۔۔۔ ناقابل اشاعت قرار دے دیا گیا ۔۔
ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
خواب بیچ دے!
ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
خواب بیچ دے!
خیبرپختونخوا میں نجی تعلیمی اِداروں کی ’ٹیوشن فیسوں‘ میں اِضافہ زیربحث تھا کہ اِس موضوع میں ’سہ ماہی تعطیلات‘ کی فیس وصولی کا تنازعہ بھی شامل ہو گیا۔ تشویش کا شکار چند والدین نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کیا‘ جہاں مقدمہ قائم کرتے ہوئے اِسے ایک بنیادی سوال کی حد تک محدود کر دیا گیا کہ ”کیا نجی سکول تعطیلات کی فیس اُور اِن تعطیلات کے عرصے میں طلباءو طالبات سے آمدورفت کے اخراجات وصول کرنے کے مجاز ہیں یا نہیں؟“ حالانکہ معاملہ کثیرالجہتی تھا اُور اِس کا مختلف پہلوو ¿ں سے جائزہ لینے کی ضرورت تھی۔ بہرحال (دو اکتوبر دوہزار اُنیس کے روز) عدالت کی جانب سے بائیس صفحات کا مشتمل فیصلہ سامنے آیا‘ جسے تفصیلی کہا گیا اُور اگر اِس کا لب لباب پیش کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ
1
والدین متعلقہ حکومتی محکمے سے رجوع کریں
2
والدین متعلقہ حکومتی محکمے سے رجوع کریں
2
متعلقہ حکومتی محکمہ ’خیبرپختونخوا پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی (KPPSRA)‘ پابند ہو گا کہ وہ آئندہ (2 نومبر 2019ء) سے قبل یعنی 2 ماہ کے عرصے میں والدین کے ساتھ مشاورت کر کے اِس مسئلے کا حل تلاش کرے۔
3
نجی تعلیمی ادارے والدین سے وہ تمام بقایا جات یکمشت وصول نہیں کریں گے بلکہ پچیس پچیس فیصد کے تناسب سے چار اقساط میں وصول کئے جائیں گے‘ جو عدالت سے ’حکم امتناعی (اِسٹے آرڈر) کی وجہ سے والدین اَدا نہیں کر رہے تھے۔
4
ریگولیٹری اتھارٹی والدین کے نمائندوں پر مشتمل ’فیس کمیٹی‘ بنائے گی جو نہ صرف تعلیم بلکہ نجی سکولوں کے اُن ضمنی اخراجات کا بھی تعین کرے گی‘ جو (بڑھا چڑھا کر) والدین کو منتقل کر دیئے جاتے ہیں اُور
5
مذکورہ فیس کمیٹی اُور نجی سکولوں کا نگران صوبائی محکمہ اَساتذہ کے لئے مراعات و سہولیات کا تعین بھی کرے گا۔
’پشاور ہائی کورٹ‘ کے جاری ہونے والا فیصلے پر تینوں فریقین (نجی سکول‘ حکومتی محکمہ اُور والدین) اپنی اپنی جگہ
خوشیاں منا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس سے نہ تو مسئلہ حل ہوا ہے اُور نہ ہی اِس کا پائیدار حل ہونے کی اُمید ہی پیدا ہوئی ہے۔ اگر صوبائی حکومت کا متعلقہ محکمہ خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہوتا اُور وہ نجی سکولوں کی بجائے صارفین یعنی والدین کے مفادات کا محافظ ہوتا (جو کہ اُسے ہونا چاہئے) تو والدین کو اپنا کام کاج چھوڑ کر اُور اپنے مالی وسائل خرچ کر کے عدالت عالیہ سے رجوع کرنے (یعنی کورٹ کچہری کے دھکے کھانے) کی ضرورت ہی کیوں پڑتی؟ اِس پورے منظرنامے میں سب سے زیادہ بے بس‘ متاثرہ اُور مظلوم فریق ’والدین‘ ہیں‘ جنہوں نے انصاف کے لئے صرف عدالت ہی نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ سازوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے ہیں اُور ہر طرف سے سوائے دھتکار کچھ حاصل نہیں ہوا۔ البتہ فرق یہ تھا کہ کسی نے دھتکار مہذب انداز میں دی اُور کسی کا لب و لہجہ غیرشائستہ تھا!
خوشیاں منا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس سے نہ تو مسئلہ حل ہوا ہے اُور نہ ہی اِس کا پائیدار حل ہونے کی اُمید ہی پیدا ہوئی ہے۔ اگر صوبائی حکومت کا متعلقہ محکمہ خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہوتا اُور وہ نجی سکولوں کی بجائے صارفین یعنی والدین کے مفادات کا محافظ ہوتا (جو کہ اُسے ہونا چاہئے) تو والدین کو اپنا کام کاج چھوڑ کر اُور اپنے مالی وسائل خرچ کر کے عدالت عالیہ سے رجوع کرنے (یعنی کورٹ کچہری کے دھکے کھانے) کی ضرورت ہی کیوں پڑتی؟ اِس پورے منظرنامے میں سب سے زیادہ بے بس‘ متاثرہ اُور مظلوم فریق ’والدین‘ ہیں‘ جنہوں نے انصاف کے لئے صرف عدالت ہی نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ سازوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے ہیں اُور ہر طرف سے سوائے دھتکار کچھ حاصل نہیں ہوا۔ البتہ فرق یہ تھا کہ کسی نے دھتکار مہذب انداز میں دی اُور کسی کا لب و لہجہ غیرشائستہ تھا!
