Sunday, May 31, 2020

COLUMN: Demolition of al-Baqi

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
عالمی دن: جنت البقیع
اَٹھارہ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ’سلطنت عثمانیہ‘ کا قیام سال 1299ءسے اِختتام 1923ءتک کے واقعات‘ بنیادی مقاصد اُور ہدف یہ تھا کہ ’مسلم اُمہ‘ کے مقدس ترین مقامات مسجد الحرام (مکہ مکرمہ) اُور مسجد نبوی شریف (مدینہ منورہ) کو پوری مسلم اُمت کی ملکیت اُور عبادات کی طرح اسلام کے سیاسی نظام کا بھی مرکز (قبلہ) ہوں۔ متحدہ مسلم اُمہ کی کوشش و مقصد کے لئے جدوجہد‘ پہلے مرحلے میں مکہ و مدینہ پر حکمرانی اُور انتظامی معاملات اپنے ہاتھ میں لئے گئے اُور عثمانی خلفاءنے سال 1818ءسے 1860ءکے درمیان مقامات مقدسہ بشمول مسجد نبوی کی تعمیروتوسیع اُور تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا۔ یہ وہ ’سنہرا دور‘ تھا جب مسلمان ممالک کی اکثریت متحد اُور مسلمانوں کے خلاف کسی دوسرے مذہب کو آنکھ اُٹھانے کی جرا ¿ت نہ تھی لیکن مسلم اُمہ کا یہ اتحاد زیادہ دنوں برقرار نہ رہ سکا اُور تاریخ میں وہ سبھی واقعات (سازشیں) تفصیلاً ذکر ہیں کہ کس طرح مغربی طاقتوں نے عرب سرزمین پر اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کے لئے مسلم ممالک کے اتحاد (خلافت عثمانیہ) کا خاتمہ کیا اُور مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات پر سیاسی و انتظامی حکمرانی ایسے حکمرانوں کو سونپ دی گئی‘ جن کے لئے اقتدار ہی پہلی اُور آخری ترجیح ہے۔ بہرحال خلافت عثمانیہ کا ذکر صرف تاریخ کی کتب تک محدود ہو کر رہ گیا جبکہ ’حجاز‘ کہلانے والی سرزمین ’سعودی عرب‘ کے نام سے ایک نئے ملک (بادشاہت) کے طور پر اُبھری۔

خلافت عثمانیہ کے عروج و زوال کا محرک کوئی ایک سازش نہیں تھی بلکہ اِس کے کئی داخلی و خارجی عوامل اُور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بیرونی سازشوں کے علاو ¿ہ دیگر محرکات بھی تھے‘ جن کے چند پہلو ماہ  رمضان المبارک سے پاکستان میں نشر ہونے والے ترک ڈرامے ’دیریلیش ارطغرل (Dirilis: Ertugrul)‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اِن تاریخی حقائق کے کئی حیران کن اُور تکلیف دہ پہلوو ں میں شامل ہے کہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کرنے کے بعد (1925-26ءمیں) مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان ’جنت البقیع‘ میں موجود اصحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین‘ اُمہات المومنین اُور اہل بیت اطہار رضوان اللہ اجمعین کے مزارات کو ایک فقہی رائے کی بنیاد پر مسمار کر دیا گیا۔ جن مزارات کی نشانیاں تک نہیں چھوڑی گئیں اُن میں امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ (تیسرے خلیفہ راشد) کے مزار سے لیکر دختر رسول حضرت بی بی فاطمة الزہرا طاہرہ سلام اللہ علیہا کے روضے جیسے مقدسات شامل تھے اُور یوں جنت البقیع میں موجود قبریں دور سے دیکھنے پر مٹی کے ڈھیر اُور ٹیلے دکھائی دینے لگے‘ جہاں چھوٹے بڑے پتھروں میں چھپی قبروں کی باقیات تلاش کرنے والے زائرین کو ایک خاص حد سے آگے جانے نہیں دیا جاتا۔ اِس اقدام سے اختلاف کرنے والے مسلمانوں کے 90 برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی زخم ہرے ہیں اُور ہر سال عالمی سطح پر ”8 شوال المکرم“ کا دن ”یوم انہدام جنت البقیع“ کے طور پر منانے والے مطالبہ کر رہے ہیں کہ .... ”جنت البقیع‘ میں موجود زیارات مقدسہ کو اُن کی اَصل حالت و جگہ پر بحال کیا جائے۔“

