ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
غربت
مسائل بڑے اُور وسائل چھوٹے ہیں۔ اِس عمومی تصور کی حقیقت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وسائل موجود ہیں لیکن اُن سے خاطرخواہ استفادہ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اِس تصور کی عملی شکل بیان کرنے کے لئے پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی روداد پیش کی جا سکتی ہے‘ جن میں اندرون شہر کے 2 ایسے بھائی بھی شامل ہیں جنہیں پانچ مرلے کے گھر میں قرنطینہ کیا گیا اُور نتیجہ یہ رہا کہ مجموعی طور 17 افراد کے اِس کنبے میں 11 افراد بشمول خواتین اُور بچے کورونا سے متاثر ہو چکے ہے!
محکمہ صحت کی مصدقہ رپورٹ کے مطابق مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے والے مذکورہ خاندان کے گیارہ افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے اُور یہ بات صرف کسی ایک خاندان اُور صحافیوں ہی کی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں اکثر غریب گھرانوں کی ملتی جلتی روداد یہی ہے کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زیادہ افراد کم رقبے کے مکانات میں رہتے ہیں‘ جہاں ایک کمرہ اُور ایک بیت الخلا گھر کے کئی افراد کے زیراستعمال رہتا ہے۔ اِس صورتحال کی وجہ سے خاندان کے مرد خواتین اُور کم عمر بچے متاثر ہو رہے ہیں جبکہ غریب علاقوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ اِن کے اہل محلہ و علاقہ ایک دوسرے سے جڑ کر رہتے ہیں اِس لئے متاثرین کا شمار کسی ایک خاندان کے اَفراد سے کہیں زیادہ ہے۔ مئی کے پہلے ہفتے سے خیبرپختونخوا میں نئے کورونا متاثرین کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زیادہ جبکہ 63 اموات اِس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ کم آمدنی اُور غریب طبقات کورونا وائرس کا باآسانی شکار بن رہے ہیں اُور اگر اِس جانب (اِس موقع پر بھی) خاطر خواہ (فوری) توجہ نہ دی گئی تو کورونا وائرس پھیلنے کا سلسلہ تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔
آمدن کے لحاظ سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کورونا وائرس سے متعلق غلط فہمیوں کا پہلے اُور وائرس سے بعد میں شکار ہو رہی ہیں۔ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے یہ حالات اُور صورت حالات ایک جیسی ہے کہ ایک طرف وبا کا طلاطم خیز طوفان اُور دوسری طرف عالمگیر وبا کی صورت کھائی ہے۔ ایک طرف بھوک افلاس ہے اُور دوسری طرف بیماری سے موت کا خطرہ جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی مرض سے خطرہ اُور موت کا امکان قابل برداشت ہوتا ہے۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا اُور برسرزمین حقائق دیکھنا ہوں گے کہ آبادی کا وہ بڑا حصہ جس کے لئے سر پر چھت کا ہونا ہی سب سے بڑی نعمت ہے اُور ایسے طبقے سے یہ توقع کرنا کہ اُن کے پاس رہائش کے لئے اتنی جگہ ہو گی جہاں وہ دیگر اہل خانہ سے الگ تھلگ (یا مناسب فاصلے پر) رہ سکیں گے دراصل غلط فہمی ہے۔ شہری علاقوں میں رہنے والے بالخصوص چھوٹے رقبے والے مکانات میں رہتے ہیں مگر ان کے اہل خانہ کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اگر ہم پشاور کی بات کریں تو یہاں گھر چھوٹے لیکن مکینوں کے دل بڑے ہوتے ہیں اُور آج بھی مشترکہ خاندانی نظام اِس سماج کا سب سے مضبوط حوالہ ہے۔ حکومتی فیصلہ سازوں نے کورونا متاثرین کے لئے قواعد (SOPs) تشکیل دے رکھے ہیں تو کیا اِس کے بعد کسی اقدام کی ضرورت نہیں رہی؟ ایک سے بڑھ کر ایک مشکل کھڑی کرتے ہوئے برسرزمین حقائق‘ عام آدمی (ہم عوام) کی آمدنی و مالی حیثیت اُور اُس مشترکہ خاندانی نظام کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہو رہی جو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اُور جس کی موجودگی میں کورونا متاثرین کا الگ تھلگ رہنا اُس وقت تک عملاً ناممکن رہے گا‘ جب تک کہ حکومت کی جانب سے خصوصی انتظامات‘ سہولیات بشمول مالی امداد نہیں دی جاتی۔
