ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
سات محرم الحرام چودہ سو اکتالیس ہجری
سات ستمبر دورہزار اُنیس عیسوی
۔۔۔
قبرستان: لینڈ ریکارڈ!
۔۔۔
پشاور کے وقف اُور یہاں کی مقامی اَقوام و برادریوں کے لئے مختص و مخصوص قبرستانوں کی بیشتر اراضی قبضہ ہو چکی ہے‘ جہاں تعمیرات کو ’تجاوزات‘ قرار دے کر علامتی طور پر مسمار تو کیا جاتا ہے لیکن قبضہ کرنے والوں کے خلاف ایسی سخت قانونی کاروائی نہیں کی جاتی‘ جس کی وجہ وہ نشان عبرت بن جائیں اُور دوسرے اِس قسم کی قانون شکنی سے گریز کریں۔
اراضی کی نوعیت کے اعتبار سے پشاور کے قبرستان بنیادی طور پر 2 قسم کے ہیں۔ پہلی قسم ’وقف‘ قطعات پر بنے قبرستانوں ہے‘ جس کا ملکیت اُور ریکارڈ محکمہ اُوقاف کے پاس محفوظ و زیرنگرانی ہے۔ یہ قطعات قیام پاکستان سے سینکڑوں برس قبل اہل پشاور کے آباو و اجداد نے اپنی جانب سے قبرستانوں کے لئے وقف کئے تھے۔ دوسری قسم کے قبرستان وہ ہیں جو اِس وقف اراضی کے بیچوں بیچ یا متصل واقع ہیں اُور انہیں قوم برادری نے اپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ اِن دونوں اقسام کے قبرستانوں کی اراضی قبضہ ہو رہی ہے۔ حیران کن اَمر یہ بھی ہے کہ جب عدالتی کاروائی کا مرحلہ آئے تو محکمہ اوقاف کا جھکاو بھی اُسی منظم مافیا کے پلڑے میں رہتا ہے‘ جس کی پشت پناہی کرنے والوں میں سیاسی و غیرسیاسی حکمران اُور سب سے بڑھ کر سرمائے کا عمل دخل ہے۔ ناقابل یقین حقیقت یہ بھی ہے کہ ملکیتی قبرستانوں کی اراضی بے نامی (شاملات) ظاہر کر کے اُن کے انتقالات کئے جاتے رہے ہیں اور سلسلہ اب زیادہ تیزی سے جاری ہے کیونکہ کمپیوٹرائزیشن سے پہلے قبضہ مافیا زیادہ سے زیادہ اراضی اپنے نام منتقل کرنا چاہتا ہے۔
قانون شکنی کھلے عام ہو رہی ہے۔ قبضہ مافیا کے اراکین قبرستان کے کسی منتخب حصے کا پٹوارخانے کی مدد سے انتقال حاصل کر رہے ہیں اور یہ منظم دھندا اب بھی جاری ہے بلکہ اِس میں وقت کے ساتھ تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
آخر پٹوار خانے کے اختیارات اُور کارکردگی کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟
آخر قبرستانوں کی اراضی کے اِنتقالات کا جائزہ لینے کے لئے عدالتی تحقیقات (جوڈیشل انکوائری) کیوں ممکن نہیں؟
قبرستان کی اَراضی قبضہ کرنے والوں کے دست راست قبرکند اُور خود ساختہ چوکیدار بھی ہیں‘ جنہوں نے قبرستانوں کی اراضی پر مکانات اُور دکانیں تعمیر کر کے اپنے کاروبار پھیلا رکھے ہیں۔ یہ دونوں کردار (قبرکند اُور خودساختہ چوکیدار) قبروں کی کھدائی‘ قبر کے لئے جگہ کے انتخاب‘ قبر کی تعمیرومرمت‘ تدفین کے لئے ضروری سازوسامان کی فروختاُور قبروں کے لئے کتبوں کی لکھائی جیسی خدمات منہ مانگے معاوضے کے عوض فراہم کرتے ہیں۔ اگر صوبائی اُور ضلعی حکومت قبرستانوں کی اراضی بچانے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اِسے ’قبر کندوں‘ کی رجسٹریشن اُور قبرستانوں کے خودساختہ چوکیداروں کی رجسٹریشن کرنا ہوگی‘ جو بذات خود بھی قبرستانوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ قبرکند اُور خودساختہ چوکیدار قبرستانوں کے قبضہ مافیا کو اِس طریقے سے مدد فراہم کرتے ہیں کہ انہیں اُن قبروں کے بارے میں علم ہوتا ہے جن کے رشتے دار سالہا سال سے فاتحہ کے لئے نہیں آتے۔ ایسی قبروں کی نشاندہی کر کے اُنہیں مسمار کرنے والوں کی مدد کی جاتی ہے اُور یوں قبرستانوں میں خود رو جھاڑیوں کی طرح رہائشی مکانات پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں وہ سب ممکن ہے‘ جس کا ایک وقت تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خلاءسے بنائی گئی تصاویر پر مبنی گوگل میپ (Google Map) کے پلیٹ فارم سے اِسے وسائل مفت دستیاب ہیں‘ جنہیں کمپیوٹروں اور موبائل فونز کے مدد سے بذریعہ انٹرنیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے اُور اِن نقشوں کی مدد سے قبرستانوں کی اراضی مخصوص (mark) کی جا سکتی ہے۔ اِس عمل (Geo-Fencing) کی بنیاد پر پنجاب کی صوبائی حکومت پہلے ہی پٹوارخانے کا بیشتر ریکارڈ (land-record) کمپیوٹرائزڈ کر چکی ہے؟ خیبرپختونخوا کی اِنتظامی تقسیم سات ڈویژنوں اُور پینتیس اضلاع پر مشتمل ہے اِن میں بنوں (3)‘ ڈیرہ اسماعیل خان (3)‘ ہزارہ (8)‘ کوہاٹ (5)‘ مردان(2)‘ مالاکنڈ(9) اُور پشاور ڈویژن کے 5 پانچ اضلاع کی کل آبادی اُور رقبہ پنجاب سے کم ہونے کے باوجود یہاں کمپیوٹرائزیشن ایک معمہ (جوئے شیر لانے کے مترادف ناممکن) بنا ہوا ہے‘ آخر کیوں؟
تحریک انصاف کے انتخابی وعدوں میں ایک وعدہ ’اِی گورننس‘ بھی متعارف کروانا تھا جس پر عمل درآمد کی رفتار سست نہیں بلکہ تیز ہونی چاہیئے۔
پچیس جنوری 2019ءکے روز خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے تمام اضلاع میں ’لینڈ ریکارڈ‘ کی کمپیوٹرائزیشن کا اعلان کیا‘ اِس سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم خان جھگڑا‘ صوبائی وزیر برائے ریونیو اینڈ اسٹیٹ شکیل احمد خان‘ رکن صوبائی اسمبلی مصور خان اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی جنہوں نے فیصلہ کیا کہ کمپیوٹرائزیشن کا عمل مرحلہ وار آگے بڑھایا جائے اُور پہلے مرحلے میں سات اضلاع کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔ اگر صوبائی وزراءاپنی اپنی وزارتوں کا ریکارڈ چیک کرتے تو اُنہیں معلوم ہوتا کہ ماضی میں بھی اِس قسم کی اعلانات ہو چکے ہیں اُور خود تحریک انصاف حکومت ہی کے پہلے دور (2018-2013) کے دوران چوبیس دسمبر 2014ءکو اِسی قسم کے مرحلہ وار لینڈ کمپیوٹرائزیشن منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا‘ جس کے لئے پشاور‘ مردان‘ اِیبٹ آباد اُور ڈی آئی خان کا اِنتخاب کیا گیا۔ ابتدائی (ڈیٹا انٹری) فوری طور پر شروع ہونے کی نوید سنائی گئی ‘جس کے بعد کوہاٹ بنوں اُور بونیر کے اضلاع کے لئے بھی نجی کمپنیوں (M/S Systems Ltd & Deloitte) سے معاہدے کئے گئے لیکن مذکورہ حکمت عملی منطقی انجام تک نہیں پہنچائی گئی اُور ایک مرتبہ پھر نئے عزم سے لینڈریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے!
