ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
گھاٹے کا سودا
وفاقی کابینہ اجلاس (اکیس مئی) نے ’شوگر کمیشن رپورٹ‘ منظرعام پر لانے کی منظوری دی جس سے قبل کسی بھی اِدارے اُور چینی ساز صنعتوں کو تحقیقات پر اِس قدر اعتراضات نہ ہوئے کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ پھر اِس دوسرا مرحلے پر جبکہ تحقیقاتی رپورٹ صیغہ راز میں نہ رکھنے کا فیصلہ ہوا تو اِس پر شوگر ملز مالکان خاموش رہے کیونکہ وہ ماضی میں بھی اِس قسم کی تحقیقات سے نمٹ چکے تھے اُور یہ بات صرف صنعتکار ہی نہیں بلکہ عام پاکستانی بھی جانتا ہے کہ سرمایہ داروں اُور صنعتکاروں کے خلاف اِس قسم کی تحقیقات ہر دور حکومت میں ہوتی رہتی ہیں لیکن اوّل تو یہ تحقیقات اِس انداز سے کی جاتی ہیں کہ اِس میں فائدہ اُٹھانے والے فریق (نجی کاروباری طبقات کا) فائدہ ہو اُور دوسرا اِس قسم کی رپورٹیں خفیہ رکھی جاتی ہیں جن کے صفحات میں کیا لکھا ہوتا ہے اِس بارے میں عام آدمی (ہم عوام) کو زیادہ معلومات نہیں ہو سکتیں اُور تیسرا تحقیقات مکمل ہونے کے بعد نامزد اداروں کے خلاف کاروائی نہ کرنا بھی ایک معمول ہے لیکن تحریک انصاف ماضی کی حکومتوں سے قطعی مختلف ثابت ہوئی۔ ملک میں چینی کی قلت‘ قیمت میں اضافے اُور حکومت کی جانب سے شوگر ملوں کو دی جانے والی سبسڈی کے بارے میں تحقیقات کروائی گئیں اُور یہ بنا سیاسی دباو ¿ اپنے مقررہ وقت (تین ماہ میں) مکمل ہوئیں۔ مذکورہ تحقیقات کی روشنی میں سامنے آنے والی جملہ سفارشات منظرعام پر ہیں تو کیا کیونکہ سزا و جزا دیکھنے میں نہیں آ رہی؟
چینی تحقیقاتی کمیشن کی سفارشات سے متعلق 7 جون کے روز فیصلہ ہوا کہ اِنہیں قومی احتساب بیورو کے حوالے کیا جائے گا تاکہ جو شوگر ملیں دروغ گوئی سے اربوں روپے بطور سبسڈی وصول کرتی رہی ہیں‘ جنہیں ناجائز منافع خوری کی عادت پڑ چکی ہے‘ جن کی ٹیکس چوری اُور غیرقانونی کاروباری دھندوں سے ہر خاص و عام کسی نہ کسی صورت آگاہ ہے لیکن ابھی بدعنوانی کے الزامات کے تحت قانون کے مطابق کاروائی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ شوگرملز مالکان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا اُور نہ صرف ممکنہ کاروائی اُور مزید بدنامی کا راستہ روک لیا بلکہ اُس پورے تحقیقاتی عمل کو ہی دفن کر دیا ہے‘ جس کے ذریعے سے پہلی مرتبہ یہ اُمید ہو چلی تھی کہ چینی کی آڑ میں عوام کو لوٹنے والوں کا اِحتساب ہوگا اُور بات صرف چینی تک محدود نہیں رہے گی۔ یہ بھی توقع تھی کہ عوام کو چینی جیسی بنیادی اُور ضروری جنس اِس کی اصل قیمت پر ملنا شروع ہو گی لیکن عدالت نے یہاں دخل اندازی کر کے اپنی طرف سے قیمت مقرر کر دی جو عدالت کا اختیار ہی نہیں اُور نہ ہی تحقیقاتی رپورٹ سے مطابقت رکھتا ہے۔ اِس مضحکہ خیز صورتحال نے ’خراب طرز حکمرانی‘ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے کہ ایک تو حکومت اپنے فیصلوں کو صیغہ ¿ راز میں نہیں رکھ پائی جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے شوگرملز مالکان نے جو ہر مرتبہ حکومت سے ریلیف حاصل کیا کرتے تھے اُور دوسرا اِس مرتبہ اگر حکومت کچھ کرنا چاہتی ہے تو عدالت شوگرملز کے لئے بطور نجات دہندہ سامنے آئی ہے۔ اگر کسی عام آدمی کے خلاف قانونی کاروائی کرنا ہوتی ہے تو اُسے کان کان خبر بھی نہیں ہوتی اُور نامعلوم افراد اُسے اُٹھا لے جاتے ہیں جبکہ (اربوں روپے کی بدعنوانی کے پچاس سالہ دور سے متعلق) شوگر ملز کے معاملے میں حکومت‘ احتساب کا عمل‘ قانون نافذ کرنے والے ادارے اُور عدالت نے کسی نہ کسی مرحلے پر سہولت کاری کر رہے ہیں! اصولاً عدالت کو درخواست واپس کر دینا چاہئے تھا اُور اِس کے لئے ”ایگزیکٹو معاملات میں مداخلت نہ کرنا“ اپنی جگہ مضبوط و کافی دلیل تھی۔
