ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
جرائم کا شہر
جرائم کے روائتی اُور غیرروائتی اسلوب بھی توجہ طلب ہیں۔ کئی ایسے جرائم بھی ہیں جو اِس قدر عام اُور جن کا ارتکاب بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے کہ اب اُنہیں جرم سمجھا ہی نہیں جاتا اُور اِن میں سرفہرست تجاوزات ہیں۔ پشاور شہر کے اندرونی علاقوں میں منشیات کے سرعام استعمال اُور خریدوفروخت کے مراکز بھی توجہ طلب ہیں اُور یہی سٹریٹ کرائمز کا سب سے بڑا سبب ہیں کیونکہ جب نشے کے عادی افراد کو مالی وسائل میسر نہیں آتے تو نالے نالیوں پر لگے لوہے کے جنگلے‘ سرکاری املاک سے آہنی سلاخیں حتیٰ کہ ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تختیاں تک اکھاڑ لیجاتے ہیں! پولیس کی آنکھوں کے سامنے اُور ناک کے نیچے جاری لاقانونیت (منشیات کا دھندا) لمحہ فکریہ ہے جبکہ پشاور میں تجاوزات کے بارے میں اِس سے زیادہ کیا لکھا اُور کہا جائے کہ اِس سے قبرستان تک محفوظ نہیں رہے! موثر پولیسنگ تو بہت دور کی بات اگر صرف پولیسنگ ہی ہو رہی ہوتی تو کسی کی جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ پشاور شہر کے اثاثوں اُور یہاں کے آباواجداد کی آخری نشانیوں کو مٹاتا۔ جرائم کے شہر کی جرائم کہانیاں لاتعداد ہیں اُور اِن بیشمار واقعات کے بارے میں نہ تو اعدادوشمار مرتب کئے جاتے ہیں اُور نہ ہی تھانہ جات کی کارکردگی و گرفت کا اندازہ غیرروائتی طریقے سے کیا جاتا ہے۔
پشاور پولیس کے دفاتر میں سال 2020ءکے دوران ہوئے جرائم کے اعدادوشمار کو مرتب اُور خوشنما بنا کر پیش کرنے کے لئے تیاریوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن اگر اہل پشاور سے پوچھا جائے تو پولیس اُور تھانہ کلچر میں خاطرخواہ تبدیلی کا وعدہ کماحقہ پورا نہیں ہوا۔
فیصلہ سازوں کو غور کرنا چاہئے کہ 92 یونین کونسلوں پر مشتمل پشاور اُور اِن میں چودہ یونین کونسلوں پر مبنی اندرون شہر میں رونما ہونے والے جرائم متقاضی ہیں کہ یہاں تھانہ جات اُور پولیس نفری میں اضافہ کیا جائے۔ پولیسنگ جادو نہیں کہ بنا دکھائی دیئے اپنا اثر دکھائے بلکہ پولیس کی موجودگی اُور کسی جرم کی صورت فوری ردعمل ’فائر بریگیڈ‘ جیسا ہونا چاہئے جو چوبیس گھنٹے مستعد رہتے ہوئے‘ مشکل سے مشکل جگہوں اُور اوقات میں آتشزدگی کی اطلاع ملنے کے فوراً بعد حرکت میں آ جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں موثر پولیسنگ کے لئے اب تک کئے گئے 4 خصوصی اقدامات (ایس اُو ایس کال سروس‘ آن لائن ایف آئی آر‘ الیکٹرانک روزنامچہ اُور الیکٹرانک (اِی) ایف آئی آر) میں موجود سقم دور کرنے کے لئے غوروخوض اُور مشاورت کا عمل بھی کہیں نہ کہیں سے شروع کرتے ہوئے اِس میں مختلف شعبوں کے ماہرین کی شمولیت ہونی چاہئے کیونکہ صرف خوش رنگ و خوش نما حکمت عملیاں بنانا ہی کافی نہیں بلکہ اُن کے عملی اطلاق میں پیش آنے والی مشکلات و شکایات کی روشنی میں اصلاح کا عمل بھی ہمہ وقت جاری رہنا چاہئے اُور اِسی سے نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ پولیس کے فیصلہ سازوں کی ساری توجہ مرکزی شہر پشاور پر مرکوز ہے جبکہ دور دراز اضلاع اُور ڈویژنز کی سطح پر پولیس کا نظام افرادی و تکنیکی وسائل سے محروم نظر آتا ہے۔ پشاور خوش قسمت ہے کہ یہاں کی پولیس کے پاس ڈیجیٹل مواصلاتی نظام (واکی ٹاکیز) موجود ہے جس کے ذریعے محفوظ بات چیت ممکن ہے لیکن اضلاع میں پرانا مواصلاتی نظام باآسانی دسترس (Bug) کیا جا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات پولیس اُور عوام کے درمیان روابط کا فقدان ہے کہ سٹیزن لائزن کمیٹیاں تو موجود ہیں جن کی فعالیت ضروری ہے۔ جرائم کا خاتمہ صرف پولیسنگ کے ذریعے نہیں بلکہ جرائم کی نفسیات‘ محرکات اُور طریقوں پر غور کرنے سے بھی ممکن ہے اُور وہ سب کچھ ممکن ہے جو بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا لیکن اگر اِس بارے نمائشی نہیں بلکہ سنجیدہ عملی اقدامات کئے جائیں۔
....
![]() |
Clipping from Editorial Page Daily Aaj - December 19, 2020 |
![]() |
Editorial Page Daily Aaj - Saturday December 19, 2020 |
![]() |
Published version clipping from Editorial Page Daily Aaj - December 19, 2020 |
No comments:
Post a Comment