Saturday, June 13, 2020

Covid19 and Public Transport

سچائی کا سفر
پبلک ٹرانسپورٹ مستقل مسئلہ (دردِ سر) ہے اُور اِس درد کا مستقل بنیادوں پر حل (علاج) ہونا چاہئے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد ’حسب توقع‘ نہ تو کرایوں میں عملاً کمی ہوئی اُور نہ ہی بسوں میں گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنے جیسے عمومی طرزعمل (قانون شکنی) سے رجوع کیا گیا جو کورونا وبا کے ممکنہ پھیلاو ¿ کم کرنے کے لئے (حتی الوسع) ’سماجی فاصلے (social distancing)‘ سے متعلق حکومتی قواعد و ضوابط (SOPs) کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی لیکن رواں ہفتے پبلک ٹرانسپورٹ مالکان کی جانب سے 2 اعلانات سامنے آئے کہ ایک تو بین الاضلاعی راستوں (روٹس) پر مقررہ کرائے کی شرح میں مزید کمی کر دی گئی ہے اُور دوسرا ’ایس اُو پیز‘ پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں باتیں ذرائع ابلاغ نے فوری خبر (Breaking News) اُور شہ سرخیوں (Headlines) کے ساتھ بالکل اُسی اہتمام کے ساتھ شائع کیں‘ جس طرح پیٹرولیم مصنوعات اُور آٹے کی قیمتیں کم ہونے کے بارے میں عوام کو روزانہ ’خوش خبریاں‘ دی جاتی ہیں لیکن اِن خبروں کا زمینی حقائق سے تعلق نہیں ہوتا اُور نہ ہی خبر دینے سے پہلے اُس کے مندرجات کے بارے خاطرخواہ تحقیق کے عمل کو خاطرخواہ اہمیت دی جا رہی ہے جو صحافت کا پہلا اُور بنیادی اصول ہے۔ اِس سلسلے میں اُردو اُور انگریزی صحافت دو الگ الگ سمتوں اُور دو الگ الگ بلندیوں پر بھی اِس لئے دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ دونوں کے ہاں حقائق کی تصدیق و جانچ کے لئے محنت کا معیار ایک جیسا نہیں۔

بنیادی طور پر کسی بھی آمدہ اطلاع کو خبر اُور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اُور ذمہ داری کی ساتھ اَدا (شائع) کرنے سے قبل‘ اُس کی آزاد ذرائع یا اپنے طور پر تصدیق ہونی چاہئے۔ اِس بات کو عملاً اُور باآسانی ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ 1: کوئی بھی خبر تصدیقی مراحل سے گزرے بغیر شائع یا نشر نہ ہو۔ 2: خبر ضروری ہوتی ہے اُس کو پیش کرنے کا انداز ضمنی اہمیت رکھتا ہے۔ بالخصوص صفحے کی خوبصورتی کے لئے خبروں کو دو‘ تین یا چار کالموں میں مزین و سجاوٹ کے لئے منتخب اُور نمایاں کرنے کا بھی کوئی نہ کوئی تو اصول بھی ہونا چاہئے کیونکہ صرف خبر کا ہونا ہی اہم اُور کافی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اِس میں سچ جھوٹ یا جھوٹ سچ کی آمیزش کا تناسب جاننے کا بھی پیمانہ ہونا چاہئے کیونکہ خبر کے ساتھ صحافتی اِدارے کی ساکھ اُور کاروباری مستقبل بھی جڑا ہوتا ہے۔

’سچائی‘ کا وہ سفر جو اِنفردی حیثیت سے جتماعی قالب میں ڈھل کر اپنی انتہائی (ترقی یافتہ) شکل (وجاہت) میں ”صحافت“ کہلاتا ہے اُور یہ لفظ اصطلاحاً صحیفے سے بھی ماخوذ ہے یعنی ایک ایسی دستاویز (صحیفہ) جو خالق کائنات کے مقدس کلام کی ترسیل سے منسوب ہے تو اِس بات میں کوئی حرج نہیں کہ اگر کسی خبر کی فوری تصدیق ممکن نہ ہو تو اُسے (تا دم تصدیق) روک کر شائع کر لیا جائے۔ درحقیقت صحافت کسی بھی شکل میں ہو لیکن اگر یہ ذمہ داری اُور اِحساس ذمہ داری کے ساتھ اَدا نہیں ہوتی تو پھر یہ ایک ایسا معمول بن جائے گی جس سے معاشرے میں نہ تو خیر اُور بہتری کی صورتیں برآمد ہوں گی اُور نہ ہی حکومتی سطح پر فیصلہ ساز اپنی ترجیحات کے تعین میں درست رہنمائی حاصل کر پائیں گے بلکہ عوام اُور حکمران دونوں ہی گمراہ ہوں گے کیونکہ اگر کسی نے اُن کی آنکھوں کی دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے تو اُس کوشش (جھوٹ) کو کامیاب بنانے میں ذرائع ابلاغ بھی شریک ہو گئے ہیں اُور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے‘ جس سے صحافتی ذمہ داریاں ترتیب و تشکیل پاتی ہیں۔

