حقیقت حال .... جو میں نے دیکھا!
پہلی حقیقت:
کسی فلم یا ڈرامے کی کامیابی کا ’عالمی پیمانہ‘ باکس آفس (Box Office) کارکردگی یعنی کمائی (حاصل وصول) بارے جاری ہونے والے اعدادوشمار ہوتے ہیں کہ مذکورہ فلم یا ڈرامے نے خاص عرصے کے دوران کتنا ’بزنس‘ کیا۔ رواں ماہ (جون دوہزاربیس) کے دوران پاکستان میں ’نیٹ فلیکس (Netflix)‘ کے ذریعے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے دس (top-10) فلموں ڈراموں میں پہلے نمبر پر براجمان پولش (Polish) زبان میں بنایا گیا 114 منٹ دورانئے کا کھیل ہے‘ جس کی کہانی جرائم‘ منشیات‘ بے راہ روی‘ تشدد اُور جنسی تعلقات جیسے تخریبی موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔ مذکورہ کھیل (ٹیلی فلم) کو پولش (پولینڈ کی سرکاری زبان) میں وہاں کے خاص حالات اُور ثقافت کی نمائندگی تو کرتا ہے اُور اُس معاشرے میں پائی جانے والی سوچ کو نئے زوایئے تو دیتا ہے لیکن اُسے انگریزی میں ترجمہ کر کے پاکستان جیسے ملک میں پیش کرنے کی ضرورت و منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف حکومت کے ادارے (سنسربورڈ اُور الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) موجود ہیں لیکن اُن کی اجازت کے بغیر غیرملکی مواد پاکستان میں صرف نشر ہی نہیں بلکہ فروخت بھی ہو رہا ہے لیکن کسی کی توجہ نہیں۔ افسوس کے ساتھ شرم کا بھی مقام ہے کہ ایک مسلمان اکثریتی معاشرے میں انگریزی ڈرامہ ’356 دن‘ جس کا اصل (پولش) نام 365 Dni ہے سرفہرست اُور مقبول ترین ہے! سات فروری (دوہزاربیس) کے روز پولینڈ میں پہلی مرتبہ نشر اُور انٹرنیٹ پر منحصر ’نیٹ فلیکس‘ کی وساطت سے دنیا بھر میں جاری (ریلیز) ہونے والے مذکورہ ڈرامے نے چار ماہ کے عرصے (بارہ جون دوہزاربیس تک) ’باکس آفس‘ پر ساڑھے 9 کروڑ ڈالر کمائے ہیں جو اِس پر اُٹھنے والی لاگت سے ہزاروں گنا زیادہ منافع ہے! ذہن نشین رہے کہ پانچ لاکھ سال پر محیط انسانی آبادی کی تاریخ رکھنے والا ملک ’پولینڈ‘ وسط یورپی میں واقع ہے اُور اِس کی سرحدیں شمال میں روس‘ مشرق میں بیلاروس اُور یوکرین‘ جنوب میں چیک ری پبلک جبکہ مغرب میں جرمنی سے ملتی ہیں اُور 27 یورپی ممالک میں معاشی ترقی و قومی پیداوار کے لحاظ سے پولینڈ چھٹے نمبر پر ہے‘ جہاں دیگر صنعتوں کی طرح ٹیلی ویژن اُور فلم کی صنعت قومی آمدن کا بنیادی ذریعہ ہے۔
کسی فلم یا ڈرامے کی کامیابی کا ’عالمی پیمانہ‘ باکس آفس (Box Office) کارکردگی یعنی کمائی (حاصل وصول) بارے جاری ہونے والے اعدادوشمار ہوتے ہیں کہ مذکورہ فلم یا ڈرامے نے خاص عرصے کے دوران کتنا ’بزنس‘ کیا۔ رواں ماہ (جون دوہزاربیس) کے دوران پاکستان میں ’نیٹ فلیکس (Netflix)‘ کے ذریعے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے دس (top-10) فلموں ڈراموں میں پہلے نمبر پر براجمان پولش (Polish) زبان میں بنایا گیا 114 منٹ دورانئے کا کھیل ہے‘ جس کی کہانی جرائم‘ منشیات‘ بے راہ روی‘ تشدد اُور جنسی تعلقات جیسے تخریبی موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔ مذکورہ کھیل (ٹیلی فلم) کو پولش (پولینڈ کی سرکاری زبان) میں وہاں کے خاص حالات اُور ثقافت کی نمائندگی تو کرتا ہے اُور اُس معاشرے میں پائی جانے والی سوچ کو نئے زوایئے تو دیتا ہے لیکن اُسے انگریزی میں ترجمہ کر کے پاکستان جیسے ملک میں پیش کرنے کی ضرورت و منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف حکومت کے ادارے (سنسربورڈ اُور الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) موجود ہیں لیکن اُن کی اجازت کے بغیر غیرملکی مواد پاکستان میں صرف نشر ہی نہیں بلکہ فروخت بھی ہو رہا ہے لیکن کسی کی توجہ نہیں۔ افسوس کے ساتھ شرم کا بھی مقام ہے کہ ایک مسلمان اکثریتی معاشرے میں انگریزی ڈرامہ ’356 دن‘ جس کا اصل (پولش) نام 365 Dni ہے سرفہرست اُور مقبول ترین ہے! سات فروری (دوہزاربیس) کے روز پولینڈ میں پہلی مرتبہ نشر اُور انٹرنیٹ پر منحصر ’نیٹ فلیکس‘ کی وساطت سے دنیا بھر میں جاری (ریلیز) ہونے والے مذکورہ ڈرامے نے چار ماہ کے عرصے (بارہ جون دوہزاربیس تک) ’باکس آفس‘ پر ساڑھے 9 کروڑ ڈالر کمائے ہیں جو اِس پر اُٹھنے والی لاگت سے ہزاروں گنا زیادہ منافع ہے! ذہن نشین رہے کہ پانچ لاکھ سال پر محیط انسانی آبادی کی تاریخ رکھنے والا ملک ’پولینڈ‘ وسط یورپی میں واقع ہے اُور اِس کی سرحدیں شمال میں روس‘ مشرق میں بیلاروس اُور یوکرین‘ جنوب میں چیک ری پبلک جبکہ مغرب میں جرمنی سے ملتی ہیں اُور 27 یورپی ممالک میں معاشی ترقی و قومی پیداوار کے لحاظ سے پولینڈ چھٹے نمبر پر ہے‘ جہاں دیگر صنعتوں کی طرح ٹیلی ویژن اُور فلم کی صنعت قومی آمدن کا بنیادی ذریعہ ہے۔
دوسری حقیقت:
ٹیلی ویژن کے ذریعے تفریح (اِنٹرٹینمنٹ) کیبل نیٹ ورک یا روائتی چھت پر لگے انٹینا کے ذریعے موصول ہونے والے چینلز کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ ثقافتی یلغار سیٹلائٹ (ڈش) اُور انٹرنیٹ کی مدد سے ترقی یافتہ اشکال میں سامنے آ چکی ہیں جن میں ڈائریکٹ ٹو ہوم (DTH)‘ آئی پی ٹیلی ویژن (IPTV) اُور مختلف قسم کے سی لائن (سرورز) شامل ہیں۔ پاکستان میں اِن سبھی وسائل سے مختلف ضرورتوں (فلمیں‘ ڈرامے‘ ناچ گانے‘ کھیل‘ معلومات اُور عالمی خبروں و تجزئیات) کے لئے استفادہ کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے لیکن اِس سے حکومت نہ تو مالی طور پر خاطرخواہ فائدہ اُٹھا رہی ہے اُور نہ ہی غیرروائتی نت نئے طریقوں سے تفریح بذریعہ ٹیلی ویژن جیسے شعبے کو نظم و ضبط کا پابند (ریگولیٹ) کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی اپنی تاریخ و ثقافت اُور بالخصوص اِسلام کے بتائے ہوئے اَصولوں کے مطابق نظر‘ زبان‘ سماعت اُور خیالات کو آلودہ کرنے کی کھلم کھلا اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ تفریح کے نام پر اُن اخلاقی اَقدار کو شکار کیا جا رہا ہے‘ جو کبھی اسلام اُور مشرقی روایات کے عنوان سے پاک و پاکیزہ معاشرت و سماجیات کا خاصہ سمجھا جاتی تھیں۔ اِس بات پر جس قدر بھی اَفسوس کا اظہار کیا جائے کم ہوگا کہ ہمارے فیصلہ سازوں کو تفریح کے نام پر سازش پر برائے نام جیسی تشویش بھی نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جدید رہائشی بستیوں میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں کے رہنے والوں ڈی ٹی ایچ‘ نیٹ فلیکس‘ آئی پی ٹی وی یا لائن سرور کے صارف نہ ہوں۔ ”وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا .... کارواں کے دل سے اِحساس زیاں جاتا رہا!“
تیسری حقیقت:
انٹرنیٹ کے ذریعے تفریحی مواد تک رسائی مختلف طریقوں سے ہو رہی ہے‘ جس میں سب سے پہلا براہ راست تعلق ہے جس میں کوئی بھی صارف ویڈیو بلاگنگ کی لاکھوں ویب سائٹس میں سے اپنے ذوق و پسندیدگی اُور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے چند ایک کا انتخاب کرتا ہے اُور جہاں کچھ نشریاتی مواد بلاقیمت (مفت) فراہم کیا جاتا ہے تاکہ صارفین عادی ہو جائیں اُور پھر اُن کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید مواد دیکھنے کی ’رعائتی پیشکش‘ کی جاتی ہے اُور اِس کی مقررہ قیمت اَدا کرنے کے لئے جن ممکنہ ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے اُن میں موبائل فون کمپنیاں بھی حصہ دار (برابر کی شریک) ہیں جو صارفین کو گھر بیٹھے بیرون ملک ادائیگیاں کرنے جیسی سہولت فراہم کر رہی ہیں اُور یوں ماہانہ اربوں روپے تفریح برائے تفریح (گناہ ¿ بے لذت) کی نذر ہو رہے ہیں!
