Saturday, May 9, 2020

Fitrana this year?

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پیشگی صدقہ فطر؟
کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والی غیرمعمولی معاشی مشکلات اُور سماجی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے ’پیشگی فطرانہ ادائیگی مہم‘ چلائی جا رہی ہے‘ جس کا خلاصہ یہ ہے 1: سرمایہ دار اِس مرتبہ اپنی زکوة‘فطرانہ اُور صدقات کی شرح میں اضافہ کریں اُور 2: فطرانہ اَدا کرنے کے لئے آخری روزے (ماہ رمضان المبارک) کی تکمیل کا انتظار نہ کیا جائے۔“ اِس سماجی مطالبے کے دونوں پہلووں کے بارے میں مختلف مسالک کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے چونکہ فطرانے کو فطر (یکم شوال یعنی عید کے دن) سے منسوب کیا گیا ہے‘ اِس لئے عید الفطر کا دن ہی فطرانہ کی ادائیگی کا وقت ہے جیساکہ رمضان المبارک کے کسی دن کا روزہ اُس کے افطار پر مکمل ہوتا ہے اِس جواز پر فقہاءکے ایک طبقے کا موقف غیرلچکدار ہے جو ”ماہ رمضان المبارک کے آخری یوم کا سورج غروب ہونے سے قبل فطرانہ ادا کرنے کو جائز قرار نہیں سمجھتے اُور اِس قدر رعایت دیتے ہیں کہ عیدالفطر سے 1یا 2 دن قبل فطرانہ ادا کر دیا ہے کیونکہ فطرانہ کی ادائیگی کا حقیقی وقت رمضان المبارک کے آخری روزے کا سورج غروب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے‘ اِس لئے افضل یہی ہے اُور اگر ممکن ہو تو عیدالفطر کی صبح فطرانہ اَدا کیا جائے۔“

اِس مسئلے کا ایک اِنسانی پہلو بھی ہے اُور وہ یہ کہ فطرانہ وقت سے پہلے ادا کرنے سے فطرانہ وصول کرنے والے (مستحقین) عید کی تیاریوں میں زیادہ بہتر انداز سے شامل ہو سکیں۔ ہر عبادت کی ایک روح (مقصدیت) بھی ہوتی ہے تو 3 پہلووں (انسانی ضرورت‘ مقصدیت اُور خصوصی حالات) کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اِس سال فطرانہ کی دس پندرہ روز قبل ادائیگی جائز قرار دی جائے تو یہ زیادہ مفید عمل ہوگا یقینا اِس سلسلے میں علمائے کرام بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔

اسلام صرف عبادات (حقوق اللہ) کی حد تک محدود نہیں بلکہ اِس میں دنیاوی حقوق کی ادائیگی پر بھی زور دیا گیا ہے اُور اِسی لئے وجوب اُور عدم وجوب کے لحاظ سے 2 قسم کے صدقات (صدقہ واجبہ اُور صدقہ نافلہ) کا حکم ہے۔ واجبہ سے مراد ہر صاحب نصاب بالغ مرد یا عورت پر فرض (لازم) صدقات ہیں‘ اِن میں زکوة‘ صدقہ فطر اُور عشر وغیرہ شامل ہیں۔ بالخصوص صدقہ فطر ہر مسلمان غلام اُور آزاد‘ مرد و عورت‘ بچے اُور بوڑھے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو واجب ٹھہرایا گیا ہے۔ زکوة کی ادائیگی کے لئے سال بھر ایک خاص نصاب کا باقی رہنا شرط ہے لیکن صدقہ فطر میں نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عیدالفطر کے دن کہیں سے اِس قدر رقم آ جائے جو زکوة کے نصاب کے برابر ہو اُور اُس کی حاجات اصلیہ سے زائد بھی ہو تو اُس پر صدقہ فطر کی ادائیگی واجب (لازم) ہو جاتی ہے۔ ”صدقہ نافلہ“ کے تحت کوئی بھی شخص (مرد یا عورت) اپنی ضرورت سے زائد مال غریبوں‘ مسکینوں‘ محتاجوں اُور فقیروں میں تقسیم یا اُن پر خرچ کرتا ہے۔ صدقات واجبہ اُور نافلہ کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنے والوں کے روز قیامت درجات اُتنے ہی بلند ہوں گے۔ 

قرآن کریم کی 35ویں سورہ¿ مبارکہ فاطر کی 29ویں آیت میں ”اللہ تعالیٰ سے تجارت“ کرنے کے ایک طریقے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے (ترجمہ): ”جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اُور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اُور جو کچھ اُنہیں عطا کیا گیا اُس میں سے پوشیدہ اُور ظاہراً خرچ کرتے ہیں تو (درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کی جانے والی) ایسی تجارت (لین دین) ہے جس میں خسارہ نہیں۔“ سورہ¿ مبارکہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کی مثال اُس دانے (اناج) جیسی ہے‘ جس میں سات بالیاں نکلیں اُور ہر بالی میں 100 دانے ہوں‘ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر اجر دے‘ وہ کشادگی اُور علم والا ہے۔“