والدین کے پاس اب لے دے کر .... یہی آپشن بچا ہے کہ وہ نجی سکولوں کی خواہش و مطالبہ (جائز و ناجائز) کے مطابق فیسیں و دیگر اخراجات اَدا کریں اُور اُس روز قیامت کا انتظار کریں جب عدالت قائم ہو گئی اُور پوچھا جائے گا کہ تعلیم کی فراہمی جیسی آئینی ذمہ داری سے حکمرانوں کو خود کو کیسے بری الذمہ قرار دیا تھا اُور تعلیم جیسی جنس کو کاروباری طبقات کے حوالے کرنے والے فیصلہ سازوں نے اپنے کاروباری و ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے والدین کا اِستحصال کیا۔ بااثر نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے اگر والدین خود کو بے بس سمجھ رہے ہیں تو اِس کے لئے بھی ذمہ دار وہ خود ہی ہیں‘ جو عام انتخابات میں ووٹ دیتے وقت اُن مسائل و مشکلات کو موضوع نہیں بناتے‘ جس پر بعدازاں عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں!
عدالتیں آئین ساز اُور قواعد ساز نہیں ہوتیں۔ وہ تو فیصلوں کو آئینی دستاویزات اور فیصلوں کی روشنی میں لکھنے کی پابند ہے اُور زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتی ہے‘ جو اِس نے کیا ہے!
والدین عجیب مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ اب وہ یہ بھی نہیں کرسکتے کہ اپنے بچوں کو بطور احتجاج نجی سکولوں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کروا دیں کیونکہ ایک تو سرکاری سکولوں میں لاکھوں کی تعداد میں بچوں کو داخل کرنے کی صلاحیت (گنجائش) موجود نہیں۔ دوسرا سرکاری سکولوں کی تعداد اُور وہاں حسب طلبہ تعینات اساتذہ کی تعداد پہلے ہی ضرورت سے کم ہے۔ تیسرا سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم اُور ماحول ایسا نہیں کہ اچھے مستقبل کی اُمید میں سرمایہ کاری کرنے والے اپنی آنکھوں کے خواب بیچ ڈالیں۔ وہ اپنے آپ کو تو بیچ دیں گے لیکن شاید تعلیم چاہے وہ کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ہو جائے‘ لیکن اِس میں سرمایہ کاری ضرور کریں گے کیونکہ یہ آج نہیں مستقبل کا معاملہ ہے!
نجی تعلیمی ادارے ہوں یا سرکاری دفاتر۔ کاروبار ہوں یا سہولیات و خدمات کی فراہمی کے مراکز‘ ہر سطح پر ذمہ داروں (ملازمین اُور معاونین) ’مافیا‘ کی صورت اپنے مفادات کے لئے اُس ایک صارف کے خلاف متحد ہیں‘ جسے عرف عام میں ’عوام‘ کہہ کر دیکھا اُور سمجھا جاتا ہے۔ یہ عوام نہ تو خواص (حکمرانوں‘ اسٹیبلشمنٹ اُور افسرشاہی) کا مقابلہ کرنے کی مالی و سیاسی سکت رکھتے ہیں اُور نہ ہی اِن کے آپسی روابط اُور اتحاد ہی ممکن ہو پایا ہے کہ یہ اپنے جائز (درست) موقف کو کسی بھی فورم پر بذریعہ احتجاج و طاقت منوا سکیں۔ جب بات تعلیم (درس و تدریس) کی آتی ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ایک عام آدمی (ہم عوام) ماضی کے مقابلے آج خود کو زیادہ بے بس محسوس کر رہا ہے۔
اُمید تھی کہ ’پشاور ہائی کورٹ‘ اِن جیسے جملہ ضمنی پہلوو ¿ں کا اَزخود نوٹس لے گی‘ تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے معروف اُور مہنگے ترین وکلاء(قانونی ماہرین)‘ کی خدمات حاصل کرکے مقدمہ تو جیت لیا ہے‘ جس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ عدالت نے جن 9 مقدمات کو بیک وقت لپیٹ کر جس فریق سے اپنے تیئں انصاف کیا ہے اُس کی زبان نہیں بلکہ چہروں کے تاثرات بول رہے ہیں! والدین مجبور ہیں‘ جن کی مجبوری زیرغور نہیں۔ اِسی مجبوری کے بارے میں 57 کتابوں کے مصنف‘ رومانین نژاد اَمریکی مفکر‘ پروفیسر ایلی وایسل (Elie Wiesel) نے کہا تھا کہ ”غیرجانبداری فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اُور اِس کے ذریعے بسا اُوقات کسی متاثرہ شخص کی مدد بھی ممکن ہوتی ہے لیکن غیرجانبداری سے اُس ایک فریق کی مدد ممکن نہیں‘ جس پر ’ظلم‘ ہوا ہو۔ جانبدار (خاموش) رہنے سے ظالم کو حوصلہ ملتا ہے جبکہ اِس عمل سے مظلوم کی ہمت جواب دے جاتی ہے!“
............
No comments:
Post a Comment