مدینہ منورہ شریف کا ”بقیع“ نامی قبرستان کی موجودہ حالت اُور اِس مقام کے قبل اسلام و بعد اسلام (ماضی و حال کی) تاریخی اہمیت اگر کچھ ہے تو وہ کیا ہے؟ مسلمان بھلے ہی خاموش ہوں لیکن تاریخ نہیں بلکہ درجنوں کتب کے اُوراق میں ایک جیسے واقعات اُور حوالے تحریر ملتے ہیں جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے پڑپوتے عملاق کی اولاد نے مدینہ منورہ شریف آباد کیا‘ پر زراعت کے لئے زمین ہموار کی۔ درخت اُگائے۔ رہائشگاہیں اُور قلعے تعمیر کئے گئے۔ وقت کے ساتھ جب اِنسانی آبادی میں اضافہ ہوا۔ قبائل تشکیل پائے تو مدینہ منورہ شریف نہ صرف کاشتکاروں اُور شہ زوروں کا مرکز رہا بلکہ یہ اہم تجارتی گزرگاہ بھی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اُور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھی یہاں وارد ہوئے۔ کچھ نے یہیں قیام کر لیا اُور کچھ کنعان یا دیگر علاقوں کی طرف چلے گئے۔ ولادت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ایک ہزار سال قبل مدینہ منورہ شریف کے رہنے والے اِس بات (پیشگوئی) سے باخبر تھے کہ یہ شہر اللہ تعالیٰ کے آخری نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسکن قرار پائے گا۔ اِس سلسلے میں ’تبع حمیری‘ نامی بادشاہ کا تذکرہ بطور خاص ملتا ہے جو بڑی فوج کے علاو ہ کم و بیش چار ہزار کی تعداد میں علماءاُور حکماءبطور مشیر رکھتا تھا۔ ایک موقع پر جب مدینہ منورہ شریف کے کسی رہنے والے نے تبع بادشاہ کے اہل خانہ سے بدسلوکی کی تو اُس نے مجرم کی سرکوبی کے مدینہ کو تاراج کرنے کا فیصلہ کیا اُور اِس ارادے سے مدینہ کے باہر آ کر پڑاو ¿ ڈالا۔ اہل مدینہ کے علماءنے بادشاہ (تبع) سے ملاقات کی اُور مدینہ کے فضائل و مناقب کی تفصیلات کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی اُس کے گوش گزار کی کہ یہ شہر ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسکن ہوگا۔ یہ سننا تھا کہ اُس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اُس نے حملے کا ارادہ ترک کیا اُور روز قیامت اپنی شفاعت کی تمنا کے لئے ایک تحریر (خط) لکھا۔ یہ خط اُس کی پشت در پشت منتقل ہوتے‘ 90 واسطوں کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خط کو دیکھ کر مسکرائے‘ درخواست قبول فرمائی اُور 3 مرتبہ ارشاد فرمایا ’مرحبا باخ الصالح۔‘ اِسی شہر مدینہ کا ایک مختصر حصہ “جنت البقیع“ کہلاتا ہے۔

لغت کے مطابق ”بقیع“ اُس علاقے کو کہتے ہیں جہاں بڑی تعداد میں درخت پائے جائیں گویا بقیع زمانہ قدیم (قبل اسلام) یہاں کثرت سے درخت ہوا کرتے تھے۔ ’بقیع‘ کو ’بقیع الغرقد‘ یعنی کانٹے دار جھاڑیوں کا علاقہ بھی کہتے ہیں چونکہ ایک وقت میں یہاں ’عوسج‘ نامی کانٹے دار پودے پائے جاتے تھے لہٰذا روزمرہ بول چال میں اِسے ’بقیع الغرقد‘ کہا جانے لگا۔ عرب قبائل ’بقیع‘ کا لفظ کسی گنبد یا اُٹھی ہوئی (بلند) جگہ کے لئے بھی استعمال کرتے۔ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے تیرہویں سال مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی۔ تب سے ’یثرب‘ عرف عام میں مدینہ اُور بطور خاص مدینہ منورہ شریف کہلایا جانے لگا کیونکہ اِس عزت مآب خاص شہر کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص دعا فرمائی (ترجمہ) ”بارالہا‘ اِس شہر کو محبوب قرار دے‘ (بالکل) اُسی طرح جیسا کہ تو نے مکہ مکرمہ کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال رکھی ہے۔ یہاں کے دانے پانی (اَجناس) میں برکت عطا فرما اُور اِس شہر کو (تاقیامت) بیماریوں اُور آفات و بلیات سے محفوظ رکھ۔“
........
Editorial Page of Daily Aaj Peshawar Abbottabad  - May 31, 2020 - Sunday

Clipping from Editorial Page of Daily Aaj Peshawar Islamabad Abbottabad  - May 31, 2020

No comments:

Post a Comment