ایک لالی پاپ ہضم نہیں ہوا کہ دوسرا تھما دیا گیا ہے!
یہاں سوال یہ نہیں کہ ماضی میں لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل کیوں مکمل نہیں ہو سکا لیکن پیش نظر رہنا چاہئے ماضی میں اِس مقصد کے لئے کروڑوںروپے کے جو آلات خریدے گئے وہ کہاں گئے اُور مزید کروڑوں کی خریداری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یادش بخیر 28 اپریل 2014ءکے روز اُس وقت کے صوبائی وزیر برائے ریونیو سردار علی امین خان گنڈا پور نے ’لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن‘ کے لئے نجی کمپنی سے معاہدے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں آئندہ لینڈ ریکارڈ کی آئندہ 3 برس میں کمپیوٹرائز کر دیا جائے گا۔“ کیا ایسا ہو سکا اگر نہیں تو حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے۔
یہ بات باعث حیرانگی نہیں کہ کمپیوٹرائزیشن کے عمل میں پٹوار خانے تعاون نہیں کر رہے لیکن ماضی کی طرح ہر کوشش ناکام ثابت ہو گی اگر حائل رکاوٹیں دور کرنے میں عوامی مفاد کو پیش نظر نہ رکھا گیا!
تحریک انصاف کی پہلی صوبائی حکومت (2013-2018ئ) نے پورے دھوم دھام سے خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع کی لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کا اعلان کیا تھا‘ مذکورہ منصوبے پر کل لاگت کا تخمینہ 6.8 ارب لگایا گیا لیکن اعلان کرنے کے بعد اِس مد میں صرف 42 کروڑ 73 لاکھ 67 ہزار روپے جاری کئے گئے‘ جو منصوبے کی کل لاگت کا بمشکل 7 فیصد تھا۔ دوسری طرف حکمت عملی یہ تھی کہ کمپیوٹرائزیشن دو مراحل میں مکمل کی جائے لیکن جاری کئے گئے فنڈز ملازمین کی تنخواہوں‘ مراعات اور آلات کی خریداری کی نذر ہو گئے!
حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں سب سے پہلے لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کی بات 2012ءمیں کی گئی جب اُس وقت کی صوبائی حکومت نے سات اضلاع بشمول پشاور‘ مردان‘ ایبٹ آباد‘ بونیر‘ کوہاٹ‘ بنوں اُور ڈیرہ اسماعیل خان کا انتخاب کیا اِس پہلے مرحلے پر لاگت کا تخمینہ 1.245 ارب روپے تھا‘ جو 2016-17ءمیں مکمل ہونا تھا لیکن 2013-14ءسے جاری کام مکمل نہیں ہو سکا اُور تحریک انصاف کے بعد پھر تحریک انصاف ہی کی حکومت نے لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کو مزید 12اضلاع بشمول چارسدہ‘ نوشہرہ‘ صوابی‘ ہری پور‘ مانسہرہ‘ بٹ گرام‘ سوات‘ شانگلہ‘ کرک‘ ہنگو‘ لکی مروت اُور ٹانک تک وسعت دینے کا فیصلہ کیا۔ اِس دوسرے مرحلے پر لاگت کا تخمینہ 5.561 ارب روپے لگایا گیا‘ جسے 2017-18ءمیں مکمل ہونا تھا لیکن کام جاری تھا‘ جاری ہے اُور اِس کی رفتار دیکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کمپیوٹرائزیشن کا یہ کام یونہی جاری رہے گا۔
........