چوتھی حقیقت:
دنیا جاگ اُٹھی ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے صرف سماجی سرگرمیاں ہی محدود کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ عالمی سطح پر تعلیمی اداروں کی بندش اُور اِس سے ہونے والے تعلیمی حرج کو کم سے کم کرنے کے لئے اِنٹرنیٹ (آن لائن) وسائل (فاصلاتی درس و تدریس) سے اِستفادہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کی صورتحال یکسر مختلف (اُلٹ) ہے کہ غربت زیادہ ہونے کی وجہ سے طلبا و طالبات کی اکثریت کے پاس کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ‘ موبائل فون یا ٹیبلٹ نہیں اُور جن کے پاس یہ وسائل اُور سہولیات ہیں تو وہ بھی اِس سے اصل ضرورت یعنی تعلیم کے لئے استفادہ نہیں کر رہے کیونکہ ایک طرف رہنمائی اُور تربیت کا فقدان ہے تو دوسری طرف سینئر اساتذہ کی بڑی تعداد بشمول نجی تعلیمی اداروں کی اِنتظامیہ (مالکان) ’اِنفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے بنیادی استعمال سے متعلق خاطرخواہ ہنرمند نہیں! لمحہ ¿ فکریہ ہے کہ لاک ڈاو ¿ن کی وجہ سے پیدا ہونے والی فرصت کے باعث پاکستان میں بھی انٹرنیٹ کے استعمال میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا ہے اُور یہ اضافہ دنیا بھر میں دیکھنے کو ملا ہے تاہم پاکستانی انٹرنیٹ سے خاص استفادہ مختلف انداز سے کرتے ہوئے اکثریت کے لئے انٹرنیٹ تفریح کا ذریعہ جبکہ دنیا بھر میں جوابدہ اُور شفاف طرزحکمرانی کے علاو ¿ہ یہی انٹرنیٹ عوامی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنا رہا ہے! تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث تعلیم اُور تربیت کی ذمہ داری والدین کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ کیا کوئی شخص اپنے بچوں کو کسی ایسے پانی کے تالاب میں دھکا دینا پسند کرے گا جس کی گہرائی کے بارے میں اُسے صرف اتنا معلوم ہو کہ وہ معلوم نہیں؟
اِنٹرنیٹ کی دنیا گہرائی‘ وسعت اُور اِمکانات کے لحاظ سے عمودی اُور افقی لحاظ سے لامحدود ہے۔
قابل افسوس بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کا ادراک رکھنے والوں میں شامل والدین‘ اساتذہ‘ ماہرین تعلیم‘ ذرائع ابلاغ‘ مذہبی و سیاسی رہنماو ں اُور قومی سطح پر سیاسی اُور غیرسیاسی فیصلہ سازوں نے تجاہل عارفانہ اختیار کر رکھا ہے جبکہ خودکشی پر آمادہ نئی نسل کو غیرتحریری اُور غیرشعوری طور پر ایک ایسے دریا میں دھکیل دیا گیا ہے‘ جس کا کوئی کنارہ نہیں!
اِک اُور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا‘ تو میں نے دیکھا! (منیر نیازی)
........
No comments:
Post a Comment