صدقہ فطر مالی انفاق ہے جسے ادا کرنے کا حکم زکوٰة کی فرضیت سے قبل اُس برس دیا گیا جب ماہ¿ رمضان المبارک کے روزہ فرض ہوئے تھے۔ ذہن نشین رہے کہ روزے کی فرضیت کا حکم سن 2 ہجری میں تحویل قبلہ سے کم و بیش دس پندرہ روز بعد نازل ہوا اُور روزے سے متعلق دوسرے سورہ¿ مبارک البقرہ کی 185ویں آیت شعبان المعظم میں نازل ہوئی تھی۔ صدقہ فطر صاحب نصاب لوگوں کی جانب سے غریبوں کو دیا جاتا ہے اُور اِس صدقے کو عرف عام میں ”فطرانہ“ کہتے ہیں‘ عمومی طور پر ہر زکوة ادا کرنے والے پر فطرانہ فرض ہے اُور بنیادی مقصد یہ ہے کہ عیدالفطر کے تہوار میں معاشرے کے غریب‘ مسکین‘ نادار (مالی طور پر کمزور طبقات) بھی شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں ماہ رمضان المبارک میں روزے اُور دیگر عبادات کی قبولیت کو ”صدقہ فطر“ سے مشروط کر دیا گیا ہے‘ جس سے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حکمت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو اِس لئے فرض قرار دیا تاکہ روزے (فرض عبادت) کے خاطرخواہ احترام میں رہ جانے والی دانستہ و غیردانستہ کمی بیشی (غلطی‘ کوتاہی یا بے ادبی) کا اَزالہ ہو سکے۔

فطرانے کے حوالے سے مختلف مسالک کی جانب سے نصاب کا اعلان کر رکھا ہے۔ جامعة العلوم الاسلامیہ‘ بنوری ٹاون کراچی (دیوبند مسلک) دارالافتاءکے مطابق رواں برس (سال دوہزاربیس) کے لئے فطرانہ کی رقم مختلف اناج کے حساب سے طے کی گئی ہے‘ جس میں گندم کی قیمت کے تناسب سے 100‘ جو کے لئے 250‘ کھجور کے لئے 1100 اُور کشمش کے لئے 1700 روپے مقرر کی گئی ہے لیکن یہ کم سے کم فطرانہ ہے‘ اگر کوئی صاحب ثروت اِس سے زیادہ‘ اُور جس قدر زیادہ فطرانہ اَدا کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی (مسجد قاسم علی خان) نے فطرانہ کی رقم 115 روپے مقرر کرتے ہوئے اعلان میں کہا ہے کہ 1: مستحقین زکوة ہی مستحقین صدقہ فطر ہیں۔ 2: فطرانہ نماز عید سے قبل ادا کرنے میں فضیلت اُور زیادہ اجروثواب ہے۔ 3: گندم 115‘ کھجور 880‘ جو 180‘ کشمش 1200 اُور پنیر کے مطابق 2800 روپے فطرانہ مقرر کیا گیا ہے۔ 

مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کے فتوی (بریلوی مسلک) کے مطابق اِس سال کے لئے صدقہ فطر 125 روپے ہے جو گزشتہ برس (2019) کے لئے 100 روپے تھا۔ اِس سلسلے میں صدقہ فطر اور فدیہ مقرر کرنے کے لئے 2کلوگرام چکی کے آٹا پر فی کس صدقہ فطر متعین کیا گیا ہے۔ دیگر اجناس میں جو کے نصاب سے فطرہ 320‘ کھجور کے نصاب سے 1600‘ کشمش (خشک میوہ) کے نصاب سے 1920 اور پنیر کے نصاب 3540 روپے بتایا گیا ہے۔ فتوے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اہلِ ثروت اپنی مالی حیثیت کے مطابق فطرہ و فدیہ ادا کریں اُور جو لوگ کسی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے وہ 30 روزوں کا فدیہ بالترتیب چکی کا آٹا 3750‘ جو 9600‘ کھجور 48 ہزار‘ کشمش 57ہزار 600‘ اور پنیر 1 لاکھ 6200 روپے کے تناسب سے اَدا کریں۔

فقہ جعفریہ (اہل تشیع اثنائے عشریہ) کی جانب سے گذشتہ برس صدقہ فطر 150 روپے جبکہ اِس سال (2020) کے لئے 175 روپے مقرر کیا گیا ہے جبکہ احتیاط کے طور پر فی کس کم سے کم فطرانہ 200 روپے ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 

لب لباب یہ ہے کہ تمام مسالک کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ کم سے کم کے چکر پڑنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ فطرانہ ادا کرنے میں حرج نہیں البتہ صدقہ فطر کی ابتدائی حد معلوم ہونی چاہئے کہ اُس سے کم شرح سے دیا گیا صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا۔ صدقہ فطر عید (یکم شوال المکرم) سے چند روز قبل بھی ادا کیا جا سکتا ہے اُور اِس سلسلے میں بخاری شریف کے باب صدقہ فطر میں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِس معمول کا ذکر محفوظ ہے کہ آپ عید الفطر سے ایک دو روز قبل اپنا فطرانہ ادا کر دیا کرتے تھے۔ فطرانہ کی ادائیگی نماز عید الفطر کے بعد تک موخر کرنا مکروہ جبکہ بعض فقہاءکے نزدیک حرام اُور ایسا کرنے کی صورت میں قضاءواجب (لازم) ہوگی۔
........
Clipping from Daily Aaj May 09 2020  Saturday 


No comments:

Post a Comment