Wrong focus
غلط ترجیحات
پہلی ترجیح‘ ٹیکس وصولی: اِصطلاحی طور پر ٹیکس وصولی ایک ایسی اقتصادی سرگرمی کا نام ہے جس کی وجہ سے اقتصادی ترقی ہو اُور اِس ترقی کے نتیجے میں ٹیکس وصول ہونے کی شرح میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جائے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کسی ملک میں اقتصادی سرگرمیاں تو سکڑ رہی ہوں لیکن وہاں کی حکومت ٹیکس وصولی کے زیادہ بڑے اہداف مقرر کر کے بیٹھی ہو۔ پاکستان حکومت بھی ایک ایسا ہی غلط گمان کئے بیٹھی ہے کہ اِسے اقتصادی بحران کے حالات میں عوام اُور کاروباری طبقات سے زیادہ ٹیکس وصول کرنا چاہئے۔ فیصلہ سازوں کو غور کرنا چاہئے کہ اصل ضرورت ’اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے‘ کی ہے‘ جس سے ٹیکس وصولی کی شرح میں خودبخود اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹیکس لاگو کرنے سے پہلے آمدن کے لحاظ سے طبقات کو تقسیم کرنے کا ہے۔ فیصلہ سازوں کو تین سوالات کے جوابات تلاش کرنے ہیں۔
1: ٹیکس کون ادا کرے گا؟
2: ٹیکس کتنا ادا کرے گا اُور
3: ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کے کتنے فیصد حصے کا حکومت اپنے اخراجات کے لئے استعمال کر سکتی ہے؟
مساوات اُور انصاف یہ ہے کہ ٹیکس مالی حیثیت کے مطابق نافذ ہو یعنی ملک کے سرمایہ دار طبقات کو نسبتاً زیادہ اُور کم آمدنی یا کم مالی حیثیت رکھنے والوں پر اِسی شرح سے ٹیکسوں کا کم بوجھ لادا جائے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کے اہداف اُور ٹیکسوں سے متعلق حکومت کی پالیسی کا جائزہ لیں تو صورتحال بالکل متضاد اُور مختلف نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں طرزحکمرانی عوام دوست نہیں بلکہ اِس میں خواص کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ زیادہ آمدنی اُور زیادہ مالی حیثیت رکھنے والوں کی نسبت کم آمدنی اُور کم مالی حیثیت رکھنے والے طبقات سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔
1: ٹیکس کون ادا کرے گا؟
2: ٹیکس کتنا ادا کرے گا اُور
3: ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کے کتنے فیصد حصے کا حکومت اپنے اخراجات کے لئے استعمال کر سکتی ہے؟
مساوات اُور انصاف یہ ہے کہ ٹیکس مالی حیثیت کے مطابق نافذ ہو یعنی ملک کے سرمایہ دار طبقات کو نسبتاً زیادہ اُور کم آمدنی یا کم مالی حیثیت رکھنے والوں پر اِسی شرح سے ٹیکسوں کا کم بوجھ لادا جائے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کے اہداف اُور ٹیکسوں سے متعلق حکومت کی پالیسی کا جائزہ لیں تو صورتحال بالکل متضاد اُور مختلف نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں طرزحکمرانی عوام دوست نہیں بلکہ اِس میں خواص کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ زیادہ آمدنی اُور زیادہ مالی حیثیت رکھنے والوں کی نسبت کم آمدنی اُور کم مالی حیثیت رکھنے والے طبقات سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔
