ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
”جانی“ نقصان
”جانی“ نقصان
وہ سخت جان تھا ایسا کہ چیخ بھی نہ سکا: فغاں فغاں تھی جہاں مرگ ناگہانی پر ....
اَحمد اَیاز اب اِس دنیا میں نہیں رہا (اناللہ و انا علیہ راجعون)۔
کم و بیش تین ہفتے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے بعد سات مئی (تیرہویں رمضان المبارک کی) سحری کے اختتام سے چند منٹ قبل اُس کی شہادت سے متعلق مطلع کرتے ہوئے احمد ریاض (مرحوم کے بھائی) کی آواز پر افسوس کا غلبہ تھا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال (پشاور) میں مصنوعی آلہ تنفس (وینٹیلیٹر) کے ذریعے علاج معالجے کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئیں اُور اِس عمل میں گزشتہ چند دنوں سے اہل خانہ کو ملاقات یا اُسے دیکھنے تک کی اجازت نہیں تھی‘ جن کے لئے یہ صدمہ بھی اپنی جگہ کم نہیں۔ وہ ایک عرصے سے زیرعلاج اُور نظروں سے اُوجھل تھا لیکن اُمید تھی کہ خاموش طبع‘ صوم و صلوة کے پابند کا ہمیشہ کی طرح مطمئن چہرہ پھر سے دیکھنے کو ملے گا کیونکہ وہ خوراک کے معاملے میں اِس حد تک محتاط تھا کہ چائے اُور قہوہ جیسے مشروبات بھی ایک خاص حد سے زیادہ استعمال نہیں کرتا تھا۔ محبتیں نچھاوڑ کرنے والے (پچپن سالہ) احمد ایاز کو اہل خانہ اُور عزیزواقارب ’جانی‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ نام والدین کی طرف سے بچپن میں شاید اِس وجہ سے دیا گیا ہوگا کہ اُس کے چہرے سے ہمیشہ ایک ہی طرح کی معصومیت اُور اطمینان چھلکتا تھا۔ ذہن نیشن رہے کہ اہل پشاور کے رہن سہن اُور معاشرت سے متعلق ایک خوبصورت روایت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بچوں کے عرفی نام رکھتے ہیں اُور یہ نام اصل ناموں کی طرح ساری زندگی ایک خاص حلقہ ¿ احباب میں پکارے و مخاطب کئے جاتے ہیں۔ ”جانی“ بھی ایسا ہی خوبصورت اُور مرکب نام تھا جو اندرون پشاور کی یونین کونسل گنج کے محلہ دفتر بنداں میں رہنے والوں کے لئے مانوس اُور ایک ایسی خاموش طبع شخصیت کا حوالہ تھا‘ جسے فٹ بال کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ محلے اُور علاقے کے سارے بچے کرکٹ کے مرض میں مبتلا تھے لیکن جانی کے لئے سوائے فٹ بال کسی دوسرے کھیل میں کشش نہ تھی۔ حتیٰ کہ وہ لوڈو‘ تاش یا کیرم بورڈ جیسے ’اِن ڈور کھیلوں‘ میں بھی اُس وقت بمشکل‘ مختصر اُور بہ امر مجبوری حصہ لیتا‘ جب شادی سے قبل گھر آئے دوست احباب اُسے مجبور کرتے جبکہ شادی کے بعد اُور گنج سے گل بہار منتقل ہونے کے بعد تو اُس کی زندگی اپنے گھر اُور اپنی ذات تک محدود ہو گئی تھی‘ جس کے چکر سے وہ خوشی یا غم کے مواقعوں پر نکلتا۔ دراز قد‘ کھلاڑیوں کی طرح چست جسم اُور سادہ لیکن پروقار لباس کے ساتھ اُس کا چہرے ہمیشہ سپاٹ رہتا۔ جان پہچان والے شخص سے ملنے پر چند ثانیے مسکراہٹ کی آمدورفت میں زیادہ وقفہ نہ ہوتا۔ اُسے دلی جذبات اُور خیالات کے اظہار پر قابو رکھنے جیسی مہارت حاصل تھی۔ کسی معاملے میں اُس کی رائے معلوم کرنا ہوتی تو اُس کے چہرے سے پریشانی کرب کی صورت عیاں ہو جاتی۔
