Sunday, June 21, 2020

IN-OBSERVANCE: May I know why?

بے خبری
ماضی کی طرح موجودہ وفاقی اُور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ہر روز‘ بلاناغہ‘ مہنگائی کی شرح پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے پاس روائتی بیانات کو نئے اَنداز میں پیش کرنے کے لئے الفاظ ختم ہو گئے ہیں۔ دعویٰ ہے کہ گراں فروشی کی اِجازت نہیں دی جائے گی۔ ذخیرہ اَندوزوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ وزیراعظم نے مہنگائی کا نوٹس لے لیا ہے۔ خصوصی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ .... صورتحال یہ ہے کہ حکمراں برہم اُور عوام پریشان ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اِس پوری صورتحال سے فائدہ کون اُٹھا رہا ہے؟

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات عام آدمی (ہم عوام) تک کب پہنچیں گے؟ 
چینی کمیشن رپورٹ اُور گندم کی ذخیرہ اندوزی سے متعلق حکومتی تحقیقات کے ثمرات کب ظاہر ہوں گے؟ 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر ملز مالکان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات دائر کرنے پر حکم امتناعی (سٹے آرڈر) جاری کر کے جس انداز سے عوام کی نظروں میں اپنا مقام بلند کیا ہے‘ وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے سیاہ ابواب میں رقم ہو چکا ہے۔ کیا اب بھی ہم عوام نہیں سمجھ سکے کہ جمہوریت اُور جمہوریت کے نام قائم ہونے والی سیاسی جماعتیں اُور یہ حکمران اُن کے مسائل کا حل نہیں بلکہ بذات خود مسئلہ ہیں!؟ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو اُس کا فوری اطلاق ہوتا ہے لیکن اِس میں کمی کا ایک مہینہ گزرنے کے باوجود بھی نہ صرف پیٹرول ناپید ہے بلکہ اِس کی گرانفروشی بھی جاری ہے۔ 

عجیب صورتحال ہے کہ پیٹرول پمپوں پر سرکاری نرخ کے مطابق پیٹرول دستیاب نہیں لیکن سڑک کنارے پلاسٹک کے ڈرم میں غیرمحفوظ انداز سے انتہائی جلد آگ پکڑنے والا محلول سرعام فروخت ہو رہا ہے۔ اگر پیٹرول کی قلت ہے تو غیرقانونی طور پر فروخت کرنے والے پیٹرول کہاں سے حاصل کر رہے ہیں؟ کیا اُنہوں نے اپنے گھروں میں تیل کے کنویں کھود رکھے ہیں اُور اپنی آئل ریفائنریز بنا رکھی ہیں؟

ماضی کی طرح حال کے حکمرانوں کی بے خبری اُور تغافل عیاں ہے‘جن کے پاس عوام کو دی جانے والی طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں۔ عام آدمی (ہم عوام) کو خبر ہے کہ عالمی منڈی میں صرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہی کم نہیں ہوئیں بلکہ خوردنی تیل پام آئل اُور دیگر روغنیات کی قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں لیکن پاکستان میں صارفین مہنگے داموں گھی اُور خوردنی تیل خرید رہے ہیں۔ چاول دال چائے اُور خشک مصالحہ جات کی قیمتیں بھی کم ہونی چاہیئں لیکن چینی سے لیکر سبزی اُور دال چاول تک ہر جنس نہ صرف مہنگی بلکہ اِن کی قیمتوں میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اُور اِس پورے منظرنامے کی عینی شاہد (تماشائی) حکومت کی نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی (این پی ایم سی) کے ایک حالیہ اجلاس سے متعلق سرکاری خبررساں ادارے نے خبر جاری کی ہے کہ ملک میں مرغیوں اُور انڈوں کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لے لیا گیا ہے اُور عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے صوبائی حکومتوں کو منافع خوروں کے خلاف کاروائی اور قیمتوں میں کمی لانے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ کیا اِس کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی ہے یا ہوگی؟ یادش بخیر یکم رمضان المبارک سے ایک دن قبل مرغی کی فی کلوگرام قیمت 120 روپے تھی جو پورے رمضان المبارک اُور شوال المکرم کے اختتام کے قریب 200 روپے کی اوسط سے فروخت ہو رہی ہے لیکن این پی ایم سی اچانک جاگ اُٹھی ہے اُور پچاس دن سے زائد فروخت ہونے والی پولٹری مصنوعات کی قیمتوں پر حیرت کا اظہار کر رہی ہے! نجانے یہ حکمران کسے دھوکہ دے رہے ہیں!؟

