The happy mind
مسرت و اطمینان !
انسانی ذہن میں سمجھ بوجھ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو سمجھنے اُور سمجھانے والے معروف مصنف ’کیوین ہارسلے (Kevin Horsley)‘ کی ایک اُور مصنف سے مشترک تحریر کردہ کتاب ’دی ہیپی مائنڈ (The happy mind)‘ لائق مطالعہ ہے‘ جس کے مطالعے سے کم سے کم چار باتیں سیکھی جا سکتی ہیں۔ پہلی بات: خوشی اُور لذت دو الگ الگ جذباتی رجحانات ہیں۔ دوسری بات: ضروری نہیں کہ خوشی کا تعلق ہمیشہ بیرونی محرکات پر ہی ہو بلکہ یہ داخلی طور پر بھی اطمینان سے حاصل ہو سکتی ہے۔ تیسری بات: خوشی کا تعلق ہمارے حال سے مستقبل سے نہیں۔ پرآسائش مصنوعات بنانے والے اِس مغالطے کی تشہیر کرتے ہیں کہ اگر صارف اُن کی تیارکردہ اشیاءاستعمال کریں تو اُن کی آنے والی زندگی میں خوشیاں بھر جائیں گی۔ چوتھی بات: خوشی دوسروں سے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہمارے اندر موجود نہ ہو۔
زندگی میں اطمینان نہ تو مال و زر سے حاصل ہو سکتا ہے اُور نہ ہی اشیاءکی بھرمار سے۔ عمومی غلطی یہ سرزد ہوتی ہے کہ خوشی کو متفرق اَشیاءجیسا کہ گاڑی یا کسی پسندیدہ مقام کے سفر یا کسی ذاتی کارکردگی سے جوڑ دیا جاتا ہے کہ اِن کے ذریعے اطمینان و مسرت حاصل ہوگی۔ مصنف لکھتے ہیں اشیاءمثلاً گاڑیوں‘ آلات اُور دیگر ایسی تمام چیزیں کہ جنہیں خریدا جا سکے وہ ہمیں وقتی طور پر مسرت (خوشی کا جزوی احساس) دلاتی ہیں اُور یہیں سے غلطی کی ابتدا ¿ ہوتی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اطمینان پانے کے لئے بیرونی ذرائع کی جانب زیادہ توجہ مبذول کرتے ہیں جبکہ اُن داخلی محرکات کو فراموش کر دیتے ہیں‘ جن سے حاصل ہونے والا اطمینان اُور خوشی ہی حقیقی اُور دائمی ہوتی ہیں۔
سوال: اطمینان و مسرت کی تلاش کہاں کی جائے؟
جواب: انسانی زندگی کو نت نئے تجربات کے ذریعے جس اطمینان و مسرت کی تلاش رہتی ہے اُس کا تعلق صرف اُور صرف ہمارے ’حال (Present)‘ سے ہے لیکن غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم اِسے ماضی (Past) یا مستقبل (Future) میں تلاش کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں‘ وسائل اُور وقت سے سرمایہ کاری کرتے رہتے ہیں لیکن اپنے حال (Present) پر توجہ نہیں دیتے جو زیادہ اہم (ضروری) ہے۔ ایک خوشحال زندگی کی ضامن سوچ گزشتہ کل یا آنے والے کل سے نہیں بلکہ آج سے متعلق ہوتی ہے اُور آج ہی پر مبنی ہونی چاہئے۔
خوشی (Happiness) و مسرت (pleasure) الگ الگ محسوسات ہیں اُور یہ ایک ہی چیز کے دو نام نہیں۔ مسرت کا تعلق ہمارے احساسات سے ہے جبکہ خوشی ایک حالت ہے۔ مسرت وقتی اور مختصر ہوتی ہے۔ خوشی طویل العمیادی ہوتی ہے۔ مسرت کا تعلق جذبات سے ہے۔ خوشی کا تعلق داخلی اطمینان (inner-peace) سے ہے۔ اطمینان حواص خمسہ کی سرگرمی سے حاصل ہوتی ہے۔ خوشی داخلی اطمینان کا نتیجہ ہے۔ مسرت کسی بیرونی ذریعے سے حاصل کی جا سکتی ہے لیکن خوشی کے لئے ایسا ممکن نہیں جب تک کہ یہ ہمارے اندر سے ظہور نہ کرے۔
مصنف کیوین ہارسلے نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں خوشی (اطمینان) اور مسرت میں تمیز کرنی چاہئے اُور اِن دونوں کے درمیان میں فرق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی زندگیوں (سرگرمیوں) کا جائزہ لینا چاہئے تاکہ حقیقی خوشی اور حقیقی مسرت سے لطف اندوز اور مستفید ہوسکیں۔
انسانی زندگی خیالات اُور اعمال کا مجموعہ ہوتی ہے جو ہنوز سربستہ راز ہے۔ گذشتہ پچاس برس سے معروف ماہر نفسیات و ذہنی صحت سے متعلق طبی علوم کے ماہر (neuro-scientist) رچرڈ ڈیوڈسن (Richard Davidson) کا ماننا ہے کہ ”خوشی کا تعلق اردگرد پھیلی‘ متعلقہ و غیرمتعلقہ اشیاءکے انباروں سے نہیں بلکہ داخلی طور پر اِس اطمینان سے ہے جس پر قناعت کا عنصر غالب ہو۔“
دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمیں اپنے اردگرد ایسے لوگ ملتے ہیں جو اپنی حالت میں محدود اُور کم مالی و مادی وسائل رکھنے کے باوجود بہت مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ وہ قدرت کی خوبصورتیوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگیوں میں کھلتے ہوئے پھول اور طلوع و غروب ہوتا سورج خوشیاں بھر دیتا ہے۔ وہ اپنی صحت اور تندرستی کو لیکر شکرگزار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ زندگی کی مشکلات کو خود پر حاوی ہونے نہیں دیتے بلکہ حالات کا مثبت سوچ سے مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کو معاف کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ دوستوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ وہ زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اُنہیں دوسروں کی خوشیوں میں اپنی خوشیاں پنہاں دکھائی دیتی ہیں۔ وہ مل جل کر رہتے ہیں۔ وہ دوسروں کو تبدیل کرنا نہیں چاہتے اور نہ ہی دوسروں پر اپنی مرضی ٹھونستے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں کو سادگی سے بھر دیتے ہیں۔ اپنی خواہشات پر قابو رکھتے ہیں اُور جو کچھ اُن کے پاس ہوتا ہے اُسے ہی کافی سمجھتے ہیں۔
انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کتنا خوش (مکمل) اُور کتنا مشکل (نامکمل) سمجھے کیونکہ خوشی و مسرت یعنی زندگی کے اطمینان کا تعلق بیرونی ذرائع سے نہیں بلکہ داخلی حالت سے ہے۔ کسی عاقل کا قول ہے کہ میں کبھی بھی اِس بات میں دو رائے کا شکار نہیں ہوا کہ بہتر کارکردگی اُور بہتر نتائج جیسے دونوں امور میری ذمہ داری ہیں۔ سوچ سمجھ کر امور زندگی کی انجام دہی (excellence) اختیار کرنا میرا کام ہے جبکہ اِس کی تکمیل و نتائج (perfection) کا انحصار خالق کائنات کے ہاتھ میں ہے (جو عمل کی سزا و جزا کو نیت سے بدل دیتا ہے۔)
.... (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
This is the title of the book co-authored by Kevin Horsley, the ‘grandmaster of memory’. There are at least four things that I learnt from the book. One: pleasure and happiness are not the same thing. Two: happiness does not depend on external factors. Three: happiness can only be found in the present (multi-billion dollar companies keep telling us that happiness is in the future – if we buy their product). Four: happiness is not delivered by other people.
ReplyDeleteWe often “associate happiness with nouns, like cars, vacation destinations….or moments in time that mark a personal or professional triumph”. According to the authors, cars, gadgets and other things that money can buy “provide only temporary moments of pleasure.” And most of us often develop the impression that our happiness is tied to cars, gadgets and other things that money can buy. The authors believe that “the more you turn to external sources for happiness, the less happy you’ll be.”
Where shall we be looking for happiness? Answer: Neither in the past nor in the future. One “can only find happiness in the present because that is
where the experience of life takes place.” We often look for happiness in the future-wining a lottery, finding the perfect job or buying a Ferrari. Some of us get “caught up in the past, lingering over memories of better days…..” A happy mind thinks about the here and now.
Yes, pleasure and happiness are not the same things. Pleasure is a sensation. Happiness is a state. Pleasure is short-lived. Happiness is long-lived. Pleasure is emotional. Happiness is inner peace. Pleasure depends on the activity of five senses. Happiness is inner calms. Pleasure comes from something external. Happiness is totally internal.
ReplyDeleteThe authors are not saying that we should not indulge in activities that give us pleasure but should not confuse pleasure with happiness. According to Richard Davidson, one of the most influential neuroscientist in last 50 years, “Happiness can be learned at a biological level”. Big houses, fancy cars, massive TVs and stereos are ‘pleasurable sensations’ that according to the authors “will never add up to a satisfying or lasting state of happiness.”
Interestingly, happy people share similar traits, such as: they enjoy simple things in life (beautiful flowers, for instance); they are grateful for simple things in life (good health, for instance); they appreciate the things that they do have (instead of craving for things they do not have); they accept the uncertainty of life; they choose the right people to spend time with (positive relationships); they do not compare themselves with everyone else; they forgive easily; they celebrate the success of their friends; they do not try to change other people; they simplify their lives.
Then there are a few things that we should stop doing (if we want to be happy) such as: stop putting your happiness into external factors (like someone else’s hands); stop comparing yourself to others; stop ignoring your own needs; stop controlling others; stop living to others’ expectations; stop aiming for perfection.
Here’s the key problem: “If this happens, then I’ll be happy”. “I’ll be happy if I buy a Mercedes-Benz”. “I’ll be happy if I get that job”. This actually amounts to confusing pleasure with happiness. Someone intelligent once said, “I am careful not to confuse excellence with perfection. Excellence, I can reach for; perfection is God’s business.”