تحمل مزاجی اُس کی عادت‘ خاصہ و تعارف بن چکی تھی۔ وہ ہر معاملے کے تکنیکی پہلوو ¿ں کا باریک بینی سے جائزہ لینے اُور نفاست کا قائل تھا لیکن جس ”ایک غلطی“ نے اُسے چاہنے والوں سے بظاہر اُور جسمانی طور پر الگ کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ اُس نے پشاور میں کورونا وائرس (وبا) کے پھیلنے (26 مارچ سے ماہ ¿ اپریل کے دوسرے ہفتے تک) سماجی دوری اختیار نہیں کی اُور آٹے و اجناس کی تھوک (ہول سیل) و پرچون منڈی‘ رام پورہ گیٹ میں اپنے آبائی کاروبار کی دیکھ بھال حسب معمول کرتا رہا۔ اگرچہ اُس نے شروع دن سے چہرے کو غلاف (ماسک) اُور ہاتھوں کو دستانوں سے ڈھانپ لیا تھا لیکن کاروباری مصروفیات میں (غیردانستہ طور پر) خاطرخواہ احتیاط نہیں کر پایا‘ جو ممکن بھی نہیں کہ اگر کوئی دکاندار ہر روز ایسے سینکڑوں گاہگوں سے روابط رکھتا ہے جو قرب و جوار کے علاو ¿ہ مختلف اضلاع سے پشاور آتے ہیں تو اِحتیاط کے باوجود بھی بچاو ¿ ممکن نہیں رہتا اُور یہی وہ نکتہ ہے جو پشاور کے دیگر کاروباری طبقات بالخصوص اُن تمام دکانداروں کو سمجھنا چاہئے جو جذباتی انداز میں ’لاک ڈاو ¿ن‘ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اُور سمجھتے ہیں کہ اگر تجارتی مراکز اُور بازار حسب معمول کھول دیئے جائیں گے اُور کچھ احتیاط برتی جائے گی تو کورونا وائرس پھیلنے یا لاحق ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا! اَحمد ایاز اُور اِس جیسے دیگر مریضوں کی مثالیں لائق توجہ ہیں‘ جن کی صورت ہونے والا ”جانی نقصان“ اُس ”واجبی منافع“ سے کئی گنا زیادہ (ناقابل تلافی) ہے‘ جس کے بارے میں سوچیں تو افسوس اُور صدمہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
احمد ایاز محنت کش تھا۔
رزق حلال کے لئے اُس کی زندگی کے معمولات میں صبح 9 بجے سے بوقت عصر یا اِس سے کچھ کم زیادہ وقت کے لئے دکان پر رہنا سالہا سال سے معمول رہا‘ جسے ترک کرنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ سردی ہو یا گرمی‘ بارش ہو یا بہار و خزاں‘ اُس کی آمدروفت کے معمولات قریب ایک جیسے ہی رہتے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اہل پشاور کے تاجروں کی اکثریت ایسے ہی معمولات میں اپنی زندگیاں بسر کرتی ہے‘ جو اُوقات میں تو تقسیم ہے لیکن اُس میں بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کا احساس و ادراک شامل نہیں ہوتا۔ احمد ایاز کے لئے کورونا وبا کی ابتدائی علامات (بخار کی شدت‘ خشک کھانسی‘ جسم کے مختلف حصوں میں بیٹھے بٹھائے (بنا تھکاوٹ) درد کا احساس اُور چکھنے کی قوت میں تبدیلی) تشویش کا باعث نہیں تھیں۔ اُس نے مختلف علاج آزمائے۔ گھریلو ٹوٹکوں سے ڈسپنسر اُور علاقے کے مختلف ڈاکٹروں سے بتدریج رجوع کیا لیکن کورونا وائرس کے علاو ¿ہ اُس کے دیگر تجزیئے (ٹیسٹ) کروائے گئے اُور آخری مرتبہ اُس نے ’بازارِ کلاں‘ کے جس انتہائی معروف و تجربہ کار ماہر معالج (اسپیشلسٹ) سے رجوع کیا تو اُس بھی نے نمونیہ کی تشخیص کرتے ہوئے ایسی ادویات (تیز اثر کرنے والی انٹی بائیوٹکس) تجویز کیں‘ جن کے استعمال سے اُس کی جسمانی قوت مدافعت ’کورونا وائرس‘ کے ممکنہ علاج والی ادویات کے مقابلے حائل ہوگئی۔ انتہائی نگہداشت میں علاج شروع ہوا تو ابتدائی مراحل میں اُس کی رگوں میں پہلے سے موجود ادویات کی صفائی کرنا تھی تاکہ ہلکی طاقت والی متعلقہ انٹی بائیوٹکس سے دی جا سکیں‘ جن کا استعمال کورونا وائرس کے خلاف کارگر ثابت ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اپنی اِس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوئے اِس کی تفصیلات تو موجود نہیں لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ احمد ایاز اب اِس دنیا میں نہیں رہا۔ دیگر مریضوں کی طرح وبا سے متاثر ہونے اُور اِس کا شکار بننے جیسے مراحل جان لیوا نہ ہوتے اگر بروقت کورونا وائرس کی تشخیص ہو جاتی۔ اُسے بیماری کی اُس آخری حالت میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا گیا جبکہ وہ بیہوش تھا اُور اُس کے علاج معالجے کی تمام کوششیں اُور اہل خانہ و عزیزواقارب کی دعائیں کام نہ آسکیں۔ درحقیقت یہ کسی طریقہ علاج کی ناکامی اُور کسی وبا کی کامیابی نہیں بلکہ اِس حقیقت سے انکار اُور اِس متعلق شعور کی کمی ہے کہ کورونا وائرس جان لیوا ہو سکتا ہے اگر معمولات ترک کرکے سماجی دوری اختیار نہ کی جائے۔
احمد ایاز مستحق تھا کہ اُس کی آخری رسومات میں غم زدہ اہل خانہ کے ہمراہ عزیزواقارب اُور دوست احباب بڑی تعداد میں شریک ہوتے‘ اُس کی تدفین اُن خاص قواعد (SOPs) کے تحت کی گئی ہے جبکہ بڑے جنازے جیسے دعائیہ اجتماع اُور آخری دیدار جیسے اعمال بامعنی و بامقصد ہوتے ہیں۔ احمد ایاز کے لئے نمازِ وحشت قبر کی ادائیگی کرتے ہوئے چند آنسو اُس دائمی حسرت کے نام رہے کہ اُسے شایان شان طریقے الوداع نہیں کیا جا سکا۔
”جائے عبرت سرائے فانی ہے .... مورد مرگ ناگہانی ہے (مرزا شوق لکھنوی)۔“

اَحمد اَیاز اب اِس دنیا میں نہیں رہا (اناللہ و انا علیہ راجعون)۔
کم و بیش تین ہفتے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے بعد سات مئی (تیرہویں رمضان المبارک کی) سحری کے اختتام سے چند منٹ قبل اُس کی شہادت سے متعلق مطلع کرتے ہوئے احمد ریاض (مرحوم کے بھائی) کی آواز پر افسوس کا غلبہ تھا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال (پشاور) میں مصنوعی آلہ تنفس (وینٹیلیٹر) کے ذریعے علاج معالجے کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئیں اُور اِس عمل میں گزشتہ چند دنوں سے اہل خانہ کو ملاقات یا اُسے دیکھنے تک کی اجازت نہیں تھی‘ جن کے لئے یہ صدمہ بھی اپنی جگہ کم نہیں۔ وہ ایک عرصے سے زیرعلاج اُور نظروں سے اُوجھل تھا لیکن اُمید تھی کہ خاموش طبع‘ صوم و صلوة کے پابند کا ہمیشہ کی طرح مطمئن چہرہ پھر سے دیکھنے کو ملے گا کیونکہ وہ خوراک کے معاملے میں اِس حد تک محتاط تھا کہ چائے اُور قہوہ جیسے مشروبات بھی ایک خاص حد سے زیادہ استعمال نہیں کرتا تھا۔ محبتیں نچھاوڑ کرنے والے (پچپن سالہ) احمد ایاز کو اہل خانہ اُور عزیزواقارب ’جانی‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ نام والدین کی طرف سے بچپن میں شاید اِس وجہ سے دیا گیا ہوگا کہ اُس کے چہرے سے ہمیشہ ایک ہی طرح کی معصومیت اُور اطمینان چھلکتا تھا۔ ذہن نیشن رہے کہ اہل پشاور کے رہن سہن اُور معاشرت سے متعلق ایک خوبصورت روایت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بچوں کے عرفی نام رکھتے ہیں اُور یہ نام اصل ناموں کی طرح ساری زندگی ایک خاص حلقہ ¿ احباب میں پکارے و مخاطب کئے جاتے ہیں۔ ”جانی“ بھی ایسا ہی خوبصورت اُور مرکب نام تھا جو اندرون پشاور کی یونین کونسل گنج کے محلہ دفتر بنداں میں رہنے والوں کے لئے مانوس اُور ایک ایسی خاموش طبع شخصیت کا حوالہ تھا‘ جسے فٹ بال کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ محلے اُور علاقے کے سارے بچے کرکٹ کے مرض میں مبتلا تھے لیکن جانی کے لئے سوائے فٹ بال کسی دوسرے کھیل میں کشش نہ تھی۔ حتیٰ کہ وہ لوڈو‘ تاش یا کیرم بورڈ جیسے ’اِن ڈور کھیلوں‘ میں بھی اُس وقت بمشکل‘ مختصر اُور بہ امر مجبوری حصہ لیتا‘ جب شادی سے قبل گھر آئے دوست احباب اُسے مجبور کرتے جبکہ شادی کے بعد اُور گنج سے گل بہار منتقل ہونے کے بعد تو اُس کی زندگی اپنے گھر اُور اپنی ذات تک محدود ہو گئی تھی‘ جس کے چکر سے وہ خوشی یا غم کے مواقعوں پر نکلتا۔ دراز قد‘ کھلاڑیوں کی طرح چست جسم اُور سادہ لیکن پروقار لباس کے ساتھ اُس کا چہرے ہمیشہ سپاٹ رہتا۔ جان پہچان والے شخص سے ملنے پر چند ثانیے مسکراہٹ کی آمدورفت میں زیادہ وقفہ نہ ہوتا۔ اُسے دلی جذبات اُور خیالات کے اظہار پر قابو رکھنے جیسی مہارت حاصل تھی۔ کسی معاملے میں اُس کی رائے معلوم کرنا ہوتی تو اُس کے چہرے سے پریشانی کرب کی صورت عیاں ہو جاتی۔
تحمل مزاجی اُس کی عادت‘ خاصہ و تعارف بن چکی تھی۔ وہ ہر معاملے کے تکنیکی پہلوو ¿ں کا باریک بینی سے جائزہ لینے اُور نفاست کا قائل تھا لیکن جس ”ایک غلطی“ نے اُسے چاہنے والوں سے بظاہر اُور جسمانی طور پر الگ کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ اُس نے پشاور میں کورونا وائرس (وبا) کے پھیلنے (26 مارچ سے ماہ ¿ اپریل کے دوسرے ہفتے تک) سماجی دوری اختیار نہیں کی اُور آٹے و اجناس کی تھوک (ہول سیل) و پرچون منڈی‘ رام پورہ گیٹ میں اپنے آبائی کاروبار کی دیکھ بھال حسب معمول کرتا رہا۔ اگرچہ اُس نے شروع دن سے چہرے کو غلاف (ماسک) اُور ہاتھوں کو دستانوں سے ڈھانپ لیا تھا لیکن کاروباری مصروفیات میں (غیردانستہ طور پر) خاطرخواہ احتیاط نہیں کر پایا‘ جو ممکن بھی نہیں کہ اگر کوئی دکاندار ہر روز ایسے سینکڑوں گاہگوں سے روابط رکھتا ہے جو قرب و جوار کے علاو ¿ہ مختلف اضلاع سے پشاور آتے ہیں تو اِحتیاط کے باوجود بھی بچاو ¿ ممکن نہیں رہتا اُور یہی وہ نکتہ ہے جو پشاور کے دیگر کاروباری طبقات بالخصوص اُن تمام دکانداروں کو سمجھنا چاہئے جو جذباتی انداز میں ’لاک ڈاو ¿ن‘ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اُور سمجھتے ہیں کہ اگر تجارتی مراکز اُور بازار حسب معمول کھول دیئے جائیں گے اُور کچھ احتیاط برتی جائے گی تو کورونا وائرس پھیلنے یا لاحق ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا! اَحمد ایاز اُور اِس جیسے دیگر مریضوں کی مثالیں لائق توجہ ہیں‘ جن کی صورت ہونے والا ”جانی نقصان“ اُس ”واجبی منافع“ سے کئی گنا زیادہ (ناقابل تلافی) ہے‘ جس کے بارے میں سوچیں تو افسوس اُور صدمہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
احمد ایاز محنت کش تھا۔
