ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
کورونا وائرس کی وجہ سے درس و تدریس کا عمل معطل ہوئے کامل تین ماہ کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے اُور اِس دوران سب سے زیادہ تعلیمی حرج اُن طلبا و طالبات کا ہو رہا ہے‘ جو اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کر رہے تھے اُور اِس مقام تک پہنچنے کے لئے اُنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین وقت اُور سرمایہ صرف اُور صرف کتابوں کی نذر کیا لیکن کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے ساتھ درس و تدریس کا عمل بلاامتیاز معطل کرنے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند اُور اُن کے والدین جس ذہنی دباو سے گزر رہے ہیں‘ اُس کا بیان الفاظ میں کرنا ممکن نہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ جو بیش قیمت وقت ضائع ہو رہا ہے‘ وہ ناقابل تلافی نقصان ہے کیونکہ وقت گزر رہا ہے اُور اِسی جانب توجہ مبذول کروانے کے لئے ملک کے مختلف شہروں اُور بالخصوص اسلام آباد میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے صدر دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں کو توقع ہے کہ قومی فیصلہ سازوں نے جس طرح لاک ڈاو ¿ن میں نرمی کرتے ہوئے پہلے اجتماعی عبادات اُور بعدازاں کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی ہے‘ بالکل اِسی اصول اُور نظریہ ¿ ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے (سرکاری و نجی) اعلیٰ تعلیمی اداروں کی رونقیں بھی بحال کی جا سکتی ہیں‘ جہاں کورونا وائرس سے بچاو ¿ اُور اِس کے ممکنہ پھیلاو ¿ کو روکنے کے لئے طلبہ اُور تدریسی عملہ اُن احتیاطی تدابیر (SOPs) پر سختی اُور بالعموم زیادہ سنجیدگی سے عمل درآمدکریں گے جنہیں معاشرے کے دیگر طبقات نے مذاق میں اُڑا دیا ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ جو بیش قیمت وقت ضائع ہو رہا ہے‘ وہ ناقابل تلافی نقصان ہے کیونکہ وقت گزر رہا ہے اُور اِسی جانب توجہ مبذول کروانے کے لئے ملک کے مختلف شہروں اُور بالخصوص اسلام آباد میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے صدر دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں کو توقع ہے کہ قومی فیصلہ سازوں نے جس طرح لاک ڈاو ¿ن میں نرمی کرتے ہوئے پہلے اجتماعی عبادات اُور بعدازاں کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی ہے‘ بالکل اِسی اصول اُور نظریہ ¿ ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے (سرکاری و نجی) اعلیٰ تعلیمی اداروں کی رونقیں بھی بحال کی جا سکتی ہیں‘ جہاں کورونا وائرس سے بچاو ¿ اُور اِس کے ممکنہ پھیلاو ¿ کو روکنے کے لئے طلبہ اُور تدریسی عملہ اُن احتیاطی تدابیر (SOPs) پر سختی اُور بالعموم زیادہ سنجیدگی سے عمل درآمدکریں گے جنہیں معاشرے کے دیگر طبقات نے مذاق میں اُڑا دیا ہے۔
کورونا وبا کو مدنظر رکھتے ہوئے جب تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا تو اُس وقت اعلیٰ اُور پیشہ ورانہ تعلیم کے شعبے کو بھی جلدبازی (بنا سوچے سمجھے) بند کر دیا گیا حالانکہ معاشرے کا اکثریتی باشعور اُور نظم و ضبط کا زیادہ پابند طبقہ اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کر رہا ہوتا ہے اُور اگر اعلیٰ تعلیم کی درسگاہیں بند کرنے کی بجائے وہاں پہلے سے موجود قیام و طعام کی سہولیات کو حسب ضرورت وسعت دی جاتی تو اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ منقطع کئے بغیر بھی مطلوبہ اہداف حاصل کئے جا سکتے تھے۔
