Saturday, December 12, 2020

Hidden potential of the cultural assets - Peshawar, a city, a web, unforgettable!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

ثقافتی اثاثے

سیاحت کا فروغ مقصود (مطمعہ نظر) ہے‘ جس کے لئے پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑے اَثاثوں بالخصوص یہاں کے فن تعمیر اُور اہم شخصیات سے نسبت رکھنے والی رہائشگاہیں و مقامات کو بطور یادگار محفوظ بنایا جائے گا۔ اِس سلسلے میں صوبائی حکومت کی وضع کردہ حکمت عملی کے تحت ’ثقافتی عجائب گھر (دیدنی مقامات)‘ بنائے جائیں گے اُور یوں پشاور کی کئی گلیاں کوچے ایسے بھی ہوں گے جہاں ایک سے زیادہ ’ثقافتی عجائب گھر‘ ہوں۔ خوش آئند ہے کہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے بھارت معروف فلمی ستاروں یوسف خان المعروف دلیپ کمار (پیدائش 11 دسمبر 1922ئ) اُور راج کپور (پیدائش 14دسمبر 1924ئ۔ وفات 2 جون 1988ئ) کے آبائی مکانات کی سرکاری قیمتیں مقرر کی ہیں جو ایک قانونی ضرورت تھی اُور اِس کے بعد مکانات کی خریداری متوقع ہے۔ مذکورہ دونوں اَداکاروں (دلیپ کمار اُور راج کپور) نے اپنی زندگی (لڑکپن و جوانی) کا کچھ حصہ پشاور میں بسر کیا اُور مذکورہ دونوں کے آبائی مکانات پشاور شہر میں نہ صرف یہاں کے 100سال سے زیادہ قدیم فن تعمیر کی یادگاریں ہیں بلکہ دنیائے فلم کے ستاروں سے اِن کی نسبت کے باعث زیادہ بیش قیمت اُور یادگار ہونے کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ ماضی کے مکانات‘ یادگاروں اُور یادوں سے پشاور کو گلے سے لگائے رکھنے کی بجائے حکومتی فیصلہ ساز مستحق مقامی فنکاروں کی مالی مدد اُور فلمی تربیت گاہوں کے علاوہ فلم اُور ڈرامہ سازی کی صنعتیں قائم کریں تاکہ جس طرح پشاور کی مٹی سے دلیپ کمار‘ راج کپور اُور کئی دیگر نامور بھارتی فلمی ستارے اُٹھے تھے اُور جنہیں اپنی خداداد صلاحیتوں کو منوانے کے لئے پاکستان چھوڑ کر بھارت جانا پڑا تھا کیونکہ اُس وقت پاکستان میں فلمی صنعت نہیں تھی اُور آج بھی فلمی صنعت کا حال قیام پاکستان (اگست 1947ئ) سے زیادہ مختلف نہیں ہے تو آج کے فنکاروں کو اپنی ’جنم بھومی(پشاور)‘ سے ’بہ امر مجبوری‘ نقل مکانی نہ کرنی پڑے۔ 

تاریخ رہی ہے کہ سیاسی اُور غیرسیاسی فیصلہ ساز ہمیشہ ایسے آسان فیصلے کرتے ہیں جو ذرائع ابلاغ اُور سوشل میڈیا کے ذریعے اُن کی اندرون و بیرون ملک مقبولیت میں اضافے کا باعث بنیں۔ دلیپ کمار اُور راج کپور کے آبائی گھروں کو محفوظ بنانے کا فیصلہ بھی ایک ایسا ہی آسان اُور مقبولیت بٹورنے کا اقدام ہے‘ جس سے وقتی طور پر ”واہ واہ“ تو ہو جائے گی لیکن کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی کروڑوں روپے اِن مکانات کی دیکھ بھال کے لئے درکار ہوں گے اُور یہ قومی خزانے پر ایک مستقل بوجھ رہے گا۔ جہاں تعینات ہونے والے ملازمین کی تنخواہیں‘ پینشن‘ مراعات‘ بجلی و گیس کے بل‘ دیکھ بھال اُور تعمیر و مرمت کے علاوہ اہم شخصیات کے دوروں پر انتظامات کرنے پر اخراجات کرنا پڑیں گے جبکہ مذکورہ دونوں گھروں سے اِس قدر آمدنی نہیں ہو گی کہ اُن سے مذکورہ تمام اخراجات ادا کئے جا سکیں۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ کورونا وبا کی وجہ سے سیر و سیاحت کا عمل رُکا ہوا ہے اُور بیرون ملک سے سیاح صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کا سفر بھی اختیار نہیں کر رہے۔ اِس صورتحال میں پشاور کے سیاحوں کے لئے دو نئے عجائبات کا اضافہ کرنا درست اقدام تو ہے لیکن اِس کا وقت درست نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کے مقامی افراد کی اکثریت دلیپ کمار یا راج کپور کے آبائی گھروں کو بحال ہونے کے بعد قیمت ادا کر کے دیکھنے نہیں جائے گی کیونکہ اُن کے لئے اپنی زندگیوں اُور اِن زندگیوں کے مسائل زیادہ اہمیت کے حامل ہیں‘ جن کے حل کرنے کے مطالبات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔

دلیپ کمار اُور راج کپور کے آبائی گھروں کی موجودہ حالت اِس حد تک ”انتہائی خستہ“ اُور ناقابل مرمت ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ اِن دونوں مکانات کا ملبہ فروخت کرنا پڑے گا اُور پھر نئے تعمیر کر کے وہاں عجائب گھر بنائے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر پشاور نے مکانات کی قیمت مختلف طریقوں سے مقرر کرتے ہوئے زمین (اراضی) اُور ملبے کا قیمت کے الگ الگ تخمینے جاری کئے ہیں۔ معروف قصہ خوانی بازار سے متصل (شمال کی جانب) نسبتاً بلند ’ڈھکی دالگراں‘ میں واقع ”کپور حویلی“ کا کل رقبہ لگ بھگ چھ مرلے (5184 مربع فٹ)۔ حویلی کی زمین کی قیمت ایک کروڑ پندرہ لاکھ سے زیادہ جبکہ ملبے کی قیمت کا تخمینہ 34 لاکھ سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ جائیداد کا مالک چاہتا ہے کہ ’کپور حویلی‘ کے اُسے کم از کم 2 ارب روپے ادا کئے جائیں! اِسی طرح قصہ خوانی بازار ہی سے متصل (مشرق کی جانب) محلہ خداداد میں ’دلیپ کمار‘ کا آبائی گھر واقع ہے جس کا کل رقبہ چار مرلے ہے۔ اس مکان کی تعمیرات والا حصہ 1077 مربع فٹ سے کچھ زیادہ جبکہ سرکاری طور پر مذکورہ اراضی (زمین) کی قیمت 72لاکھ 80ہزار سے زیادہ مقرر کی گئی ہے جبکہ دلیپ کمار کے آبائی گھر کے ملبے کی قیمت کا تخمینہ 7لاکھ 76ہزار روپے سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ اس حساب سے دلیپ کمار کے گھر کی قیمت 80لاکھ 56ہزار سے زیادہ مقرر کی گئی ہے۔ مذکورہ دونوں جائیدادوں کی کل قیمت 2کروڑ 30لاکھ اور 56ہزار روپے سے زیادہ مقرر کرنے کے بعد صوبائی حکومت سے اس سلسلے میں مالی وسائل (فنڈز) جاری کرنے کی درخواست ارسال کر دی گئی ہے اُور اُمید ہے کہ اگر فوری طور پر یہ رقم (دو کروڑ تیس لاکھ روپے) جاری نہ بھی کی گئی تو آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سیاحت کے لئے مالی وسائل الگ کرتے ہوئے اِن دونوں مکانات کے لئے پس و پیش کیا جائے گا تاہم فیصلہ سازوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ صرف ایک ہی مرتبہ رقم مختص کرنا کافی نہیں ہوگا اُور بات صرف دو یا ڈھائی کروڑ کی بھی نہیں بلکہ مذکورہ مکانات خریدنے کے بعد اُن پر تعمیرات اُور عجائب گھر کی صورت میں اُنہیں جاذب نظر بناتے ہوئے سیاحوں کے لئے سہولیات اُور تشہیر وغیرہ کے لئے بھی کروڑوں یا شاید اربوں روپے درکار ہوں گے۔

