امتحانات: سوالیہ نشان!
کورونا وائرس کے سبب جہاں پوری قوم امتحان سے گزر رہی ہے وہیں خیبرپختونخوا کے 8 تعلیمی بورڈز نے بناءامتحانات ترقیوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اِس اقدام سے 14 لاکھ 25 ہزار سے زائد دسویں جماعت (میٹرک) اُور انٹرمیڈیٹ (گیارہوں اُور بارہوں جماعتوں) کے طلبا و طالبات نے بظاہر فائدہ اٹھایا ہے لیکن نقصان اٹھانے والوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جس کے لئے صورتحال کو سمجھنا اُور فیصلہ سازوں کے لئے کسی نتیجے پر پہنچنا ایک معمہ دکھائی دے رہا ہے۔ بنا امتحانات ترقیاں دینے کا اقدام وفاقی حکومت کی جانب سے کئے گئے فیصلے کی روشنی میں کیا گیا ہے جو کورونا وائرس کے سبب درس و تدریس کا عمل معطل ہونے کے باعث ہے لیکن یہاں ایک مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تمام طلبا و طالبات جنہوں نے گزشتہ امتحانات میں چند مضامین کے امتحانی پرچے کامیابی سے حل نہیں کئے اُن کی اگلے درجات میں ترقیاں کیسے ہوں۔ سردست طریقہ ¿ کار یہ اختیار کیا گیا ہے کہ بنا اِمتحان ترقی گزشتہ حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر منحصر ہے لیکن جو طلبہ گزشتہ امتحانات میں چند مضامین پاس کرنے میں ناکام رہے‘ اُن کا مستقبل اِس پوری صورتحال میں غیرواضح دکھائی دے رہا ہے!
امتحانات کے ذریعے طلبا و طالبات کی ذہانت اُور قابلیت جانچنے کا روائتی عمل بھی سوالیہ نشان ہے اُور ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ مستقبل میں اِس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی ایسا درمیانی راستہ تلاش کیا جائے جس میں بنا امتحانات اگر طلبہ کی قابلیت کے بارے میں کوئی نتیجہ یا رائے قائم کرنا پڑے تو اُس میں نہ صرف آسانی رہے بلکہ اُن طلبہ کی حق تلفی بھی نہ ہو جو اپنی تعلیم کو زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں اُور سارا سال امتحانات کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔ طلبہ کی وہ تعداد حکومتی فیصلے سے خوش ہے‘ جس کے لئے امتحانات کبھی بھی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا۔ اِس سلسلے میں کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں امتحانات کا نظام رائج نہیں اُور جہاں اساتذہ بچوں کی قابلیت اُن کے روئیوں‘ قول و فعل اُور تعلیمی عمل میں دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ اِس مقصد کے لئے خصوصی کمپیوٹرز سافٹ وئرز کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ بچوں کو ہر سال نئے اساتذہ کے حوالے نہیں کیا جاتا بلکہ کسی تعلیمی ادارے کے پہلے دن سے آخری دن تک اساتذہ اُور طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ سبھی ممالک جن میں طالب علموں کی علمی قابلیت و اہلیت اُور ذہانت کے لئے امتحانات کے علاو ¿ہ معیار مقرر ہیں‘ وہاں سب سے مشکل کام بطور معلم سرکاری ملازمت حاصل کرنا ہے جبکہ پاکستان میں یہ عمل اُلٹ ہے کہ اساتذہ کی بھرتی سب سے آسان اُور طلباءو طالبات کو نصاب کی حد تک محدود رکھتے ہوئے اُن کی امتحانی کارکردگی کے لئے اساتذہ ذمہ دار نہیں ہوتے!
