ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
قبرستان: شریک جرم حکمران!
جنوب مشرق اِیشیاءکے قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ’پشاور‘ میں قبرستانوں کی اَراضی نہایت ہی منظم اَنداز میں قبضہ ہو رہی ہے اُور یہ سلسلہ وفاقی حکمراں پیپلزپارٹی کی صوبائی اتحادی پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے دور حکومت (2008ءسے 2103ئ) میں زیادہ بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔
پشاور کے انتخابی حلقوں میں اکثریت (ووٹ بینک) بنانے کے لئے ’اے این پی‘ نے قبرستانوں کی سیاسی جس کے خلاف اہل پشاور نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے بھی رجوع کیا اُور پشاور کے حق میں عدالت کا یہ فیصلہ موجود ہے کہ قبرستانوں میں تجاوزات کی اراضی تجاوز واگزار کرائی جائے اور مزید تجاوزات نہ ہونے دی جائے۔ عوامی دباو کارگر (فتح یاب) ثابت ہوا۔
جون 2011ءمیں ’قبرستان بچاو تحریک‘ نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے اراکین (مختلف مکاتب فکر کے نمائندوں) نے قانونی چارہ جوئی جاری رکھنے کے ساتھ ’پریس کلب‘ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اُور قدیمی ’رحمان بابا قبرستان‘ میں ہونے والی تجاوزات کے خلاف صوبائی حکومت و ضلعی انتظامیہ کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی۔ اِس موقع پر تحریک کی جانب سے قبرستانوں کی اراضی پر بننے والے رہائشی بستیوں اُور کاروباری مراکز کی جاری تعمیرات سے متعلق مدعا مو ¿ثر انداز میں اُجاگر کرتے ہوئے یہ اعدادوشمار بھی جاری کئے گئے کہ .... ”پشاور کے ’رحمان بابا قبرستان‘ کا کل رقبہ جو کبھی ’198 ایکڑ‘ ہوا کرتا تھا ’74 ایکڑ‘ رہ گیا ہے اُور قبرستان تجاوزات کے باعث کم سے کم ’ایک ارب روپے‘ سے زائد کی اراضی قبضہ کی جا چکی ہے لیکن اِس ”عوامی توجہ دلاو ¿ نوٹس“ کا بھی خاطرخواہ نوٹس نہیں لیا گیا اُور سال 2011ءسے 2019ءکے درمیانی عرصے میں بھی تجاوزات کا سلسلہ جوں کا توں جاری رہا‘ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ رحمان بابا قبرستان کا رقبہ (اندازاً) 50 ایکڑ ہی باقی بچا ہے اُور یہ صورتحال اِس لئے بھی توجہ (غور) طلب ہے کہ باقی ماندہ قبرستان کی اراضی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے‘ جسے گلی کوچوں کی تعمیر‘ ٹیوب ویل‘ سکول‘ مساجد‘ کیمونٹی سنٹرز (حجروں) اُور ضلعی حکومت کے دفاتر قائم کرنے کے لئے مختص کر لیا جائے گا۔ پشاور کے دیگر اثاثوں کی طرح قبرستانوں کی اراضی ’مال مفت‘ ہے‘ جس کے رہے سہے ٹکڑے قبضہ کرنے ماضی کی نسبت زیادہ آسان ہو گئے ہیں۔ سیاسی پشت پناہی رکھنے والے عناصر‘ متعلقہ پولیس تھانہ جات اُور پٹوار خانے کی ملی بھگت سے راتوں رات نہیں بلکہ دن دیہاڑے بھی قبرستان کی اراضی قبضہ کر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
آج کے پشاور میں ’قانون شکنی‘ جرم نہیں رہا۔
قانون شکنوں کو کسی کا خوف نہیں اُور صوبائی و ضلعی فیصلہ سازوں کی عدم دلچسپی کا خاص نکتہ یہ ہے کہ اِن میں سے کسی کا بھی آبائی قبرستان پشاور میں نہیں‘ اِس لئے اگر رحمان بابا سمیت پشاور کے تمام قبرستانوں کی اراضی بھی قبضہ کر لی جائے تو اِنہیں کچھ فرق نہیں پڑے گا اُور نہ ہی ’قبرستان قبضہ مافیا‘ کو کھلی چھوٹ دینے والے شریک جرم حکمرانوں کو ضمیر نامی کوئی شے جھنجھوڑ رہی ہے!
قبرستان: شریک جرم حکمران!
