ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پراسرار پشاور: بیجو دی قبر!
جنوب مشرق ایشیا کے قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ’پشاور‘ کے کئی ایک ایسے اسرار اُور ابواب ہیں‘ جن سے بالخصوص نئی نسل تو کیا یہاں کے قدیمی باشندے بھی شناسا نہیں اُور اِنہی میں سے ایک ’درانی قبرستان‘ ہے‘ جہاں کم سے کم 2 قدیمی مساجد آج بھی نسبتاً بہتر حالت میں موجود ہیں جبکہ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والوں کے مزارات کی شان و شوکت اگرچہ ویسی نہیں رہی لیکن اُن کی باقیات کو دیکھ کر تصور کیا جاسکتا تھا کہ وہ ایک وقت میں کس قدر خوبصورت رہی ہوں گے اُور قبرستان و اِس سے ملحقہ علاقہ کس قدر اہم رہا ہو گا۔
معروف تاریخ داں ڈاکٹر احمد حسن دانی نے اپنی کتاب ”پشاور: ہسٹوریکل سٹی آف دی فرنٹیئر (Peshawar: Historical City of the Frontier) میں درانی قبرستان کا ذکر کیا ہے۔ اُن نے لکھا کہ ”درانیوں کے قبرستان میں اینٹوں سے بنی ہوئی 2 مساجد ہیں۔ ایک مسجد بزرگ دین شیخ حبیبؒ کے مزار کے پاس ہے جو حافظ مراد نے 1725ءمیں تعمیر کروائی تھی۔ اِس مسجد کی خاص بات فن تعمیر ہے جو یہاں پہلے سے موجود مساجد سے مختلف اُور زیادہ محنت و خوبصورتی کا مظہر ہے۔ دوسری مسجد 1796ءمیں شیخ ایواز (Shaikh Iwaz) نے درانیوں کے دور حکومت ہی میں تعمیر کروائی تھی۔ ذہن نشین رہے کہ درانی سلطنت کا آغاز 1747ءمیں ہوا تھا اُور یہ 1826ءتک جاری رہا تھا جن کے بانی احمد شاہ درانی تھے۔ اُنہوں نے جون 1747ءمیں نادر خان افشر کو قندھار (افغانستان) میںشکست دے کر سلطنت قائم کی۔ یہ سلطنت اِس قدر تیزی سے پھیلی کہ ایک ہی سال اِس کا ایک سرا بلوچستان (پاکستان) سے لیکر غزنی‘ کابل اُور پشاور تک پھیل گیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ درانی قبرستان پشاور میں موجودہ شاہی قبروں کے کتبے اُور اُن پر لگی سنگ مرمر و دیگر پتھروں کی سلیں تک اکھاڑ (چوری) لی گئیں۔ اِس سلسلے میں سردار محمد ایوب خان کی قبر سب سے نمایاں خسارہ ہے‘ جو معروف میوند کی جنگ کے فاتح تھے اُور اُنہیں پشاور لا کر آسودہ ¿ خاک کیا گیا۔ کون جانتا تھا کہ دنیا کے چند بہادر ترین فوجیوں میں شمار ہونے والے اِس سپاہ سالار کی قبر کبھی خستگی کی یوں تصویر پیش کرے گی۔ مقام فکر ہے کہ ہمارے بچوں کے ہیرو فلمی اداکار بن چکے ہیں‘ جبکہ اُنہیں تاریخ سے لگاو ¿ نہیں رہا اُور اگر ذرائع ابلاغ (بلخصوص اخبارات) تاریخ کے بیان کو مستقل موضوع بنائیں تو ممکن ہے کہ تاریخ (ماضی) سے ٹوٹا ہوا رشتہ بحال ہو جائے۔
درانی قبرستان کے ایک حصے میں ’بیجو دی قبر‘ کے نام سے مشہور ایک مقبرہ اپنی تعمیرکے لحاظ سے انتہائی سادہ لیکن اپنی مثال آپ ہے۔ محبت کی اِس لازوال کہانی کا آغاز 1772ءسے ہوا جب تیمور شاہ درانی افغانستان کا بادشاہ تھا۔ وہ اُس بہادر سپاہی کا فرزند تھا جس نے مرہٹوں کے خلاف برصغیر میں جنگ جیتی تھی۔ سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی درانی بادشاہوں کی طرح تیمور شاہ پشاور کا رخ کرتا کیونکہ اُن دنوں افغانستان میں سردی کی شدت زیادہ ہوا کرتی تھی اُور آج بھی پاکستان کی نسبت کابل کی آب و ہوا موسم سرما میں زیادہ شدید ہوتی ہے۔
1780ءمیں تیمور شاہ پشاور آیا تو یہ معمولی بات نہیں تھی بلکہ بادشاہوں کے پشاور آنے کے موقع پر سینکڑوں ہاتھیوں اُور گھوڑوں پر مشتمل قافلے پوری شان و شوکت سے وارد ہوا کرتے تھے اُور اُس دور کی چند محفوظ تصاویر میں دیکھنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب بادشاہوں کے قافلے پشاور پہنچتے تھے تو اِس شہر کا ماحول کس قدر تبدیل ہو جایا کرتا تھا اُور پشاور کے بازاروں اُور راستوں کو سجانے کی وجہ سے یہاں کی رونقوں (گہما گہمی) میں کس قدر اضافہ دیکھنے میں آتا تھا۔ تیمور شاہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ پشاور پہنچا۔ ملکہ ¿ اول چونکہ حسب و نسب سے شاہی تھی اُس کی دوسری بیوی محترمہ بی بی جان تھی جو خوبصورت ہونے کے ساتھ انتہا درجے کی ذہین خاتون تھیں اُور یہی وجہ تھی کہ تیمور شاہ اُن سے امور سلطنت کے بارے مشورہ لیا کرتا تھا جبکہ اِس کی وجہ سے شاہی خاندان کے دیگر افراد بی بھی جان سے حسد کرتے تھے۔ تیمور شاہ کی پہلی بیوی کی نسبت دوسری بیوی (بی بی جان) سے زیادہ محبت بھی عداوت کا ایک سبب تھی اُور یوں بی بی جان کو شربت میں تھوڑا تھوڑا کر کے زہر دیا جانے لگا‘ جس سے وہ کمزور ہوتی چلی گئی اُور بالآخر اِسی زہرخوری (مرض) کی وجہ سے اُس کی موت ہو گئی۔ جب تیمور شاہ کو بی بی جان کی خراب ہوتی طبیعت کا علم ہوا تو اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ تیمور شاہ جو کہ شاہی باغ میں قیام کرتا تھا اُور شاہی باغ ہی میں بی بی جان کی موت بھی ہوئی تھی تو اُن سے محبت کی یادگار کے طور پر اُن کا مزار (شہر کے جنوب میں) ’وزیرباغ‘ کے قریب بنوایا۔
تیمور شاہ بہت غمزدہ تھا اُور وہ طویل عرصے اِس غم میں امور سلطنت سے الگ بھی رہا تاہم بعد میں وقت کے ساتھ قافلے آگے بڑھ گئے۔
شاہی عشق کی جو لازوال داستان پشاور میں اختتام پذیر ہوئی تھی اُس کی یادگار (مزار) قائم ہونے کے بعد بھی شاہی خاندان کے افراد کی بی بی جان مرحومہ سے حسد و عداوت ختم نہ ہوئی اُور اُنہوں نے بی بی جان کو بیجو (بندریا) کے نام سے مشہور کر دیا کہ مذکورہ مزار میں کوئی انسان نہیں بلکہ ایک بندریا کی قبر ہے اُور چونکہ یہ منظم انداز میں اُڑائی گئی افواہ تھی‘ اِس لئے صرف پشاور ہی نہیں بلکہ پوری سلطنت میں پھیلا دی گئی اُور تاریخ میں بھی اِس کا زیادہ تذکرہ (چرچا) درج ہونے نہیں دیا گیا۔ بی بی جان سے متعلق اگرچہ تاریخ خاموش ہے لیکن اُن کے اوصاف بشمول ذہانت کا تذکرہ سینہ بہ سینہ چلا آ رہا ہے لیکن اُس کی مثالیں اُور واقعات کا تفصیلاً و مستند ذکر موجود نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ عہد حاضر کے بہت سے نامور تاریخ داں بھی ’بی بی جان‘ کو ’فرضی کہانی‘ ہی سمجھتے ہیں۔
بی بی جان ایک حقیقت تھی اُور پشاور کے درخشاں ماضی اُور یہاں کی تاریخ کا روشن باب اُور حوالہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اہل پشاور اپنے بچوں کو وہ سبھی قصے کہانیاں سنائیں‘ جو اُن کے آبائی شہر کے ماضی سے متعلق ہیں اُور انہیں اِن مقامات کی سیر کے لئے بھی لے جائیں۔ بی بی جان مرحومہ کا اہل پشاور پر اتنا حق تو ہے کہ اُس کی قبر پر ایک عدد فاتحہ کے لئے حاضری دیا کریں یا کم سے کم سے وہاں سے گزرتے ہوئے اُسے یاد کر لیا کریں۔
یہی مرحلہ فکر دعوت دیتا ہے کہ اہل پشاور آثار قدیمہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے اِس بات کا احساس کیا جائے کہ آثار قدیمہ کی اہمیت‘ اِس کی آئینی حفاظت اُور اِن کے ساتھ سماجی طور پر زندگی بسر کرنے کا مفہوم اپنی ذات میں کیا ہے اُور اِس سے کیا کچھ ذمہ داریاں جڑی ہوئی ہیں۔
یہی مرحلہ فکر متقاضی ہے کہ ’پشاور شناسی‘ عام کی جائے۔
اغیار کی لکھی ہوئی تاریخ یا تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں صرف اُسی صورت ناکام ہو سکتی ہیں جبکہ حکومت اُور حکومتی ادارے اپنا کردار ادا کریں۔
اہل پشاور بالخصوص اندرون شہر اُور شہر کے اُن حصوں میں رہنے والوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تاریخ کے بھولے بسرے واقعات کے بارے بھی اپنی معلومات درست کریں۔ یہ کہانیاں صرف واقعات نہیں بلکہ پشاور کی تاریخ کا جز ہیں‘ یہاں کے رہنے والوں کے محبت بھرے مزاج کی عکاس ہیں۔ یہاں پلنے والی حسد و عداوات کا بیان بھی ہیں‘ جنہیں انسانی رشتے داریوں کے تناظر میں سمجھنا اُور بیان کرنا قطعی مشکل نہیں۔ بی بی جان کی قبر توجہ چاہتی ہے کہ اِسے بحال کیا جائے۔ پشاور سراپا محبت اُور محبت کرنے والوں کا مسکن رہا ہے۔ یہاں محبت کی ایک نشانی (مقبرہ بی بی جان المعروف بیجو دی قبر) الفت و حسد سے متعلق بیان اُور تاریخ پشاور کی تمہید کے طور پر ازبر‘ پیش اُور دستاویز (محفوظ) ہونی چاہئے۔
........
![]() |
Daily Aaj Editorial Page June 14, 2020 |
No comments:
Post a Comment