ملک کے دیگر حصوں کی طرح اکثر طلبہ ایک یا دو پرچہ جات کا امتحان نہیں دیتے بلکہ اُس کی بھرپور تیاری کرتے ہیں اُور تین ماہ بعد ضمنی اِمتحان کے ذریعے اپنے نمبر بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عجیب صورتحال ہے کہ امتحانی نظام کے لحاظ سے خیبرپختونخوا واضح طور پر 3 قسم کے طبقات میں تقسیم ہے۔ پہلا طبقہ اُن نجی سکولوں کا ہے جن کی کاروباری حکمت عملی کا حصہ یہ ہے کہ اُن سے وابستہ طلبہ امتحانات میں امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوں۔ دوسرا طبقہ اُن طلبہ کا ہے جو سرکاری و کم معروف نجی سکولوں میں زیرتعلیم ہوتے ہیں اُور اُنہیں امتحانی مرحلے سے درست انداز میں نمٹنے کی تربیت اُور معلومات فراہم نہیں کی جاتی۔ یہ طلبہ ٹیوشن سنٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں‘ جن کی روائتی حکمت عملی کے تحت مرحلہ وار امتحان میں کامیابی دلوائی جاتی ہے اُور طلبہ کا تیسرا طبقہ وہ ہے جن کے لئے تعلیمی عمل اُور امتحانات واجبی نمبروں سے پاس کرنا ہی کافی ہے کیونکہ اُن کی نظریں سرکاری نوکریوں پر لگی ہوتی ہیں بالخصوص جہاں والد کے بعد بیٹے کو ملازمت ملتی ہے۔ درس و تدریس اُور امتحانی عمل کی خامیوں کے باعث پورا نظام تعلیم الجھ گیا ہے اُور اِس کی خرابیاں ایک ایک کر کے سامنے آ رہی ہیں۔ وفاقی حکومت نے طلبہ کو بنا امتحان نئے درجات میں ترقی تو دے دی ہے لیکن خیبرپختونخوا کے ایسے 3 لاکھ سے زیادہ طلبہ کے بارے میں نہیں سوچا گیا جن کے ایک یا دو پرچہ جات کا امتحان ہنوز باقی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ امتحانات کی فیس کی مد میں خیبرپختونخوا کے 8 تعلیمی بورڈز نے 1.7 ارب روپے وصول کر رکھے ہیں اُور اب جبکہ امتحانات کا انعقاد نہیں ہونا تو کیا یہ پیسہ طلبہ کو واپس کیا جائے گا؟
اگر نہیں تو کیا اِس قدر خطیر رقم سے امتحانی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اُن ترقی یافتہ مغربی ممالک کے تجربات کو پاکستان میں رائج کیا جا سکتا ہے جہاں امتحان اور امتحانی نتیجہ (حاصل) کسی طالب علم کی تعلیمی قابلیت‘ اہلیت‘ ذہانت اُور تعلیم میں دلچسپی کا عکاس نہیں ہوتا۔ وقت ہے کہ سوچا جائے اُور سطحی فیصلوں کی بجائے پاکستان میں درس و تدریس کو ایک نصاب اُور ایک نظام کے تحت منظم کرنے کی کوشش کی جائے۔ قوموں کی حالت خودبخود تبدیل نہیں ہوتی۔ تعلیمی نظام کی اصلاح اُور امتحانات کا روائتی نظام بہرصورت نظرثانی کا متقاضی ہے‘ جس کی جانب اگر کورونا وائرس کی مشکل صورتحال میں توجہ مبذول ہوئی ہے تو اِس مشکل سے دیگر مشکلات آسان کرنے کے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے بھرپور فائدہ اُٹھایا جانا چاہئے۔
............
کورونا وائرس کے سبب جہاں پوری قوم امتحان سے گزر رہی ہے وہیں خیبرپختونخوا کے 8 تعلیمی بورڈز نے بناءامتحانات ترقیوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اِس اقدام سے 14 لاکھ 25 ہزار سے زائد دسویں جماعت (میٹرک) اُور انٹرمیڈیٹ (گیارہوں اُور بارہوں جماعتوں) کے طلبا و طالبات نے بظاہر فائدہ اٹھایا ہے لیکن نقصان اٹھانے والوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جس کے لئے صورتحال کو سمجھنا اُور فیصلہ سازوں کے لئے کسی نتیجے پر پہنچنا ایک معمہ دکھائی دے رہا ہے۔ بنا امتحانات ترقیاں دینے کا اقدام وفاقی حکومت کی جانب سے کئے گئے فیصلے کی روشنی میں کیا گیا ہے جو کورونا وائرس کے سبب درس و تدریس کا عمل معطل ہونے کے باعث ہے لیکن یہاں ایک مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تمام طلبا و طالبات جنہوں نے گزشتہ امتحانات میں چند مضامین کے امتحانی پرچے کامیابی سے حل نہیں کئے اُن کی اگلے درجات میں ترقیاں کیسے ہوں۔ سردست طریقہ ¿ کار یہ اختیار کیا گیا ہے کہ بنا اِمتحان ترقی گزشتہ حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر منحصر ہے لیکن جو طلبہ گزشتہ امتحانات میں چند مضامین پاس کرنے میں ناکام رہے‘ اُن کا مستقبل اِس پوری صورتحال میں غیرواضح دکھائی دے رہا ہے!