تفصیلات اہم ہیں اُور اِن تفصیلات سے اُن سبھی کرداروں کی کارکردگی کو سمجھا جا سکتا ہے جنہوں نے ایک طرف مہنگائی کی غیرتحریری اجازت دے رکھی ہے اُور دوسری طرف اِن کی آنکھوں میں مگرمچھ کے آنسوو ¿ں جیسی موسلادھار بارش بھی برس رہی ہے۔ ظلم اُور صبر کی بھی آخر کوئی نہ کوئی تو انتہا ہوتی ہے۔ ہم عوام اِس بات پر کتنا فخر کریں کہ پاکستان کا وزیراعظم ایک ایسا شخص ہے جو بدعنوان نہیں۔ جس کی بیرون ملک سرمایہ کاری اُور جائیدادیں نہیں۔ جس کے کاروباری مفادات اُس کے عہدے سے متصادم نہیں لیکن اگر اِس قدر شریف النفس اُور ایماندار وزیراعظم تمام تر اختیارات اُور حکومتی وسائل کے باوجود عوام کو ناجائز منافع خوری جیسے ظلم سے نہیں بچا سکتا تو محض ایمانداری اُور صداقت و امانت جیسی اہلیت کافی تصور نہیں کی جا سکتیں۔ 

توجہ مبذول رہے کہ حالیہ ’این پی ایم سی‘ اجلاس کی سربراہی (غیرمنتخب سرکاری عہدیدار) وفاقی سیکرٹری برائے خزانہ نوید کامران بلوچ نے کی‘ جس میں ضروری اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا گیا۔ کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ عوام کا منتخب نمائندہ اُور متعلقہ وزیر کہاں مصروف تھے؟ 

مہنگائی جیسا سنجیدہ اُور اہم مسئلہ متقاضی ہے کہ این پی ایم سی اجلاس کی سربراہی وزیراعظم خود کریں اُور سب سے پہلے اُن فیصلہ سازوں کو جیل بھجوائیں جو مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے تنخواہیں اُور مراعات وصول کر رہے ہیں! مذکورہ اجلاس میں کمیٹی نے صوبائی حکومت اور اسلام آباد کی انتظامیہ کو منافع خوروں کے خلاف سخت کاروائی اُور مارکیٹ میں اشیائے خوردونوش کی فراہمی میں آسانی اور اِن کی قیمتوں میں کمی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی۔ جیسا کہ اگر کمیٹی یہ ہدایات جاری نہ کرتی تو اسلام آباد اُور کے دیگر حصوں میں ضلعی انتظامیہ مہنگائی جاری رکھنے کی اجازت برقرار رکھتیں۔ کیا مہنگائی حکومت سے اجازت لیکر کی گئی ہے جو اِسے ختم کرنے کے لئے باقاعدہ اجلاس اُور ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔ سیاسی و غیرسیاسی‘ منتخب اُور غیرمنتخب‘ ضلعی‘ صوبائی اُور وفاقی حکمرانوں سے التماس ہے ہم عوام کو مزید دھوکہ اُور دلاسہ دینے سے گریز کریں کیونکہ گزشتہ دو سال سے قائم تحریک انصاف حکومت کے گزشتہ دو ماہ کی انتہائی خراب کارکردگی سے یہ حقیقت ظاہر (بخوبی عیاں) ہو چکی ہے کہ حکمرانی میں ناتجربہ کاری کا فائدہ سرمایہ دار طبقات ہی نہیں بلکہ حکمراں (خاندان و طبقات) بھی کسی نہ کسی صورت اُٹھا رہے ہیں!
........
Clipping from Daily Aaj - 21 June 2020 Sunday
Editorial Page of Daily Aaj - June 21, 2020 Sunday


No comments:

Post a Comment