از خود علیحدگی (قرنطینہ) کے لئے قواعد و ضوابط وضع کرنا ضروری تھا لیکن کافی نہیں جب تک کہ عمل درآمد کی صورتحال اُور عمل درآمد نہ ہونے کی وجوہات بارے سوچ بچار نہ کیا جائے۔ جن نجی رہائشگاہوں کو اُن کے مکینوں کے لئے ’قرنطینہ مراکز‘ میں تبدیل کیا گیا ہے‘ اُن کے اعدادوشمار بشمول مکان کا خاکہ‘ وہاں دستیاب سہولیات اُور وہاں مقیم صحت مند افراد سمیت کل مکینوں کے بارے حکومت کے پاس اعدادوشمار نہیں۔ ضوابط بنانے کے ساتھ اگر اُن کے ضمنی و ذیلی پہلوو ¿ں پر بھی غور کیا جاتا اُور اب بھی کیا جائے تو کورونا وائرس کا پھیلاو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔
صوبائی حکومت ہر سطح پر کوشش کر رہی ہے کہ ’طفل تسلیوں‘ سے وقت گزر جائے اُور کام چلتا رہے۔ ماضی کی طرح حکمرانوں کا طرزعمل یہی ہے کہ جہاں اِن کے پاس صحافیوں کے سوالات کے جوابات نہیں ہوتے‘ وہاں رابطے منقطع کر دیئے جاتے ہیں اُور جہاں حکومتی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا مطلوب ہوتا ہے‘ وہاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو سر آنکھوں پر بٹھا لیا جاتا ہے! یہ روش تشویشناک ہے کہ زبانی کلامی بیانات‘ وعدوں اُور یقین دہانیوں سے اب تک کی پراسرار اُور وباو ¿ں سے مقابلہ کرنے کی انسانی تاریخ میں منظرعام پر آنے والے خطرناک جرثومے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کورونا کی طرح غربت بھی لاعلاج مرض بن چکا ہے۔
پشاور کے ایک متاثرہ صحافی سے ہوئی بات چیت میں جب یہ پوچھا کہ حکومت نے تو کورونا سے متاثرہ صحافیوں کے لئے خصوصی امداد کا اعلان بھی کر رکھا ہے‘ کیا آپ تک وہ امداد پہنچی ہے تو اُس نے بناءتوقف اُور طنزیہ قہقہہ لگاتے ہوئے فوراً کہا ”بھائی مذکورہ امدادی پیکج کے لئے کورونا وائرس سے فوت ہونا ضروری ہے!“
........
غربت
مسائل بڑے اُور وسائل چھوٹے ہیں۔ اِس عمومی تصور کی حقیقت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وسائل موجود ہیں لیکن اُن سے خاطرخواہ استفادہ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اِس تصور کی عملی شکل بیان کرنے کے لئے پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی روداد پیش کی جا سکتی ہے‘ جن میں اندرون شہر کے 2 ایسے بھائی بھی شامل ہیں جنہیں پانچ مرلے کے گھر میں قرنطینہ کیا گیا اُور نتیجہ یہ رہا کہ مجموعی طور 17 افراد کے اِس کنبے میں 11 افراد بشمول خواتین اُور بچے کورونا سے متاثر ہو چکے ہے!
محکمہ صحت کی مصدقہ رپورٹ کے مطابق مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے والے مذکورہ خاندان کے گیارہ افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے اُور یہ بات صرف کسی ایک خاندان اُور صحافیوں ہی کی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں اکثر غریب گھرانوں کی ملتی جلتی روداد یہی ہے کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زیادہ افراد کم رقبے کے مکانات میں رہتے ہیں‘ جہاں ایک کمرہ اُور ایک بیت الخلا گھر کے کئی افراد کے زیراستعمال رہتا ہے۔ اِس صورتحال کی وجہ سے خاندان کے مرد خواتین اُور کم عمر بچے متاثر ہو رہے ہیں جبکہ غریب علاقوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ اِن کے اہل محلہ و علاقہ ایک دوسرے سے جڑ کر رہتے ہیں اِس لئے متاثرین کا شمار کسی ایک خاندان کے اَفراد سے کہیں زیادہ ہے۔ مئی کے پہلے ہفتے سے خیبرپختونخوا میں نئے کورونا متاثرین کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زیادہ جبکہ 63 اموات اِس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ کم آمدنی اُور غریب طبقات کورونا وائرس کا باآسانی شکار بن رہے ہیں اُور اگر اِس جانب (اِس موقع پر بھی) خاطر خواہ (فوری) توجہ نہ دی گئی تو کورونا وائرس پھیلنے کا سلسلہ تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔
کورونا وبا سے متاثرین کی کہانیاں اُور مسائل ایک جیسے اہم ، تشویشناک اُور لائق توجہ ہیں۔