بھیڑ چال ہے۔ خیبرپختونخوا کے کئی سرکاری محکموں کی نظریں (فوکس) اُور ساری کی ساری توجہ دلیپ کمار اُور راج کپور کے آبائی گھروں پر لگی ہوئی ہیں اُور ہر محکمہ کچھ نہ کچھ حاصل (کمانے) کے چکر میں ہے۔ محکمہ مال کے منتظم صاحب بہادر (ڈپٹی کمشنر) نے زمینوں کی مالیت جبکہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو) ڈیپارٹمنٹ اس کے ملبے کی مالیت کا تخمینہ لگایا ہے اُور تعمیروبحالی کا کام محکمہ آثار قدیمہ کی زیرنگرانی ہو گا جس کے بعد ممکن ہے کہ اِسے سیاحتی ترقی کے صوبائی محکمے کے حوالے کر دیا جائے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اگر صوبائی حکومت کی جانب سے بنا تاخیر مطلوبہ دو کروڑ تیس لاکھ روپے سے زائد رقم فراہم کر دی جاتی ہے اُور مالک مکان کی جانب سے قانونی کاروائی آڑے نہیں آتی تب بھی مکانات کو قبضہ صوبائی حکومت کے پاس آنے میں کم سے کم ’چھ ماہ‘ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ دلیپ کمار اُور راج کپور خاندانوں کے لئے اُن کے آبائی گھروں کی خاص اہمیت ہے اُور وہ جب بھی پاکستان آئے اپنے آبائی گھروں کی قدم بوسی کے لئے پشاور کے دورے کے خواہشمند رہے۔ کپور خاندان کا اپنے آبائی گھروں سے عقیدت و محبت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کپور حویلی کی مٹھی بھر مٹی اپنے ساتھ لے گئے تھے! مذکورہ دونوں مکانات کی خریداری‘ بحالی اُور عجائب گھروں میں منتقلی کے بعد بھی اِن کی نسبت و شناخت دلیپ کمار اُور کپور حویلی ہی کے طور پر رہے گی‘ جس میں سرمایہ کاری کے لئے اگر ارب پتی دلیپ کمار اُور کپور خاندان کے افراد سے رابطہ کیا جائے تو اِس سے نہ صرف دونوں خاندان عجائب گھر میں رکھنے کے لئے خاندان کی یادگار اشیاء(نوادرات) عطیہ کریں گے بلکہ ممکن ہے کہ اُن کی جانب سے مکانات کی خریداری اُور بحالی کے جملہ اخراجات بھی برداشت کر لئے جائیں۔ سرمایہ کاری کا دوسرا امکان یہ ہے کہ دونوں مکانات ’گندھارا ہندکو بورڈ (gandharahindko.com)‘ کے ذریعے خریدے اُور بحال کئے جائیں اُور اُنہی کے زیرنگرانی عجائب گھر میں تبدیل کئے جائیں۔ مذکورہ ’ہندکو بورڈ‘ نہ صرف پشاور کی قدیمی مقامی زبان کے تحفظ کی تحریک ہے بلکہ یہ روشن خیال ادارہ پشاور کے علمی‘ ادبی‘ تاریخی و ثقافتی ورثوں کا محافظ بھی ہے۔ یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ پشاور کو ’ہندکو بورڈ‘ سے زیادہ اچھا اُور گہرائی سے کوئی دوسرا حکومتی‘ نیم حکومتی ادارہ‘ غیرسرکاری ادارہ یا تنظیم نہیں سمجھ سکتی۔


اَشک بن کر جو چھلکتی رہی‘ مٹی میری
شعلے کچھ یوں بھی اُگلتی رہی‘ مٹی میری
کچھ تو باقی تھا مری مٹی سے رشتہ میرا
میری مٹی کو ترستی رہی‘ مٹی میری
(شاعر:دوجیندر دوج)

....

Editorial Page - Daily Aaj -Peshawar/Abbottabd - Dec 12, 2020 Saturday

Clipping from Daily Aaj - Editorial Page - Daily Aaj - Dec 12, 2020 Sat


No comments:

Post a Comment