حکومت کی ترجیح اگر تعلیم اُور بالخصوص اعلیٰ تعلیم و تحقیق نہیں ہے تو اِس سے کورونا وائرس یا مستقبل قریب و بعید میں اِس جیسے دیگر چیلنجز سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسرا لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بندش کے ساتھ ہی حکومت نے آن لائن تعلیم کے وسائل میں اضافے کا وعدہ کیا۔ یہ تصور نیا نہیں تھا بلکہ اِس سے قبل بھی فاصلاتی تعلیم کے سلسلے جاری تھے جن میں حاصل مہارت و تجربے کو دیگر اداروں تک وسعت دینا تھی لیکن یہ عمل (ہدف) باوجود خواہش و کوشش بھی مکمل نہ ہو سکا‘ جس کی راہ میں تکنیکی وجوہات حائل تھیں کہ ایک تو ہر طالب علم کے پاس آن لائن وسائل سے استفادہ کرنے کی ٹیکنالوجی (موبائل فون‘ ٹیبلٹ‘ لیپ ٹاپ‘ کمپیوٹر وغیرہ) نہیں تھے تو دوسری طرف پورے ملک میں تیزرفتار انٹرنیٹ کی فراہمی کا نظام بھی واجبی تھا۔ صرف بڑے شہروں یا اُن کے خاص حصوں تک ہی ایسے تیزرفتار (آپٹیکل فائبر) انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے‘ جو فاصلاتی تعلیم (آڈیو اُور ویڈیوز اسٹریمنگ) ممکن بنانے کے لئے بنیادی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں دوسرا ذریعہ موبائل فون ہیں‘ جن کے ذریعے کم قیمت اُور قدرے تیزرفتار انٹرنیٹ کی فراہمی ہو سکتی تھی لیکن موبائل فون کی نجی کمپنیوں نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی ہنگامی و بحرانی صورتحال میں سماجی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اِسے منافع کمانے کا ذریعہ (نادر موقع) تصور کیا۔
حکومت نجی کمپنیوں کو اپنے منافع کم کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی اُور نہ ہی حکومت کے پاس اپنا کوئی ایسا قومی ادارہ ہے کہ جس کے ذریعے رعائتی نرخوں پر انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکے۔ تعلیم و تحقیق کے شعبے میں انٹرنیٹ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن پاکستان میں اِن دونوں شعبوں کو ایک دوسرے سے الگ دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ تین ماہ قبل جب تعلیمی ادارے بند کئے گئے تو کوئی بھی ایسا متبادل ذریعہ (پلیٹ فارم) موجود نہیں تھا جو فوری طور پر درس و تدریس کے عمل کو وہیں سے شروع کرتا‘ جہاں سے اِس کا سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ دل شکنی کا باعث اَمر یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیمی عمل معطل ہونے سے طلبا و طالبات کی پریشانی میں اساتذہ کی اکثریت شامل نہیں اُور نہ ہی اساتذہ کی نمائندہ تنظیمیں طلبہ کے اِس مطالبے میں ہم آواز ہیں کہ لاک ڈاو ¿ن میں نرمی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ بھی بحال ہونا چاہئے۔
حکومت کی ترجیح اگر تعلیم اُور بالخصوص اعلیٰ تعلیم و تحقیق نہیں ہے تو اِس سے کورونا وائرس یا مستقبل قریب و بعید میں اِس جیسے دیگر چیلنجز سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسرا لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بندش کے ساتھ ہی حکومت نے آن لائن تعلیم کے وسائل میں اضافے کا وعدہ کیا۔ یہ تصور نیا نہیں تھا بلکہ اِس سے قبل بھی فاصلاتی تعلیم کے سلسلے جاری تھے جن میں حاصل مہارت و تجربے کو دیگر اداروں تک وسعت دینا تھی لیکن یہ عمل (ہدف) باوجود خواہش و کوشش بھی مکمل نہ ہو سکا‘ جس کی راہ میں تکنیکی وجوہات حائل تھیں کہ ایک تو ہر طالب علم کے پاس آن لائن وسائل سے استفادہ کرنے کی ٹیکنالوجی (موبائل فون‘ ٹیبلٹ‘ لیپ ٹاپ‘ کمپیوٹر وغیرہ) نہیں تھے تو دوسری طرف پورے ملک میں تیزرفتار انٹرنیٹ کی فراہمی کا نظام بھی واجبی تھا۔ صرف بڑے شہروں یا اُن کے خاص حصوں تک ہی ایسے تیزرفتار (آپٹیکل فائبر) انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے‘ جو فاصلاتی تعلیم (آڈیو اُور ویڈیوز اسٹریمنگ) ممکن بنانے کے لئے بنیادی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں دوسرا ذریعہ موبائل فون ہیں‘ جن کے ذریعے کم قیمت اُور قدرے تیزرفتار انٹرنیٹ کی فراہمی ہو سکتی تھی لیکن موبائل فون کی نجی کمپنیوں نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی ہنگامی و بحرانی صورتحال میں سماجی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اِسے منافع کمانے کا ذریعہ (نادر موقع) تصور کیا۔
حکومت نجی کمپنیوں کو اپنے منافع کم کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی اُور نہ ہی حکومت کے پاس اپنا کوئی ایسا قومی ادارہ ہے کہ جس کے ذریعے رعائتی نرخوں پر انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکے۔ تعلیم و تحقیق کے شعبے میں انٹرنیٹ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن پاکستان میں اِن دونوں شعبوں کو ایک دوسرے سے الگ دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ تین ماہ قبل جب تعلیمی ادارے بند کئے گئے تو کوئی بھی ایسا متبادل ذریعہ (پلیٹ فارم) موجود نہیں تھا جو فوری طور پر درس و تدریس کے عمل کو وہیں سے شروع کرتا‘ جہاں سے اِس کا سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ دل شکنی کا باعث اَمر یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیمی عمل معطل ہونے سے طلبا و طالبات کی پریشانی میں اساتذہ کی اکثریت شامل نہیں اُور نہ ہی اساتذہ کی نمائندہ تنظیمیں طلبہ کے اِس مطالبے میں ہم آواز ہیں کہ لاک ڈاو ¿ن میں نرمی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ بھی بحال ہونا چاہئے۔
اعلیٰ تعلیم کی نجی درسگاہوں نے ’آن لائن ایجوکیشن‘ کے نام پر طلبہ سے فیسیں بھی وصول کیں لیکن وہ خاطرخواہ سہولیات فراہم نہ کرسکے۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے گزشتہ 2 برس سے متواتر اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کی وجہ سے سرکاری جامعات بھی اِس قابل نہیں کہ وہ اپنے وسائل سے آن لائن درس و تدریسی سرگرمیوں کا اجرا کر سکتیں۔
نجی جامعات اُور کالجز نے جیسے تیسے آن لائن تعلیم جاری رکھی ہوئی ہے لیکن سرکاری اداروں کی حالت زیادہ مثالی نہیں‘ جن کے لئے پہلی مشکل تو اِس تصور کو ہضم کرنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم آن لائن بھی ہو سکتی ہے اُور دوسری مشکل یہ تھی کہ سینئر اساتذہ کی بڑی تعداد ایسی ہے کہ وہ نہ صرف ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سے نابلد ہے بلکہ اُن کے لئے کمپیوٹر سافٹ وئرز پر لیکچرز کی تیاری ممکن نہیں ہوتی اُور صرف اِسی صورت میں کارآمد ہو سکتے ہیں کہ اُنہیں تختہ ¿ سیاہ کے سامنے کھڑا کر کے کسی خاص وقت تک بولنے دیا جائے۔ اِس عمل میں رٹے رٹائے اسباق اُور مثالوں کو دہرانے سے اگر طلبہ تعلیم اخذ کر لیں تو یہ اُن کی قسمت بصورت ِدیگر اساتذہ اِس بات کے لئے ذمہ دار نہیں کہ طلبہ کی سمجھ میں کچھ آ بھی رہا ہے یا نہیں!