دوسری ترجیح‘ ماضی کی غلامی: پاکستان کی حکومت آگے (مستقبل) کی جانب دیکھنے کی بجائے پیچھے (ماضی) کی جانب دیکھتے ہوئے سفر کر رہی ہے۔ ایسا سفر حادثات کا باعث بن سکتا ہے۔ حکومت کی ساری کوشش یہ جاننے میں لگی ہوئی ہے کہ ماضی کے حکمرانوں میں شامل کرداروں میں سے کس نے کتنے قومی وسائل ذاتی اثاثوں میں منتقل کئے۔ اگر یہ طرزعمل جاری رہا کہ حکومت آگے کی بجائے پیچھے کی جانب دیکھتی رہی تو اِس کا انجام یا تو یہ ہوگا کہ آگے کی جانب سفر رک جائے یا اگر سفر جاری رہا تو یہ حادثے کا سبب بنے گا۔ حکمراں جماعت کو انسداد بدعنوانی اُور اقتصادی حکمت عملی میں تمیز کرنا ہوگی۔ پاکستان کی ضرورت ایک ایسے تربیت یافتہ‘ اہل ادارے کی ہے جو ملک میں ’انسداد بدعنوانی‘ جیسے انتظامات کر سکے۔ قومی احتساب بیورو یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے کیونکہ اِس کی خاطرخواہ تربیت نہیں۔ اِس کی خاطرخواہ صلاحیت نہیں اُور اِسے خاطرخواہ آزادی حاصل نہیں۔
تیسری ترجیح‘ غیرملکی سرمایہ کار: پاکستان کی نظریں غیرملکی سرمایہ کاروں پر لگی ہوئی ہیں اُور اِس ماحول میں انہیں ملکی سرمایہ کار دکھائی نہیں دے رہے جو سالانہ قریب 5000 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اُور یہ سرمایہ کاری بیرونی سرمایہ کاری سے زیادہ ہے۔ اِس لئے حکومت کو بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے مواقع اور مراعات کی تشکیل سے زیادہ ملکی و مقامی سرمایہ کاروں کے بارے میں سوچنا چاہئے اُور اُنہیں ایسا ماحول دینا چاہئے کہ جس میں وہ حکومت پر اعتماد کرتے ہوئے پہلے کی نسبت زیادہ سرمایہ کاری کریں۔
چوتھی ترجیح‘ شرح سود: حکومت نے آمدن بڑھانے کے لئے شرح سود میں اضافہ کیا ہے جو فی الوقت دس فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔ اِس کا نقصان یہ ہے کہ کم وقت کے لئے سرمایہ کاری کرنے والے زیادہ منافع کما کر چلتے بنیں گے اُور ملک کے اقتصادی مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے اُور دوسرا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ملک میں کاروبار کرنے کی لاگت بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے نئے روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے اُور اِس کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پانچویں ترجیح‘ درآمدات میں کمی: حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان کی درآمدات میں کمی ہو۔ اِس مقصد کے لئے اب تک کئے گئے اقدامات میں پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔ اصولاً درآمدات میں کمی سے زیادہ برآمدات میں اضافے پر توجہ دینی چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان پیٹرولیم مصنوعات (تیل‘ کوئلہ‘ مائع گیس اُور مشینری) درآمد کرنے پر سالانہ 30ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ ضروری اشیائے خوردونوش کی درآمد پر سالانہ 4 ارب ڈالر اُور لوہے (iron) و سٹیل (steel) کی درآمدات پر سالانہ 3 ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔
برآمدات میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔ کم و بیش ’5 برس‘ قبل بنگلہ دیش اُور پاکستان ایک جیسی مالیت کی برآمدات کرتا تھا یعنی بنگلہ دیشی اُور پاکستانی برآمدی حجم 25 ارب ڈالر تھا لیکن پانچ برس بعد کی صورتحال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی برآمدات سالانہ 25 ارب ڈالر سے بڑھ کر سالانہ 40 ارب ڈالر ہو چکی ہیں جبکہ پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر سے کم ہیں! اگر پاکستان 40 ارب ڈالر کی برآمدات کرے اُور اِسے ترسیلات زر سے 24 ارب ڈالر ملیں تو اِس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ کم ہو گا اُور ملک کی اقتصادی صورتحال ایک ایسے توازن پر آن کھڑی ہو گی‘ جس کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
............
No comments:
Post a Comment