عام آدمی (ہم عوام) کے نکتہ نظر سے عندیہ (خوش خبری) اگر صرف سماعتوں اُور بصارتوں ہی کی آسودگی کے لئے شائع کی جاتی ہے‘ تب تو ٹھیک (قابل فہم) ہے لیکن اگر ذرائع ابلاغ ”اَزرائے طنز و مذاق“ قیمتوں اُور نرخناموں میں کمی سے متعلق ایسی خبریں شائع کرتے ہیں کہ جن میں عوام کے لئے کسی ریلیف کا ذکر ہوتا ہے اُور برسرزمین حقیقت یا حقائق یکسر مختلف (برعکس) ہوتے ہیں تو یہ طرزِعمل اَمانت و دیانت کے اَصولوں کے منافی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ ایسی خبریں (بالخصوص پرنٹ میڈیا جب شہ سرخیوں کے ساتھ) شائع کرتے ہیں تو اِس سے عوام کی نظروں میں بطور اِدارہ اِن کی اہمیت‘ فرض شناسی‘ ذمہ داری‘ صحافتی اَخلاقیات و اَقدار اُور سماجی کردار قابل اِعتبار و بھروسہ نہیں رہتا یقینا کوئی بھی شخص (قاری‘ ناظر و سامع) نہیں چاہے گا کہ جن حقائق سے اُسے عملی زندگی میں ہر روز واسطہ پڑ رہا ہے اُن سے متعلق خبرنگاری مصدقہ نہیں۔ اِس پورے تناظر کا تیسرا پہلو اُور ضرورت یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کی توجہ (جملہ وسائل‘ رائے اُور جھکاو ¿) عوام کی طرفداری جانب مائل ہونی چاہئے۔ وہ کاروباری گروہ اُور طبقات جو اَجناس کی فروخت یا خدمات کی فراہمی جیسے شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں اگر اُنہیں یقین ہو کہ حکومت اُور ذرائع ابلاغ عوام کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں تو یوں کھلم کھلا لاقانونیت دیکھنے میں نہ آئے کہ اجناس میں ملاوٹ سے لیکر کم وزن‘ گرانفروشی اُور ذخیرہ اندوزی قانونی و اخلاقی و سماجی طور پر جرائم ہی تصور نہ ہوں۔

عوامی مفاد کیا ہوتا ہے؟
اِس کی حفاظت کس کی ذمہ داری اُور کیسے کی جائے؟
اِن تینوں امور سے متعلق سوچ بچار اُور لائحہ عمل ’طرزحکمرانی‘ کہلاتا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کرائے ناموں کی شرح میں کمی تو بہت دور کی بات لیکن اگر ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے کرایوں پر صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی مقررہ کردہ شرح کے مطابق عمل درآمد اُور کورونا وبا سے متعلق حکومتی ہدایات کا احترام ضروری سمجھا جا رہا ہوتا تو صرف پشاور میں گزشتہ چند دنوں کے دوران ’1200ٹرانسپورٹرز‘ کو جرمانے اُور 4 بس اڈے سربمہر نہ کئے گئے ہوتے! لائق توجہ یہ بھی ہے کہ اگر نجی شعبے کی اجارہ داری سے چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے امور صوبائی دارالحکومت ہی میں تسلی بخش نہیں تو صوبائی حکمرانوں اُور متعلقہ فیصلہ سازوں نے کس بنیاد (جواز) پر یقین کر لیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے دور دراز اضلاع اُور علاقوں پبلک ٹرانسپورٹرز مسافروں (صارفین) کو لوٹ نہیں رہی اُور سب سے بڑھ کر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے کورونا وبا کے پھیلانے کا باعث بن رہی ہے۔ ’صوبائی ٹرانسپورٹ اٹھارٹی‘ اُور ’پبلک ٹرانسپورٹ اُونرز ایسوسی ایشن‘ گٹھ جوڑ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے کے لئے ضلعی انتظامیہ (کمشنری نظام) کام آ رہا ہے‘ جنہیں جرمانہ اُور سزائیں دیتے ہوئے صرف خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے مرکزی اُور ضلعی دفاتر میں تنخواہیں اُور مراعات باقاعدگی سے وصول کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کرنی چاہئے جو مسافروں کی جان و مال کے تحفظ‘ سہولیات کی فراہمی اُور مقررہ شرح سے زائد کرایوں کی وصولی سے متعلق قوانین اُور قواعد شکنی میں برابر (یکساں) شریک جرم (ملوث) ہیں۔
مرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی
کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی (اَزہر درانی)
....
Clipping from Editorial Page of Daily Aaj - June 13, 2020 Saturday
Editorial Page of  Daily Aaj - June 13, 2020 Saturday


No comments:

Post a Comment