جنوب مشرق اِیشیاءکے قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ’پشاور‘ میں قبرستانوں کی اَراضی نہایت ہی منظم اَنداز میں قبضہ ہو رہی ہے اُور یہ سلسلہ وفاقی حکمراں پیپلزپارٹی کی صوبائی اتحادی پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے دور حکومت (2008ءسے 2103ئ) میں زیادہ بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔
پشاور کے انتخابی حلقوں میں اکثریت (ووٹ بینک) بنانے کے لئے ’اے این پی‘ نے قبرستانوں کی سیاسی جس کے خلاف اہل پشاور نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے بھی رجوع کیا اُور پشاور کے حق میں عدالت کا یہ فیصلہ موجود ہے کہ قبرستانوں میں تجاوزات کی اراضی تجاوز واگزار کرائی جائے اور مزید تجاوزات نہ ہونے دی جائے۔ عوامی دباو کارگر (فتح یاب) ثابت ہوا۔
جون 2011ءمیں ’قبرستان بچاو تحریک‘ نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے اراکین (مختلف مکاتب فکر کے نمائندوں) نے قانونی چارہ جوئی جاری رکھنے کے ساتھ ’پریس کلب‘ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اُور قدیمی ’رحمان بابا قبرستان‘ میں ہونے والی تجاوزات کے خلاف صوبائی حکومت و ضلعی انتظامیہ کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی۔ اِس موقع پر تحریک کی جانب سے قبرستانوں کی اراضی پر بننے والے رہائشی بستیوں اُور کاروباری مراکز کی جاری تعمیرات سے متعلق مدعا مو ¿ثر انداز میں اُجاگر کرتے ہوئے یہ اعدادوشمار بھی جاری کئے گئے کہ .... ”پشاور کے ’رحمان بابا قبرستان‘ کا کل رقبہ جو کبھی ’198 ایکڑ‘ ہوا کرتا تھا ’74 ایکڑ‘ رہ گیا ہے اُور قبرستان تجاوزات کے باعث کم سے کم ’ایک ارب روپے‘ سے زائد کی اراضی قبضہ کی جا چکی ہے لیکن اِس ”عوامی توجہ دلاو ¿ نوٹس“ کا بھی خاطرخواہ نوٹس نہیں لیا گیا اُور سال 2011ءسے 2019ءکے درمیانی عرصے میں بھی تجاوزات کا سلسلہ جوں کا توں جاری رہا‘ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ رحمان بابا قبرستان کا رقبہ (اندازاً) 50 ایکڑ ہی باقی بچا ہے اُور یہ صورتحال اِس لئے بھی توجہ (غور) طلب ہے کہ باقی ماندہ قبرستان کی اراضی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے‘ جسے گلی کوچوں کی تعمیر‘ ٹیوب ویل‘ سکول‘ مساجد‘ کیمونٹی سنٹرز (حجروں) اُور ضلعی حکومت کے دفاتر قائم کرنے کے لئے مختص کر لیا جائے گا۔ پشاور کے دیگر اثاثوں کی طرح قبرستانوں کی اراضی ’مال مفت‘ ہے‘ جس کے رہے سہے ٹکڑے قبضہ کرنے ماضی کی نسبت زیادہ آسان ہو گئے ہیں۔ سیاسی پشت پناہی رکھنے والے عناصر‘ متعلقہ پولیس تھانہ جات اُور پٹوار خانے کی ملی بھگت سے راتوں رات نہیں بلکہ دن دیہاڑے بھی قبرستان کی اراضی قبضہ کر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
آج کے پشاور میں ’قانون شکنی‘ جرم نہیں رہا۔
قانون شکنوں کو کسی کا خوف نہیں اُور صوبائی و ضلعی فیصلہ سازوں کی عدم دلچسپی کا خاص نکتہ یہ ہے کہ اِن میں سے کسی کا بھی آبائی قبرستان پشاور میں نہیں‘ اِس لئے اگر رحمان بابا سمیت پشاور کے تمام قبرستانوں کی اراضی بھی قبضہ کر لی جائے تو اِنہیں کچھ فرق نہیں پڑے گا اُور نہ ہی ’قبرستان قبضہ مافیا‘ کو کھلی چھوٹ دینے والے شریک جرم حکمرانوں کو ضمیر نامی کوئی شے جھنجھوڑ رہی ہے!
