Tuesday, September 3, 2019

The ideologists - a reflection of Iranian revolution!

از ایبٹ آباد‘ بروز منگل
ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
تین محرم الحرام چودہ سو اکتالیس ہجری
تین ستمبر دوہزار اُنیس عیسوی
....
....مشت خوں یادگار ہے میرا ....

’انقلاب اسلامی (1979)‘ کے ظہورپذیر ہونے کے بعد پاکستان میں بھی بیداری کی لہر اُٹھی۔ ملک کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں بالخصوص شیعہ اثنائے عشریہ (فقہ جعفریہ) سے تعلق رکھنے والے ایسے کئی باکردار اُٹھے‘ جنہوں نے بانی ¿ انقلاب اِمام خمینی رحمة اللہ علیہ کی صورت میں صرف ایران ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے لئے ایک نجات دہندہ کا روپ دیکھا اُور یہیں سے اُنہوں نے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ وہ انقلاب کے شانہ بشانہ چلے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں کہلانے والے طاغوت و استعمار کے سامنے انقلاب کے علمبردار بن کر کھڑے ہوئے اُور جانی و مالی قربانیوں کے ذریعے ثابت کیا کہ کسی انقلاب کا حقیقی ثمر ایسے ہی جانباز ہوتے ہیں جو خطروں کو خاطر میں نہیں لاتے اُور پشاور کو فخر ہونا چاہئے کہ اِس سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی سرفروشوں نے اپنے وسائل و توانائیاں (دام‘ درہمے‘ سخنے) انقلاب اسلامی ایران کے لئے وقف کیں۔

انقلاب اسلامی کے پیغام اور مقصد کی ترویج و اشاعت (سرپرستی) اُور حفاظت کے لئے پشاور میں 2 ایرانی اداروں کا بنیادی کردار رہا ہے‘ جن میں سے ایک ثقافتی مرکز (خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران) اُور دوسرا سفارتی مرکز (قونصل جنرل جمہوری اسلامی ایران) کے دفاتر ہیں۔ یہ دونوں ایرانی مراکز انقلاب اسلامی سے قبل قائم ہوئے تاہم انقلاب کے بعد اِن کی انتظامیہ تبدیل ہوئی اُور اُمید تھی کہ ایران امتیازات کو ختم کرنے کے لئے جس انقلاب کو دنیا میں متعارف کروا رہا ہے‘ اُس کی عملی مثالیں خود ایرانی سفارتکاروں کے کردار سے چھلکیں گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ پشاور میں ایران حکومت کے مذکورہ دونوں دفاتر میں تعینات پاکستانی اہلکاروں اگرچہ شکایت نہیں کرتے لیکن اُن کے حالات دیکھ کر اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ اِن پاکستانیوں سے دوران ملازمت اُور بعدازملازمت ہمدردی کا سلوک روا نہیں رکھا جاتا اُور نہ ہی اُن کی خدمات کا خاطرخواہ اعتراف کیا جاتا ہے بلکہ ملازمتوں سے برخاست کرنے یا کسی اہلکار کے شہادت کے بعد اُس کے اہل خانہ کی ازخود خاطرخواہ مالی امداد بھی نہیں کی جاتی۔ یہ امتیازی سلوک کی حقیقی مثالیں ناقابل بیان اور ناقابل یقین ہیں! اِس سلسلے میں ایران کے ثقافتی مرکز اُور قونصل خانے کا موقف جاننے کے لئے الگ الگ رابطہ کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی ہے اُور متعلقہ ایرانی حکام اِس بارے میں کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے معذرت کر رہے ہیں۔

پشاور میں تعینات ایران کے سفارتی اہلکاروں کا پاکستانی ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک سے متعلق صرف 2 مثالوں کے ذکر پر اکتفا کیا جائے گا۔ پہلی مثال 55سالہ (خلدآشیاں) سیّد ابوالحسن جعفری کی ہے‘ جنہیں نومبر 2009ءکی ایک صبح گھر سے دفتر جاتے ہوئے انتہائی ماہر نشانہ بازوں نے قتل کر دیا جبکہ کوئی 9ملی میٹر کی ایک بھی گولی خطا نہیں گئی۔

خوش لباس و خوش گفتار‘ نرم خو‘ مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک‘ ابوالحسن نہ صرف پشاور قونصل خانے کے ترجمان تھے بلکہ پاکستان میں ایرانی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی آمد جیسے اہم مواقعوں پر بھی ترجمانی و مترجم کے فرائض سرانجام دیا کرتے تھے لیکن ابوالحسن کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ پاکستان میں ایرانی سفارتکاروں کے قریب تھے جن کو نشانہ بنانے کے ذریعے ایرانی حکام کو اپنی آمدورفت محدود کرنے کا پیغام دیا گیا۔ اَبواَلحسن ایک روشن خیال شخص تھا لیکن وہ تاریک راہوں میں مارا گیا۔ دوسری مثال رواں برس (دوہزاراُنیس) کی ہے۔

