The gap
فرق و تضاد
حکومت کی ترجیحات اُور عوام کی توقعات کے درمیان ’زمین آسمان کا فرق‘ نمایاں ہے۔ مثال کے طور پر زمین پر جب ٹماٹروں کی فی کلوگرام قیمت 320 روپے تھی تب حکومت کے اہم رکن نے کہا کہ یہ 17 روپے فی کلوگرام ہیں۔ اِسی طرح جب زمین پر موسمی سبزی مٹر کی فی کلوگرام قیمت 100 روپے تھی تو حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ یہ 5 روپے فی کلوگرام ہے۔ اِسی طرح اہل زمین کو عام گاڑی سے سفر کرنے میں جتنی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے حکومت کی نظر میں ہیلی کاپٹر سے فی کلومیٹر 55 روپے میں سفر ہوتا ہے۔ یہ سبھی مثالیں اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ برسراقتدار طبقے اُور عوام کو مختلف قسم کے حالات درپیش ہیں اُور دونوں ہی کے لئے حالات سے نمٹنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
حکومت کے لئے پاکستان کی معاشی واقتصادی نظام کو درست کرنا ایک ضرورت اُور مشکل ہے جس کے لئے اُس نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بھاری سود اُور سخت مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے جیسی شرائط پر قرض حاصل کیا ہے جبکہ عام آدمی کی مشکل یہ ہے کہ مالیاتی نظم و ضبط کے نام پر کئے گئے اقدامات سے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں۔ ملک میں بیروزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔ حکومت خوش ہے کہ اُس نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر دی ہیں اُور عوام فکرمند ہے کہ اُن کا معاشی مستقبل پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہو چکا ہے۔ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔ روزگار کو تحفظ حاصل نہیں جبکہ مہنگائی کی شرح اِس کے علاو ¿ہ اضافی بوجھ ہے۔ خلاو ¿ں میں رہنے والوں پر زمین کی سطح پر پائی جانے والی ’کشش ثقل‘ کا اثر نہیں ہوتا یا بہت کم ہوتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے اراکین جب چھانگ مارتے ہیں تو وہ زیادہ بلندی تک ہوا میں اُڑتے ہیں اُور سمجھتے ہیں کہ اہل زمین (ہم عوام) بھی ایسی ہی صورتحال سے محظوظ ہو رہے ہوں گے۔ حکومت کے لئے بجلی و گیس کے بلوں میں اضافہ معمولی سی بات ہے اُور یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں گیس کے بلوں میں ڈھائی سے چھ روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا کیونکہ کابینہ کے کسی رکن کے لئے ڈھائی سے چھ روپے اضافہ معمولی سی بات ہے لیکن ایک ایسا شخص جس کی یومیہ آمدنی ہر دن کم ہو رہی ہے اُور اُسے ایک بڑے کنبے کی کفالت کرنی ہے لیکن اُس کی مالی ذمہ داریوں میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے!
خلاوں میں رہنے والوں کے لئے موسمیاتی تبدیلی‘ فضائی آلودگی اُور آب و ہوا کی خرابی کوئی مسئلہ نہیں لیکن زمین پر رہنے والوں کو آلودہ ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔ زراعت و کاشتکاری کو الگ سے خطرات لاحق ہیں جبکہ پاکستان کے کئی شہروں کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شمار کر لیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں سیاحت کی ترقی کیونکر ممکن ہو گی جبکہ پاکستان کے مرکزی شہروں کی فضا آلودہ ترین ہیں!؟
1700 کے اواخر کی بات ہے جب ملکہ ماری (Queen Marie Antoinette) سے کہا گیا کہ عوام روٹی نہ ملنے کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں تو اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟ فرانس کے حکمرانوں کا یہ رویہ اُنہیں لے ڈوبا تھا اُور 14جولائی 1789ءکو ’فرانسیسی انقلاب‘ میں شریک عوام نے بادشاہت کا تختہ اُلٹا۔ یاد رہے کہ فرانسیسی انقلاب 1789ءمیں شروع ہوا تھا۔
پاکستان میں مہنگائی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اُور اِس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہوئے کوئی حل نکالنا چاہئے۔ حال ہی میں ہوئے گیلپ و گیلانی سروے (Gallup & Gilani Poll) سے معلوم ہوا کہ 53فیصد پاکستانیوں کے لئے مہنگائی 23 فیصد کے لئے بیروزگاری جبکہ صرف 4فیصد کے لئے بدعنوانی بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کا ایک تعلق بجلی و گیس اُور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے سے جڑا ہوا ہے۔ اگر حکومت کم سے کم بجلی و گیس کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے گریز کرے تو اِس سے مارکیٹ میں ایک طرح کا استحکام دیکھنے میں آئے گا۔ حکومت قریب 2 کھرب روپے بجلی و گیس کی قیمت میں اضافے اُور اضافی ٹیکسوں سے حاصل کر رہی ہے‘ جس کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید میں مسلسل کمی کا رجحان ہے اُور جب قوت خرید کم ہوتی ہے تو پیداواری اداروں کو اپنی پیداوار کم کرنا پڑتی ہے جس کے لئے مزدوروں کی تعداد گھٹانا پڑتی ہے اُور یوں معیشت زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مہنگائی کے محرکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے عوام سے متعلق فیصلہ سازی اُسی سطح پر کی جائے جہاں عوام رہتے ہیں۔ اِس کے لئے فیصلہ ساز کو زمین پر اُترنا ہوگا جہاں پاکستان کے معاشی حالات اُن کی سوچ سے زیادہ مختلف اُور گھمبیر ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Our cabinet is up in the Moon; the other 210 million Pakistanis down below. Up in the Moon, tomatoes sell for Rs17 per kilogram. Down below, tomatoes sell for Rs320 per kilogram. Up in the Moon, peas sell for Rs5 per kilogram. Down below, peas sell for Rs100 per kilogram. Up in the Moon, helicopters cost a paltry Rs55 per kilometer. Down below, Uber and Careem cost as much.
ReplyDeleteUp from the Moon, the IMF looks angelic. Down below, a million Pakistanis have lost their jobs. Up in the Moon, the cabinet is exchanging congratulations for fulfilling all of IMF’s conditionalities. Down below, four million Pakistanis have been pushed into poverty. Up at the Moon’s surface, the cabinet can easily jump up 10 feet (because the Moon’s gravity is only 17 percent that of Earth’s). Down below, gas bills have gone up from Rs2.5 per unit to a high of Rs6 per unit.
Up in the Moon, the cabinet does not have to worry about the atmosphere because there’s none. Down below, Lahore witnessed the worst air quality in the whole wide world. I checked, on average, the distance between Earth and the Moon is 384,400 kilometers – and that’s how far our cabinet is from an average resident of Lahore.
In the late-1700s, Queen Marie Antoinette was told that “people were suffering due to widespread bread shortages”. The Queen replied, "Qu'ils mangent de la brioche" or “Then let them eat cake” (the French Revolution began in 1789 and the Storming of the Bastille took place on 14 July 1789).
ReplyDeleteLet’s talk about solutions. To begin with, the cabinet would have to come down from where it is – 384,400 kilometers down. Next, the cabinet must understand that inflation is an extremely serious issue. Yes, Pakistanis are in pain – some in excruciating pain. A recent poll conducted by Gallup & Gilani, “Fifty-three percent of Pakistanis identified inflation as the biggest problem while 23 percent said unemployment was a major problem for the country. Only four percent of the people identified corruption as the major problem.”
Next, we must understand that what we are up against is ‘cost-push inflation’ which is caused by an increase in prices of inputs like the price of electricity and gas. What we are up against is not ‘demand-pull inflation’ where “aggregate demand in an economy outpaces aggregate supply.” So, there’s no way out but to radically reform both the electricity and the gas sectors. Unfortunately, we haven’t even taken the first step towards that.
Next, the government has taken in some Rs2 trillion in the form of expensive electricity, gas and additional taxation. As a consequence, an average Pakistani’s purchasing power has fallen like ninepins. With little or no disposable income there’s very little demand for goods and factories are, therefore, closing down. That means unemployment – and a further dent in demand. The government must focus on breaking this vicious cycle.
From up above, the cabinet is bent upon giving us the Moon and the stars. Down below, all we are asking for is tomatoes and onions.