفت کے لئے عمومی استعمال ہونے والے راستوں پر خاردار رکاوٹیں کھڑی کر کے داخلی شہر کے اندر ہی مختلف علاقوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دیا جاتا ہے!
لمحہ فکریہ ہے کہ یہ سب دوڑ دھوپ ’امن‘ اُور ایک ایسے ’محترم و مکرم مہینے کے نام پر ہوتا ہے‘ جس کی حرمت مسلمہ و معلوم ہے۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ دس روز کے لئے بند کئے جانے والے تعلیمی اداروں میں خصوصی بچوں کا ایک تعلیمی و تربیتی مرکز بھی شامل ہے۔ جن تعلیمی اِداروں کی اِس سال تالہ بندی کر دی گئی ہے اُن میں گورنمنٹ ہائی سکول (گونگے بہرے) محلہ جٹاں‘ گورنمنٹ پرائمری سکول مچھی کھٹہ‘ سنٹرل سٹی پبلک سکول محلہ دفتر بنداں‘ بلاول ملک سکول محلہ جٹاں‘ السید پبلک سکول محلہ قاضی خیلاں‘ تصور پبلک سکول محلہ جٹان‘ رمشا پبلک سکول کوچہ سید ولی‘ پشاور کمپیوٹر پبلک سکول محلہ فرشی گلی‘ یونیک پبلک سکول منڈا بیری‘ ٹیلنٹ پبلک سکول منڈا بیری‘ سیڈز پبلک سکول منڈا بیری‘ تاج پبلک سکول میر پور فرشی گلی اُور گورنمنٹ گرلز ہائی سکول منڈا بیری شامل ہیں۔ تصور کیجئے کہ ہمارے ہاں ہر غیرقانونی کام کے پیچھے بھی ایک قانون چھپا ملتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے بقول ”سکولوں کی بندش کا فیصلہ ’ضلعی حکومت کے قانون (لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013) کی شق 71
(a)
کے تحت اِس اقدام کا اطلاق صرف اُنہی علاقوں پر کیا گیا ہے‘ جہاں محرم الحرام کے حوالے سے اجتماعات کا انعقاد یا ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں اُور یکم سے تیرہ محرم الحرام کے دوران موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔“ لیکن بناء رجسٹریشن‘ بناءنمبرپلیٹ اُور جعلی نمبرپلیٹوں والے موٹرسائیکلوں کے خلاف کاروائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی! کوئی بھی شخص پشاور کی درودیوار پر سارا سال لکھائی کرتا رہے لیکن ایسا کرنا محرم الحرام کے دوران ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ مذہب کے نام پر اختلافات بھڑکانے والی تقاریر‘ نفرت انگیز مواد کی اشاعت و تشہیر بھی محرم الحرام کے دوران کرنے کی اجازت نہیں ہو گی لیکن اگر کوئی سال کے باقی مہینے اور محرم الحرام کے دوران بھی سوشل میڈیا کے ذریعے تعفن پھیلاتا رہے تو اُس کے خلاف کاروائی کی صورت کیا ہوگی؟
افغان مہاجرین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے کیمپوں کی حد تک سرگرمیوں کو محدود رکھیں لیکن شہروں کے اندر بسنے والے مہاجرین کے لئے حکم کیا ہے‘ تاحال یہ واضح نہیں
لمحہ فکریہ ہے کہ یہ سب دوڑ دھوپ ’امن‘ اُور ایک ایسے ’محترم و مکرم مہینے کے نام پر ہوتا ہے‘ جس کی حرمت مسلمہ و معلوم ہے۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ دس روز کے لئے بند کئے جانے والے تعلیمی اداروں میں خصوصی بچوں کا ایک تعلیمی و تربیتی مرکز بھی شامل ہے۔ جن تعلیمی اِداروں کی اِس سال تالہ بندی کر دی گئی ہے اُن میں گورنمنٹ ہائی سکول (گونگے بہرے) محلہ جٹاں‘ گورنمنٹ پرائمری سکول مچھی کھٹہ‘ سنٹرل سٹی پبلک سکول محلہ دفتر بنداں‘ بلاول ملک سکول محلہ جٹاں‘ السید پبلک سکول محلہ قاضی خیلاں‘ تصور پبلک سکول محلہ جٹان‘ رمشا پبلک سکول کوچہ سید ولی‘ پشاور کمپیوٹر پبلک سکول محلہ فرشی گلی‘ یونیک پبلک سکول منڈا بیری‘ ٹیلنٹ پبلک سکول منڈا بیری‘ سیڈز پبلک سکول منڈا بیری‘ تاج پبلک سکول میر پور فرشی گلی اُور گورنمنٹ گرلز ہائی سکول منڈا بیری شامل ہیں۔ تصور کیجئے کہ ہمارے ہاں ہر غیرقانونی کام کے پیچھے بھی ایک قانون چھپا ملتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے بقول ”سکولوں کی بندش کا فیصلہ ’ضلعی حکومت کے قانون (لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013) کی شق 71
(a)
کے تحت اِس اقدام کا اطلاق صرف اُنہی علاقوں پر کیا گیا ہے‘ جہاں محرم الحرام کے حوالے سے اجتماعات کا انعقاد یا ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں اُور یکم سے تیرہ محرم الحرام کے دوران موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔“ لیکن بناء رجسٹریشن‘ بناءنمبرپلیٹ اُور جعلی نمبرپلیٹوں والے موٹرسائیکلوں کے خلاف کاروائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی! کوئی بھی شخص پشاور کی درودیوار پر سارا سال لکھائی کرتا رہے لیکن ایسا کرنا محرم الحرام کے دوران ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ مذہب کے نام پر اختلافات بھڑکانے والی تقاریر‘ نفرت انگیز مواد کی اشاعت و تشہیر بھی محرم الحرام کے دوران کرنے کی اجازت نہیں ہو گی لیکن اگر کوئی سال کے باقی مہینے اور محرم الحرام کے دوران بھی سوشل میڈیا کے ذریعے تعفن پھیلاتا رہے تو اُس کے خلاف کاروائی کی صورت کیا ہوگی؟
افغان مہاجرین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے کیمپوں کی حد تک سرگرمیوں کو محدود رکھیں لیکن شہروں کے اندر بسنے والے مہاجرین کے لئے حکم کیا ہے‘ تاحال یہ واضح نہیں
ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی وقتی طور پر ’تین سطحی سیکورٹی پلان‘ کے تحت پشاور میں 10 ہزار پولیس
اہلکار تعینات ہوں گے‘ جبکہ موبائل فونز کی بندش بھی کی جائے گی اُور اِس پوری تدبیر کو ’فول پروف (fool-proof)‘ سیکورٹی کا نام دیا گیا ہے! ماہ محرم الحرام کے حوالے سے پشاور کے ماضی و حال میں زمین آسمان کا فرق کیوں ہے؟
فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اہل پشاور باہم شیروشکر ہوا کرتے تھے تو بھائی چارے اور برداشت کا وہ ماحول پھر سے بحال کیوں نہیں ہو سکتا‘ جو پشاور کا خاصہ تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ سوال اہم ہے کہ آخر امن کے لئے ’دائمی خطرہ‘ بننے والوں سے کیوں نہیں نمٹا جاتا‘ جبکہ اُن کرداروں کے نام و کام ڈھکے چھپے نہیں! دیر اب بھی نہیں ہوئی‘ موثر پولیسنگ کے ذریعے وہ سب کچھ ممکن ہے‘ جو فی الوقت ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ امن و امان کی عمومی صورتحال معمول پر آنے کے باوجود اگر محرم الحرام کے موقع پر ماضی کے مقابلے زیادہ سخت حفاظتی انتظامات کرنا پڑ رہے ہیں‘ تو اِس کا سیدھا سادا مطلب تو یہ ہے کہ دہشت کا سبب بننے والا تخریب و خطرہ اُور انتہاءپسندی اپنی جگہ موجود ہے‘ جس سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی عاجلانہ حکمت عملی (تدبیر) پر غور (تدبر) کرنا چاہئے۔
............
No comments:
Post a Comment