امتحانات کے ذریعے طلبا و طالبات کی ذہانت اُور قابلیت جانچنے کا روائتی عمل بھی سوالیہ نشان ہے اُور ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ مستقبل میں اِس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی ایسا درمیانی راستہ تلاش کیا جائے جس میں بنا امتحانات اگر طلبہ کی قابلیت کے بارے میں کوئی نتیجہ یا رائے قائم کرنا پڑے تو اُس میں نہ صرف آسانی رہے بلکہ اُن طلبہ کی حق تلفی بھی نہ ہو جو اپنی تعلیم کو زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں اُور سارا سال امتحانات کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔ طلبہ کی وہ تعداد حکومتی فیصلے سے خوش ہے‘ جس کے لئے امتحانات کبھی بھی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا۔ اِس سلسلے میں کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں امتحانات کا نظام رائج نہیں اُور جہاں اساتذہ بچوں کی قابلیت اُن کے روئیوں‘ قول و فعل اُور تعلیمی عمل میں دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ اِس مقصد کے لئے خصوصی کمپیوٹرز سافٹ وئرز کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ بچوں کو ہر سال نئے اساتذہ کے حوالے نہیں کیا جاتا بلکہ کسی تعلیمی ادارے کے پہلے دن سے آخری دن تک اساتذہ اُور طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ سبھی ممالک جن میں طالب علموں کی علمی قابلیت و اہلیت اُور ذہانت کے لئے امتحانات کے علاو ¿ہ معیار مقرر ہیں‘ وہاں سب سے مشکل کام بطور معلم سرکاری ملازمت حاصل کرنا ہے جبکہ پاکستان میں یہ عمل اُلٹ ہے کہ اساتذہ کی بھرتی سب سے آسان اُور طلباءو طالبات کو نصاب کی حد تک محدود رکھتے ہوئے اُن کی امتحانی کارکردگی کے لئے اساتذہ ذمہ دار نہیں ہوتے!
ملک کے دیگر حصوں کی طرح اکثر طلبہ ایک یا دو پرچہ جات کا امتحان نہیں دیتے بلکہ اُس کی بھرپور تیاری کرتے ہیں اُور تین ماہ بعد ضمنی اِمتحان کے ذریعے اپنے نمبر بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عجیب صورتحال ہے کہ امتحانی نظام کے لحاظ سے خیبرپختونخوا واضح طور پر 3 قسم کے طبقات میں تقسیم ہے۔ پہلا طبقہ اُن نجی سکولوں کا ہے جن کی کاروباری حکمت عملی کا حصہ یہ ہے کہ اُن سے وابستہ طلبہ امتحانات میں امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوں۔ دوسرا طبقہ اُن طلبہ کا ہے جو سرکاری و کم معروف نجی سکولوں میں زیرتعلیم ہوتے ہیں اُور اُنہیں امتحانی مرحلے سے درست انداز میں نمٹنے کی تربیت اُور معلومات فراہم نہیں کی جاتی۔ یہ طلبہ ٹیوشن سنٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں‘ جن کی روائتی حکمت عملی کے تحت مرحلہ وار امتحان میں کامیابی دلوائی جاتی ہے اُور طلبہ کا تیسرا طبقہ وہ ہے جن کے لئے تعلیمی عمل اُور امتحانات واجبی نمبروں سے پاس کرنا ہی کافی ہے کیونکہ اُن کی نظریں سرکاری نوکریوں پر لگی ہوتی ہیں بالخصوص جہاں والد کے بعد بیٹے کو ملازمت ملتی ہے۔ درس و تدریس اُور امتحانی عمل کی خامیوں کے باعث پورا نظام تعلیم الجھ گیا ہے اُور اِس کی خرابیاں ایک ایک کر کے سامنے آ رہی ہیں۔ وفاقی حکومت نے طلبہ کو بنا امتحان نئے درجات میں ترقی تو دے دی ہے لیکن خیبرپختونخوا کے ایسے 3 لاکھ سے زیادہ طلبہ کے بارے میں نہیں سوچا گیا جن کے ایک یا دو پرچہ جات کا امتحان ہنوز باقی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ امتحانات کی فیس کی مد میں خیبرپختونخوا کے 8 تعلیمی بورڈز نے 1.7 ارب روپے وصول کر رکھے ہیں اُور اب جبکہ امتحانات کا انعقاد نہیں ہونا تو کیا یہ پیسہ طلبہ کو واپس کیا جائے گا؟
اگر نہیں تو کیا اِس قدر خطیر رقم سے امتحانی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اُن ترقی یافتہ مغربی ممالک کے تجربات کو پاکستان میں رائج کیا جا سکتا ہے جہاں امتحان اور امتحانی نتیجہ (حاصل) کسی طالب علم کی تعلیمی قابلیت‘ اہلیت‘ ذہانت اُور تعلیم میں دلچسپی کا عکاس نہیں ہوتا۔ وقت ہے کہ سوچا جائے اُور سطحی فیصلوں کی بجائے پاکستان میں درس و تدریس کو ایک نصاب اُور ایک نظام کے تحت منظم کرنے کی کوشش کی جائے۔ قوموں کی حالت خودبخود تبدیل نہیں ہوتی۔ تعلیمی نظام کی اصلاح اُور امتحانات کا روائتی نظام بہرصورت نظرثانی کا متقاضی ہے‘ جس کی جانب اگر کورونا وائرس کی مشکل صورتحال میں توجہ مبذول ہوئی ہے تو اِس مشکل سے دیگر مشکلات آسان کرنے کے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے بھرپور فائدہ اُٹھایا جانا چاہئے۔
............
No comments:
Post a Comment