شوگر مل مالکان کی درخواست کے جواب میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کچھ سوالات اٹھائے اُور پھر خود ہی اِن سوالات کا جواب بھی کہیں واضح تو کہیں لیکن ’اَن کہے‘ اَنداز میں دیا ہے۔ شوگر انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں صنعتی اجارہ داری کے غلط استعمال کا الزام لگایا گیا جس کی وجہ سے پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں نہ صرف اضافہ دیکھنے میں آ رہا تھا بلکہ شوگر ملز نے قیمتوں کے تعین کو بھی عملاً اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ اگرچہ عدالت نے 10 دن کے لئے حکم امتناعی جاری کیا لیکن یہ 10دن گویا 10سال جیسا ریلیف دینا ہے کیونکہ اِس دوران کروڑوں روپے فیس وصول کرنے والے وکیل نہ صرف اپنی قانونی مہارت دکھائیں گے بلکہ پس پردہ معاملات بھی طے پانے کے لئے دس دن کی مہلت بہت ہے۔ جن شوگر ملز مالکان کو کم سے کم 29 ارب روپے لی گئی سبسڈی واپس کرنے سے بچانی ہے اگر وہ دس پندرہ ارب خرچ بھی کر دیں اُور سبسڈی لینے کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے چینی کی قیمتوں کے تعین کا اپنا اختیار بھی برقرار رکھیں تو یہ قطعی گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ خسارہ اگر کسی کا ہوا ہے اُور ہو رہا ہے تو وہ ہم عوام ہیں‘ جن کی نظروں میں حکومت‘ قومی احتساب بیورو‘ خفیہ اُور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ساتھ عدالت بھی ایک ہی صف میں صنعتکاروں کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ یقینا یہ درست تاثر نہیں اُور نہ ہی ایک اسلامی اُور جمہوری مملکت کے شایان ہے!
شوگر ملز نے عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ 70 روپے فی کلوگرام چینی فروخت کریں گے جبکہ شوگر کمیشن کی رپورٹ میں چینی بنانے اُور اُس کی نقل و حمل (منڈیوں کو فراہمی پر اُٹھنے والے اخراجات کے بعد فی کلوگرام چینی کی قیمت 30 سے 40 روپے کے درمیان معلوم ہوتی ہے اگر بہت زیادہ منافع بھی دیا جائے تو اضافی 10 روپے کے ساتھ 50 روپے فی کلوگرام چینی ہونی چاہئے اُور سال 2019ءمیں چینی اِسی قیمت پر فروخت ہوتی تھی تو اب کیوں نہیں؟
معلوم ہوتا ہے کہ انکوائری کمیشن کے خلاف پوری چینی کی صنعت جملہ ہتھیاروں یعنی نوٹوں سے بھری بوریوں کے منہ کھول کر میدان میں اُتر آئی ہے۔ تنازعہ کا بنیادی نکتہ وفاقی حکومت کا منظور کردہ 2017کا قانون ہے جس کے تحت آئینی مینڈیٹ اور تحقیقات کے لئے فیڈرل کمیشن آف انکوائری کے بارے میں اعتراض اُٹھایا گیا ہے۔ شوگر انڈسٹری کا دعویٰ ہے کہ کمیشن نے اُن معاملات میں دخل اندازی کی جو درحقیقت صوبوں کے ایگزیکٹو اور قانون سازی سے متعلق اختیارات ہیں۔
غورطلب ہے اعتراض کا نکتہ کیا ہے اُور یہ نہیں کہا جا رہا کہ جو کچھ تحقیقاتی کمیشن نے لکھا ہے وہ غلط ہے لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ تحقیقات کرنے کا اختیار نہیں تھا! شروع دن سے تشنگی محسوس ہو رہی ہے اُور واضح ہے کہ کمیشن کی 324صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ابھی بہت سارے نکات اُور پہلوو ¿ں کو شامل نہیں کیا گیا جو شامل ہونے چاہیئں اُور اگر عدالت عوام کے حق میں ہوتی تو اُن سبھی پہلوو ¿ں پر بھی تحقیقات کا حکم صادر کر سکتی تھی۔ بہرحال شوگر تحقیقاتی کمیشن نے اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کر دی ہے اُور تجویز کیا ہے کہ وہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے لیکن یہ کاروائی کون کرے گا اُور کیسے ممکن ہوگی‘ یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی!؟
غورطلب ہے اعتراض کا نکتہ کیا ہے اُور یہ نہیں کہا جا رہا کہ جو کچھ تحقیقاتی کمیشن نے لکھا ہے وہ غلط ہے لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ تحقیقات کرنے کا اختیار نہیں تھا! شروع دن سے تشنگی محسوس ہو رہی ہے اُور واضح ہے کہ کمیشن کی 324صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ابھی بہت سارے نکات اُور پہلوو ¿ں کو شامل نہیں کیا گیا جو شامل ہونے چاہیئں اُور اگر عدالت عوام کے حق میں ہوتی تو اُن سبھی پہلوو ¿ں پر بھی تحقیقات کا حکم صادر کر سکتی تھی۔ بہرحال شوگر تحقیقاتی کمیشن نے اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کر دی ہے اُور تجویز کیا ہے کہ وہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے لیکن یہ کاروائی کون کرے گا اُور کیسے ممکن ہوگی‘ یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی!؟
............
No comments:
Post a Comment