سات محرم الحرام چودہ سو اکتالیس ہجری
سات ستمبر دورہزار اُنیس عیسوی
۔۔۔
قبرستان: لینڈ ریکارڈ!
۔۔۔
پشاور کے وقف اُور یہاں کی مقامی اَقوام و برادریوں کے لئے مختص و مخصوص قبرستانوں کی بیشتر اراضی قبضہ ہو چکی ہے‘ جہاں تعمیرات کو ’تجاوزات‘ قرار دے کر علامتی طور پر مسمار تو کیا جاتا ہے لیکن قبضہ کرنے والوں کے خلاف ایسی سخت قانونی کاروائی نہیں کی جاتی‘ جس کی وجہ وہ نشان عبرت بن جائیں اُور دوسرے اِس قسم کی قانون شکنی سے گریز کریں۔
اراضی کی نوعیت کے اعتبار سے پشاور کے قبرستان بنیادی طور پر 2 قسم کے ہیں۔ پہلی قسم ’وقف‘ قطعات پر بنے قبرستانوں ہے‘ جس کا ملکیت اُور ریکارڈ محکمہ اُوقاف کے پاس محفوظ و زیرنگرانی ہے۔ یہ قطعات قیام پاکستان سے سینکڑوں برس قبل اہل پشاور کے آباو و اجداد نے اپنی جانب سے قبرستانوں کے لئے وقف کئے تھے۔ دوسری قسم کے قبرستان وہ ہیں جو اِس وقف اراضی کے بیچوں بیچ یا متصل واقع ہیں اُور انہیں قوم برادری نے اپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ اِن دونوں اقسام کے قبرستانوں کی اراضی قبضہ ہو رہی ہے۔ حیران کن اَمر یہ بھی ہے کہ جب عدالتی کاروائی کا مرحلہ آئے تو محکمہ اوقاف کا جھکاو بھی اُسی منظم مافیا کے پلڑے میں رہتا ہے‘ جس کی پشت پناہی کرنے والوں میں سیاسی و غیرسیاسی حکمران اُور سب سے بڑھ کر سرمائے کا عمل دخل ہے۔ ناقابل یقین حقیقت یہ بھی ہے کہ ملکیتی قبرستانوں کی اراضی بے نامی (شاملات) ظاہر کر کے اُن کے انتقالات کئے جاتے رہے ہیں اور سلسلہ اب زیادہ تیزی سے جاری ہے کیونکہ کمپیوٹرائزیشن سے پہلے قبضہ مافیا زیادہ سے زیادہ اراضی اپنے نام منتقل کرنا چاہتا ہے۔
قانون شکنی کھلے عام ہو رہی ہے۔ قبضہ مافیا کے اراکین قبرستان کے کسی منتخب حصے کا پٹوارخانے کی مدد سے انتقال حاصل کر رہے ہیں اور یہ منظم دھندا اب بھی جاری ہے بلکہ اِس میں وقت کے ساتھ تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
آخر پٹوار خانے کے اختیارات اُور کارکردگی کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟
آخر قبرستانوں کی اراضی کے اِنتقالات کا جائزہ لینے کے لئے عدالتی تحقیقات (جوڈیشل انکوائری) کیوں ممکن نہیں؟
قبرستان کی اَراضی قبضہ کرنے والوں کے دست راست قبرکند اُور خود ساختہ چوکیدار بھی ہیں‘ جنہوں نے قبرستانوں کی اراضی پر مکانات اُور دکانیں تعمیر کر کے اپنے کاروبار پھیلا رکھے ہیں۔ یہ دونوں کردار (قبرکند اُور خودساختہ چوکیدار) قبروں کی کھدائی‘ قبر کے لئے جگہ کے انتخاب‘ قبر کی تعمیرومرمت‘ تدفین کے لئے ضروری سازوسامان کی فروختاُور قبروں کے لئے کتبوں کی لکھائی جیسی خدمات منہ مانگے معاوضے کے عوض فراہم کرتے ہیں۔ اگر صوبائی اُور ضلعی حکومت قبرستانوں کی اراضی بچانے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اِسے ’قبر کندوں‘ کی رجسٹریشن اُور قبرستانوں کے خودساختہ چوکیداروں کی رجسٹریشن کرنا ہوگی‘ جو بذات خود بھی قبرستانوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ قبرکند اُور خودساختہ چوکیدار قبرستانوں کے قبضہ مافیا کو اِس طریقے سے مدد فراہم کرتے ہیں کہ انہیں اُن قبروں کے بارے میں علم ہوتا ہے جن کے رشتے دار سالہا سال سے فاتحہ کے لئے نہیں آتے۔ ایسی قبروں کی نشاندہی کر کے اُنہیں مسمار کرنے والوں کی مدد کی جاتی ہے اُور یوں قبرستانوں میں خود رو جھاڑیوں کی طرح رہائشی مکانات پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں وہ سب ممکن ہے‘ جس کا ایک وقت تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خلاءسے بنائی گئی تصاویر پر مبنی گوگل میپ (Google Map) کے پلیٹ فارم سے اِسے وسائل مفت دستیاب ہیں‘ جنہیں کمپیوٹروں اور موبائل فونز کے مدد سے بذریعہ انٹرنیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے اُور اِن نقشوں کی مدد سے قبرستانوں کی اراضی مخصوص (mark) کی جا سکتی ہے۔ اِس عمل (Geo-Fencing) کی بنیاد پر پنجاب کی صوبائی حکومت پہلے ہی پٹوارخانے کا بیشتر ریکارڈ (land-record) کمپیوٹرائزڈ کر چکی ہے؟ خیبرپختونخوا کی اِنتظامی تقسیم سات ڈویژنوں اُور پینتیس اضلاع پر مشتمل ہے اِن میں بنوں (3)‘ ڈیرہ اسماعیل خان (3)‘ ہزارہ (8)‘ کوہاٹ (5)‘ مردان(2)‘ مالاکنڈ(9) اُور پشاور ڈویژن کے 5 پانچ اضلاع کی کل آبادی اُور رقبہ پنجاب سے کم ہونے کے باوجود یہاں کمپیوٹرائزیشن ایک معمہ (جوئے شیر لانے کے مترادف ناممکن) بنا ہوا ہے‘ آخر کیوں؟
تحریک انصاف کے انتخابی وعدوں میں ایک وعدہ ’اِی گورننس‘ بھی متعارف کروانا تھا جس پر عمل درآمد کی رفتار سست نہیں بلکہ تیز ہونی چاہیئے۔
پچیس جنوری 2019ءکے روز خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے تمام اضلاع میں ’لینڈ ریکارڈ‘ کی کمپیوٹرائزیشن کا اعلان کیا‘ اِس سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم خان جھگڑا‘ صوبائی وزیر برائے ریونیو اینڈ اسٹیٹ شکیل احمد خان‘ رکن صوبائی اسمبلی مصور خان اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی جنہوں نے فیصلہ کیا کہ کمپیوٹرائزیشن کا عمل مرحلہ وار آگے بڑھایا جائے اُور پہلے مرحلے میں سات اضلاع کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔ اگر صوبائی وزراءاپنی اپنی وزارتوں کا ریکارڈ چیک کرتے تو اُنہیں معلوم ہوتا کہ ماضی میں بھی اِس قسم کی اعلانات ہو چکے ہیں اُور خود تحریک انصاف حکومت ہی کے پہلے دور (2018-2013) کے دوران چوبیس دسمبر 2014ءکو اِسی قسم کے مرحلہ وار لینڈ کمپیوٹرائزیشن منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا‘ جس کے لئے پشاور‘ مردان‘ اِیبٹ آباد اُور ڈی آئی خان کا اِنتخاب کیا گیا۔ ابتدائی (ڈیٹا انٹری) فوری طور پر شروع ہونے کی نوید سنائی گئی ‘جس کے بعد کوہاٹ بنوں اُور بونیر کے اضلاع کے لئے بھی نجی کمپنیوں (M/S Systems Ltd & Deloitte) سے معاہدے کئے گئے لیکن مذکورہ حکمت عملی منطقی انجام تک نہیں پہنچائی گئی اُور ایک مرتبہ پھر نئے عزم سے لینڈریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے!