اگر صحافی متاثر ہیں تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ خطرے سے متعلق علم ہونے کے باوجود بھی اِنہوں نے بنا حفاظتی تدابیر متاثرہ علاقوں کے دورے کئے۔ دیگر طبقات اُور پیشوں سے تعلق رکھنے والے اِس لئے متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ وہ کورونا وائرس کو اپنے لئے یکساں طور پر خطرہ نہیں سمجھتے اُور اب بھی یہ تاثر عام ہے کہ اموات وبا سے نہیں بلکہ اِس وبا کے خوف سے ہو رہی ہیں اُور خوف پھیلانے میں ذرائع ابلاغ کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں!آمدن کے لحاظ سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کورونا وائرس سے متعلق غلط فہمیوں کا پہلے اُور وائرس سے بعد میں شکار ہو رہی ہیں۔ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے یہ حالات اُور صورت حالات ایک جیسی ہے کہ ایک طرف وبا کا طلاطم خیز طوفان اُور دوسری طرف عالمگیر وبا کی صورت کھائی ہے۔ ایک طرف بھوک افلاس ہے اُور دوسری طرف بیماری سے موت کا خطرہ جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی مرض سے خطرہ اُور موت کا امکان قابل برداشت ہوتا ہے۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا اُور برسرزمین حقائق دیکھنا ہوں گے کہ آبادی کا وہ بڑا حصہ جس کے لئے سر پر چھت کا ہونا ہی سب سے بڑی نعمت ہے اُور ایسے طبقے سے یہ توقع کرنا کہ اُن کے پاس رہائش کے لئے اتنی جگہ ہو گی جہاں وہ دیگر اہل خانہ سے الگ تھلگ (یا مناسب فاصلے پر) رہ سکیں گے دراصل غلط فہمی ہے۔ شہری علاقوں میں رہنے والے بالخصوص چھوٹے رقبے والے مکانات میں رہتے ہیں مگر ان کے اہل خانہ کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اگر ہم پشاور کی بات کریں تو یہاں گھر چھوٹے لیکن مکینوں کے دل بڑے ہوتے ہیں اُور آج بھی مشترکہ خاندانی نظام اِس سماج کا سب سے مضبوط حوالہ ہے۔ حکومتی فیصلہ سازوں نے کورونا متاثرین کے لئے قواعد (SOPs) تشکیل دے رکھے ہیں تو کیا اِس کے بعد کسی اقدام کی ضرورت نہیں رہی؟ ایک سے بڑھ کر ایک مشکل کھڑی کرتے ہوئے برسرزمین حقائق‘ عام آدمی (ہم عوام) کی آمدنی و مالی حیثیت اُور اُس مشترکہ خاندانی نظام کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہو رہی جو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اُور جس کی موجودگی میں کورونا متاثرین کا الگ تھلگ رہنا اُس وقت تک عملاً ناممکن رہے گا‘ جب تک کہ حکومت کی جانب سے خصوصی انتظامات‘ سہولیات بشمول مالی امداد نہیں دی جاتی۔
از خود علیحدگی (قرنطینہ) کے لئے قواعد و ضوابط وضع کرنا ضروری تھا لیکن کافی نہیں جب تک کہ عمل درآمد کی صورتحال اُور عمل درآمد نہ ہونے کی وجوہات بارے سوچ بچار نہ کیا جائے۔ جن نجی رہائشگاہوں کو اُن کے مکینوں کے لئے ’قرنطینہ مراکز‘ میں تبدیل کیا گیا ہے‘ اُن کے اعدادوشمار بشمول مکان کا خاکہ‘ وہاں دستیاب سہولیات اُور وہاں مقیم صحت مند افراد سمیت کل مکینوں کے بارے حکومت کے پاس اعدادوشمار نہیں۔ ضوابط بنانے کے ساتھ اگر اُن کے ضمنی و ذیلی پہلوو ¿ں پر بھی غور کیا جاتا اُور اب بھی کیا جائے تو کورونا وائرس کا پھیلاو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔
صوبائی حکومت ہر سطح پر کوشش کر رہی ہے کہ ’طفل تسلیوں‘ سے وقت گزر جائے اُور کام چلتا رہے۔ ماضی کی طرح حکمرانوں کا طرزعمل یہی ہے کہ جہاں اِن کے پاس صحافیوں کے سوالات کے جوابات نہیں ہوتے‘ وہاں رابطے منقطع کر دیئے جاتے ہیں اُور جہاں حکومتی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا مطلوب ہوتا ہے‘ وہاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو سر آنکھوں پر بٹھا لیا جاتا ہے! یہ روش تشویشناک ہے کہ زبانی کلامی بیانات‘ وعدوں اُور یقین دہانیوں سے اب تک کی پراسرار اُور وباو ¿ں سے مقابلہ کرنے کی انسانی تاریخ میں منظرعام پر آنے والے خطرناک جرثومے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کورونا کی طرح غربت بھی لاعلاج مرض بن چکا ہے۔
پشاور کے ایک متاثرہ صحافی سے ہوئی بات چیت میں جب یہ پوچھا کہ حکومت نے تو کورونا سے متاثرہ صحافیوں کے لئے خصوصی امداد کا اعلان بھی کر رکھا ہے‘ کیا آپ تک وہ امداد پہنچی ہے تو اُس نے بناءتوقف اُور طنزیہ قہقہہ لگاتے ہوئے فوراً کہا ”بھائی مذکورہ امدادی پیکج کے لئے کورونا وائرس سے فوت ہونا ضروری ہے!“
........
No comments:
Post a Comment