رزق حلال کے لئے اُس کی زندگی کے معمولات میں صبح 9 بجے سے بوقت عصر یا اِس سے کچھ کم زیادہ وقت کے لئے دکان پر رہنا سالہا سال سے معمول رہا‘ جسے ترک کرنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ سردی ہو یا گرمی‘ بارش ہو یا بہار و خزاں‘ اُس کی آمدروفت کے معمولات قریب ایک جیسے ہی رہتے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اہل پشاور کے تاجروں کی اکثریت ایسے ہی معمولات میں اپنی زندگیاں بسر کرتی ہے‘ جو اُوقات میں تو تقسیم ہے لیکن اُس میں بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کا احساس و ادراک شامل نہیں ہوتا۔ احمد ایاز کے لئے کورونا وبا کی ابتدائی علامات (بخار کی شدت‘ خشک کھانسی‘ جسم کے مختلف حصوں میں بیٹھے بٹھائے (بنا تھکاوٹ) درد کا احساس اُور چکھنے کی قوت میں تبدیلی) تشویش کا باعث نہیں تھیں۔ اُس نے مختلف علاج آزمائے۔ گھریلو ٹوٹکوں سے ڈسپنسر اُور علاقے کے مختلف ڈاکٹروں سے بتدریج رجوع کیا لیکن کورونا وائرس کے علاو ¿ہ اُس کے دیگر تجزیئے (ٹیسٹ) کروائے گئے اُور آخری مرتبہ اُس نے ’بازارِ کلاں‘ کے جس انتہائی معروف و تجربہ کار ماہر معالج (اسپیشلسٹ) سے رجوع کیا تو اُس بھی نے نمونیہ کی تشخیص کرتے ہوئے ایسی ادویات (تیز اثر کرنے والی انٹی بائیوٹکس) تجویز کیں‘ جن کے استعمال سے اُس کی جسمانی قوت مدافعت ’کورونا وائرس‘ کے ممکنہ علاج والی ادویات کے مقابلے حائل ہوگئی۔ انتہائی نگہداشت میں علاج شروع ہوا تو ابتدائی مراحل میں اُس کی رگوں میں پہلے سے موجود ادویات کی صفائی کرنا تھی تاکہ ہلکی طاقت والی متعلقہ انٹی بائیوٹکس سے دی جا سکیں‘ جن کا استعمال کورونا وائرس کے خلاف کارگر ثابت ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اپنی اِس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوئے اِس کی تفصیلات تو موجود نہیں لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ احمد ایاز اب اِس دنیا میں نہیں رہا۔ دیگر مریضوں کی طرح وبا سے متاثر ہونے اُور اِس کا شکار بننے جیسے مراحل جان لیوا نہ ہوتے اگر بروقت کورونا وائرس کی تشخیص ہو جاتی۔ اُسے بیماری کی اُس آخری حالت میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا گیا جبکہ وہ بیہوش تھا اُور اُس کے علاج معالجے کی تمام کوششیں اُور اہل خانہ و عزیزواقارب کی دعائیں کام نہ آسکیں۔ درحقیقت یہ کسی طریقہ علاج کی ناکامی اُور کسی وبا کی کامیابی نہیں بلکہ اِس حقیقت سے انکار اُور اِس متعلق شعور کی کمی ہے کہ کورونا وائرس جان لیوا ہو سکتا ہے اگر معمولات ترک کرکے سماجی دوری اختیار نہ کی جائے۔
احمد ایاز مستحق تھا کہ اُس کی آخری رسومات میں غم زدہ اہل خانہ کے ہمراہ عزیزواقارب اُور دوست احباب بڑی تعداد میں شریک ہوتے‘ اُس کی تدفین اُن خاص قواعد (SOPs) کے تحت کی گئی ہے جبکہ بڑے جنازے جیسے دعائیہ اجتماع اُور آخری دیدار جیسے اعمال بامعنی و بامقصد ہوتے ہیں۔ احمد ایاز کے لئے نمازِ وحشت قبر کی ادائیگی کرتے ہوئے چند آنسو اُس دائمی حسرت کے نام رہے کہ اُسے شایان شان طریقے الوداع نہیں کیا جا سکا۔
”جائے عبرت سرائے فانی ہے .... مورد مرگ ناگہانی ہے (مرزا شوق لکھنوی)۔“

![]() |
Clipping from Daily Aaj - Editorial Page - May 08, 2020 Friday |
![]() |
Clipping from Daily Aaj Editorial Page May 08 2020 Friday |
No comments:
Post a Comment