ایک لالی پاپ ہضم نہیں ہوا کہ دوسرا تھما دیا گیا ہے!
یہاں سوال یہ نہیں کہ ماضی میں لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل کیوں مکمل نہیں ہو سکا لیکن پیش نظر رہنا چاہئے ماضی میں اِس مقصد کے لئے کروڑوںروپے کے جو آلات خریدے گئے وہ کہاں گئے اُور مزید کروڑوں کی خریداری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یادش بخیر 28 اپریل 2014ءکے روز اُس وقت کے صوبائی وزیر برائے ریونیو سردار علی امین خان گنڈا پور نے ’لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن‘ کے لئے نجی کمپنی سے معاہدے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں آئندہ لینڈ ریکارڈ کی آئندہ 3 برس میں کمپیوٹرائز کر دیا جائے گا۔“ کیا ایسا ہو سکا اگر نہیں تو حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے۔
یہ بات باعث حیرانگی نہیں کہ کمپیوٹرائزیشن کے عمل میں پٹوار خانے تعاون نہیں کر رہے لیکن ماضی کی طرح ہر کوشش ناکام ثابت ہو گی اگر حائل رکاوٹیں دور کرنے میں عوامی مفاد کو پیش نظر نہ رکھا گیا!
تحریک انصاف کی پہلی صوبائی حکومت (2013-2018ئ) نے پورے دھوم دھام سے خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع کی لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کا اعلان کیا تھا‘ مذکورہ منصوبے پر کل لاگت کا تخمینہ 6.8 ارب لگایا گیا لیکن اعلان کرنے کے بعد اِس مد میں صرف 42 کروڑ 73 لاکھ 67 ہزار روپے جاری کئے گئے‘ جو منصوبے کی کل لاگت کا بمشکل 7 فیصد تھا۔ دوسری طرف حکمت عملی یہ تھی کہ کمپیوٹرائزیشن دو مراحل میں مکمل کی جائے لیکن جاری کئے گئے فنڈز ملازمین کی تنخواہوں‘ مراعات اور آلات کی خریداری کی نذر ہو گئے!
حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں سب سے پہلے لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کی بات 2012ءمیں کی گئی جب اُس وقت کی صوبائی حکومت نے سات اضلاع بشمول پشاور‘ مردان‘ ایبٹ آباد‘ بونیر‘ کوہاٹ‘ بنوں اُور ڈیرہ اسماعیل خان کا انتخاب کیا اِس پہلے مرحلے پر لاگت کا تخمینہ 1.245 ارب روپے تھا‘ جو 2016-17ءمیں مکمل ہونا تھا لیکن 2013-14ءسے جاری کام مکمل نہیں ہو سکا اُور تحریک انصاف کے بعد پھر تحریک انصاف ہی کی حکومت نے لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کو مزید 12اضلاع بشمول چارسدہ‘ نوشہرہ‘ صوابی‘ ہری پور‘ مانسہرہ‘ بٹ گرام‘ سوات‘ شانگلہ‘ کرک‘ ہنگو‘ لکی مروت اُور ٹانک تک وسعت دینے کا فیصلہ کیا۔ اِس دوسرے مرحلے پر لاگت کا تخمینہ 5.561 ارب روپے لگایا گیا‘ جسے 2017-18ءمیں مکمل ہونا تھا لیکن کام جاری تھا‘ جاری ہے اُور اِس کی رفتار دیکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کمپیوٹرائزیشن کا یہ کام یونہی جاری رہے گا۔
........
No comments:
Post a Comment