آن لائن ایجوکیشن کے وسائل کا ایک کمال (خوبی) یہ (بھی) ہے کہ اِس میں ہر معلم کی کارکردگی یعنی اُس کے مطالعے اُور تدریسی انداز کو آڈیو ویڈیو کی صورت محفوظ کرکے نہ صرف بار بار دیکھا جا سکتا ہے بلکہ معلم کا احتساب بھی ممکن ہے۔ کسی کلاس روم میں جہاں پچاس سے دو سو تک طلبہ ہوتے ہیں اگر ایک معلم چاہے بھی تو ہر طالب علم کو خاطرخواہ توجہ نہیں دے سکتا لیکن آن لائن ایجوکیشن کے ذریعے وہ اسباق زیادہ روانی اُور سہل انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کورونا وبا پھیلنے میں بتدریج کمی ماہ ¿ ستمبر تک آئے گی‘ جس کے بعد حالات معمول پر آتے چلے جائیں گے لیکن اگر حالات معمول پر آتے بھی ہیں تب بھی حکومت کو روائتی تدریس کے ساتھ آن لائن ایجوکیشن میں سرمایہ کاری کرنا پڑے گی تاکہ آئندہ کسی ایسی ہی ہنگامی صورتحال سے نمٹنا نسبتاً آسان ہو۔ سردست اعلیٰ تعلیمی سرگرمیوں کو اِس مشروط اجازت (اُور عہد) کے ساتھ بحال کر دینا چاہئے کہ سماجی فاصلہ رکھنے سے متعلق وضع کردہ اُور معلوم احتیاطی تدابیر پر کماحقہ سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔
نجی جامعات اُور کالجز نے جیسے تیسے آن لائن تعلیم جاری رکھی ہوئی ہے لیکن سرکاری اداروں کی حالت زیادہ مثالی نہیں‘ جن کے لئے پہلی مشکل تو اِس تصور کو ہضم کرنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم آن لائن بھی ہو سکتی ہے اُور دوسری مشکل یہ تھی کہ سینئر اساتذہ کی بڑی تعداد ایسی ہے کہ وہ نہ صرف ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سے نابلد ہے بلکہ اُن کے لئے کمپیوٹر سافٹ وئرز پر لیکچرز کی تیاری ممکن نہیں ہوتی اُور صرف اِسی صورت میں کارآمد ہو سکتے ہیں کہ اُنہیں تختہ ¿ سیاہ کے سامنے کھڑا کر کے کسی خاص وقت تک بولنے دیا جائے۔ اِس عمل میں رٹے رٹائے اسباق اُور مثالوں کو دہرانے سے اگر طلبہ تعلیم اخذ کر لیں تو یہ اُن کی قسمت بصورت ِدیگر اساتذہ اِس بات کے لئے ذمہ دار نہیں کہ طلبہ کی سمجھ میں کچھ آ بھی رہا ہے یا نہیں!
آن لائن ایجوکیشن کے وسائل کا ایک کمال (خوبی) یہ (بھی) ہے کہ اِس میں ہر معلم کی کارکردگی یعنی اُس کے مطالعے اُور تدریسی انداز کو آڈیو ویڈیو کی صورت محفوظ کرکے نہ صرف بار بار دیکھا جا سکتا ہے بلکہ معلم کا احتساب بھی ممکن ہے۔ کسی کلاس روم میں جہاں پچاس سے دو سو تک طلبہ ہوتے ہیں اگر ایک معلم چاہے بھی تو ہر طالب علم کو خاطرخواہ توجہ نہیں دے سکتا لیکن آن لائن ایجوکیشن کے ذریعے وہ اسباق زیادہ روانی اُور سہل انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کورونا وبا پھیلنے میں بتدریج کمی ماہ ¿ ستمبر تک آئے گی‘ جس کے بعد حالات معمول پر آتے چلے جائیں گے لیکن اگر حالات معمول پر آتے بھی ہیں تب بھی حکومت کو روائتی تدریس کے ساتھ آن لائن ایجوکیشن میں سرمایہ کاری کرنا پڑے گی تاکہ آئندہ کسی ایسی ہی ہنگامی صورتحال سے نمٹنا نسبتاً آسان ہو۔ سردست اعلیٰ تعلیمی سرگرمیوں کو اِس مشروط اجازت (اُور عہد) کے ساتھ بحال کر دینا چاہئے کہ سماجی فاصلہ رکھنے سے متعلق وضع کردہ اُور معلوم احتیاطی تدابیر پر کماحقہ سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔
........
No comments:
Post a Comment