چند روز قبل جب پشاور میں ایران کے ثقافتی مرکز جانے کا اتفاق ہوا اُور استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ ترجمان و مترجم اُور فارسی زبان کے معلم جیسے اہم عہدوں پر (ایک تنخواہ میں) متعدد خدمات سرانجام دینے والے سیّد غیور حسین سے اب شرف ملاقات نہیں ہو سکے گی! آپ جامعہ پشاور کے شعبہ فارسی اور خانہ فرہنگ میں فارسی زبان کی تدریس کرنے کے علاو ¿ہ علمی ادبی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں اُور آپ کی گرانقدر علمی تحقیقات سے ایک زمانہ آج بھی استفادہ کر رہا ہے۔ سیّد غیور حسین کو کئی عالمی سیمیناروں میں پاکستان کی نمائندگی اُور اِس خطے میں بزرگان دین کے کلام و خدمات بارے اپنی تحقیق پیش کرنے کا موقع ملا اُور انہوں نے عالمی سطح پر اپنے علم و دانشوری کا لوہا منوایا لیکن افسوس کہ اگر اُن کی قدر کسی نے نہیں کی تو خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران پشاور نے‘ اِس ہیرے جیسے شخص کی اہمیت کو نہیں سمجھا اُور اُنہیں بیک جنبش قلم ملازمت سے فارغ کر دیا گیا جبکہ وہ بزرگی کے عالم میں اِس قابل بھی نہیں کہ کسی دوسرے شعبے میں محنت مزدوری کر کے اہل خانہ کی کفالت کر سکیں۔

تصور کیجئے کہ .... جن افراد نے اپنی ساری زندگیاں‘ اپنے وسائل اور نوجوانیاں ایران کے انقلاب اُور اُس کے پیغام کو گھر گھر پہنچانے میں صرف کیں۔ جنہوں نے فارسی زبان کو زندہ رکھنے اور ایران کے سیاسی و مذہبی اثرورسوخ کو زندہ و پائندہ رکھنے کے لئے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والوں اُور ایران کے درمیان ایک ’پُل (bridge)‘ کا کردار ادا کیا لیکن ایسے افراد کی خاطرخواہ قدرشناسی نہ ہونا کس قدر افسوسناک بات ہے۔

تصور کیجئے کہ .... جب پشاور میں انقلاب اسلامی کا نام لینا جرم اُور موت کو دعوت دینے کے مترادف تصور ہوتا تھا‘ تب ایران سے نسبت اپنی بودوباش پر سجائے یہی ہستیاں تھیں‘ جنہوں نے اتحاد بین المسلمین سے لیکر علمی ادبی محافل تک اسلامی نظریات کا دفاع کیا۔
”مرید پیر مغاں صدق سے نہ ہم ہوتے
جو حق شناس کوئی اُور بھی نظر آتا (میر تقی میر)“  
نظریاتی لوگوں کی بس یہی مجبوری ہوتی ہے کہ یہ جس سے ’وفا‘ کا عہد کر لیں تو پھر جانی و مالی قربانیوں میں کمال صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ابوالحسن سے سیّد غیور تک (کرداروں) کی کہانی ایک جیسی ہے۔ دونوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔ دونوں نے کبھی ایرانی حکومت اُور پشاور میں ایرانی انتظامیہ سے متعلق شکایت نہیں کی کیونکہ وہ شاید اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے اُن کے مسلک (تشیع) کو نقصان اور تشیع کے خلاف محاذ بنانے والے مخالفین کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اِنہیں آج بھی مجنوں کی طرح ہر جانب لیلیٰ (انقلاب اسلامی) دکھائی دے رہا ہے اُور یہی اِن کی سب سے بڑی بھول ثابت ہوئی‘ جسے اگرچہ یہ اب بھی غلطی تسلیم نہیں کرتے!

بہرحال ایران کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے ابوالحسن اور سیّد غیور کی خدمات کو جس قدر سراہا جائے کم ہوگا لیکن اِن کا انجام قریب ایک جیسا رہا کہ ایک کو ’لب سڑک‘ خون میں لت پت چھوڑ دیا گیا‘ جس کی برسی کی مناسبت سے آج ایک بھی دن مخصوص نہیں۔ کوئی ایک شمع بھی نہیں جلائی جاتی‘ ایک آنسو بھی نہیں بہایا جاتا اور دوسرے وفا شعار (سیّد غیور) کو خانہ فرہنگ ایران سے بے روزگار کر کے ایک ایسی خونخوار دنیا کے منہ دھکیل دیا گیا ہے‘ جو اِس مالی مجبور شخص کو نوچ کھانے کی منتظر ہے!

”میرے قاتل کی کف حنائی نہیں
مشت خوں یادگار ہے میرا (ولی عزلت)۔“
............
It is easier to forgive an enemy than to forgive a friend

No comments:

Post a Comment