رواں ہفتے (یکم سے چار ستمبر کے درمیان) پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ’ہزارخوانی قبرستان‘ میں تجاوزات کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا اُور اِس فیصلے پر ’نمائشی طور پر عمل‘ کرتے ہوئے 15 سے زائد غیرقانونی تعمیرات مسمار کرنے جیسی بڑی کامیابی حاصل کرنے دعویٰ کیا ہے۔ قومی تمغہ برائے ’حسن کارکردگی‘ کے زمرے میں شمار ہونے والی یہ کاروائی ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر ٹاون ون آصف اقبال کی قیادت میں سرانجام پائی‘ جن کے بقول .... ”تجاوزات مافیا کو کئی بار نوٹس جاری کئے گئے لیکن اُن پر اثر نہیں ہو رہا تھا۔“ جس کے بعد ڈپٹی کمشنر پشاور محمد علی اصغر کی تائید و منظوری سے کی گئی کاروائی سے قبل پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی‘ جنگ کا سماں بنایا گیا لیکن اِس پوری کاروائی میں نہ تو کسی نے مزاحمت کی اُور نہ ہی کارسرکار میں مداخلت کے جرم میں کوئی ایک بھی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ کیا جن چودہ تجاوزات کو منہدم کیا گیا‘ وہ جنات نے تعمیر کی تھیں کہ جن کا اتہ پتہ معلوم نہ ہو سکا؟ اگر ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر مقامی تھانے ہی سے پوچھ لیں تو تجاوز کرنے والے ہر شخص کا نام بمعہ ولدیت و شناختی کارڈ اُور موبائل نمبر اب بھی حاصل کر سکتے ہیں‘ جن کا طریقہ واردات یہ ہے کہ پہلے قبروں کو توڑ پھوڑ کر خستہ کیا جاتا ہے۔ راتوں رات سنگ مرمر کے کتبے (اگر ہوں) تو غائب کر دیئے جاتے ہیں۔ پھر اُن قبروں پر گندگی ڈھیر (انبار) کی صورت ڈال دی جاتی ہے۔ چند روز بعد ضلعی انتظامیہ ہی کے اہلکاروں کی مٹھی گرم کر کے گندگی اٹھوائی جاتی ہے جس کے ساتھ قبر پر ڈھیر کی صورت مٹی اور اِس کے باقی ماندہ آثار زمین بوس (ہموار) کر دیئے جاتے ہیں۔ اِس کے بعد ہفتہ وار یا مسلسل کئی روز سرکاری تعطیلات کا انتظار کیا جاتا ہے‘ جب غیرمعیاری تعمیر کرتے ہوئے تیار چھتوں کے استعمال سے مکان اور دکانیں تعمیر کر لی جاتی ہیں۔ قبرستانوں کی اراضی پر بننے والے مکانات زیادہ تر کرائے پر دیئے جاتے ہیں اُور قبضہ مافیا چند ہزار روپے کے عوض تعمیر ہونے والے اِن مکان سے ماہانہ کرایہ وصول کرتے رہتے ہیں۔ اِسی بھتے کی رقم سے عام انتخابات میں ووٹوں کی خریداری اُور دیگر اخراجات اَدا ہوتے ہیں!
قومی وسائل اُور سیاسی و بلدیاتی انتخابات لوٹنے پر استوار اِس طرزِ عمل و حکمرانی کے باعث پشاور اُس حقیقی قیادت سے محروم ہو گئی ہے‘ جس کا جینا‘ مرنا یہاں کی مٹی اُور پشاور سے وابستہ ہے! جن اغیار کے ہاتھوں پشاور کے بزرگوں کی ہڈیاں اُور اُن کی آخری نشانیاں تک محفوظ نہیں اُن سے کس طرح توقع کی
جاسکتی ہے کہ وہ یہاں کی تعمیروترقی (مفاد) کے بارے سوچیں گے!؟
قومی وسائل اُور سیاسی و بلدیاتی انتخابات لوٹنے پر استوار اِس طرزِ عمل و حکمرانی کے باعث پشاور اُس حقیقی قیادت سے محروم ہو گئی ہے‘ جس کا جینا‘ مرنا یہاں کی مٹی اُور پشاور سے وابستہ ہے! جن اغیار کے ہاتھوں پشاور کے بزرگوں کی ہڈیاں اُور اُن کی آخری نشانیاں تک محفوظ نہیں اُن سے کس طرح توقع کی
جاسکتی ہے کہ وہ یہاں کی تعمیروترقی (مفاد) کے بارے سوچیں گے!؟
قصور اَپنوں کا بھی ہے۔
بے پرواہی اُور خاموشی علاج غم نہیں‘ ترک ہونی چاہئے۔
اہل پشاور کو اپنے زندہ ہونے کا اپنے عمل سے ثبوت دینا ہوگا کیونکہ یہاں کا صرف ’شہر خموشاں‘ ہی ’فتح‘ نہیں کر لیا گیا بلکہ ”حملہ آور“ پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑی ہر نشانی کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وقت ہے کہ اہل پشاور ثابت کریں کہ وہ زندہ اُور فکرمند ہیں۔ اپنے آباواجداد کی آخری آرامگاہوں کی حفاظت کے بارے میں متحدہ لائحہ عمل کی تشکیل میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ یقینا بہت دیر ہو چکی ہے لیکن نقصان کے تخمینے اُور پشیمانی کے اظہار سے زیادہ غلطی کی اِصلاح ضروری ہے۔
...اہل پشاور کو اپنے زندہ ہونے کا اپنے عمل سے ثبوت دینا ہوگا کیونکہ یہاں کا صرف ’شہر خموشاں‘ ہی ’فتح‘ نہیں کر لیا گیا بلکہ ”حملہ آور“ پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑی ہر نشانی کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وقت ہے کہ اہل پشاور ثابت کریں کہ وہ زندہ اُور فکرمند ہیں۔ اپنے آباواجداد کی آخری آرامگاہوں کی حفاظت کے بارے میں متحدہ لائحہ عمل کی تشکیل میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ یقینا بہت دیر ہو چکی ہے لیکن نقصان کے تخمینے اُور پشیمانی کے اظہار سے زیادہ غلطی کی اِصلاح ضروری ہے۔
![]() |
No comments:
Post a Comment