ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پاکستان سٹیزن پورٹل
تین ٹوئیٹر پیغامات لائق توجہ ہیں۔ پہلا پیغام: ٹوئیٹر صارف حسن خاور (@HasaanKhawar) لکھتے ہیں ”میں نے تجرباتی طور پر سٹیزن پورٹل پر ایک شکایت درج کروائی اُور اُس پر فوری ردعمل حقیقت میں قابل ستائش ہے۔“ دوسرا پیغام: پاکستان تحریک انصاف کے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ (@PTIofficial) سے کہا گیا ہے کہ ”سٹیزن پورٹل ’انقلابی اقدام‘ ہے‘ جس میں عام آدمی اپنی شکایت وزیراعظم تک پہنچا سکتا ہے۔“ تیسرا پیغام: سٹیزن پورٹل کے نگران ادارے ’پرفارمنس ڈیلیوری یونٹ (@PakistanPMDU)‘ کا کہنا ہے کہ ”2 سال کے عرصے میں پورٹل کے ذریعے 30 لاکھ شکایات درج ہوئیں جو عوام کے اعتماد کا مظہر ہیں اُور اِن شکایات میں سے 94فیصد حل کی جا چکی ہیں۔“ مذکورہ تینوں پیغامات 4 دسمبر (دوہزاربیس) کے روز چھ گھنٹے کے دوران اِرسال کردہ اُن ہزاروں تبصروں (trends) کا حصہ ہیں جو ’سٹیزن پورٹل‘ سے متعلق حکومتی سرپرستی میں شروع کئے گئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ”نیشنل آئی ٹی بورڈ‘ حکومت پاکستان“ کی جانب سے جاری کردہ ’پاکستان سیٹرن پورٹل (Pakistan Citizen Portal)‘ نامی موبائل فون ایپلی کیشن (app) 10 لاکھ سے زیادہ صارفین ’گوگل پلے سٹور‘ سے حاصل (ڈاون لوڈ) کرچکے ہیں۔ مذکورہ ایپ سے استفادہ کرنے کے لئے کسی صارف کے پاس سمارٹ فون‘ موبائل فون کنکشن‘ قومی شناختی کارڈ نمبر اُور انٹرنیٹ جیسی چار بنیادی ضروریات ہونی چاہیئں کیونکہ مختلف مراحل پر صارف کے حقیقی ہونے کی تصدیق کی جاتی ہے۔ گوگل درجہ بندی (رٹینگ سسٹم) کے حساب سے سٹیزن پورٹل کے اینڈرائیڈ صارفین کی جانب اِس ایپ کو ’تھری سٹار‘ ملے ہیں یعنی صارفین کی نصف سے زیادہ تعداد نے اِسے پسند کیا ہے۔ پسندیدگی کا یہ عالمی معیار (تھری سٹارز) اگر زیادہ اچھی نہیں تو زیادہ بُری بھی نہیں۔ ایک ستارہ (star) کا مطلب کم ترین جبکہ اگر کسی ایپ کو پانچ ستارے (5-Stars) ملیں تو یہ اُس کی انتہائی مقبولیت کی علامت ہوتی ہے۔ اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر پندرہ لاکھ کے قریب اینڈرائیڈ اُور آئی فون صارفین سٹیزن پورٹل کو اب تک حاصل کر چکے ہیں جبکہ اِس کے فعال صارفین (زیرغور شکایات) کی تعداد دو لاکھ کے قریب ہے۔ مذکورہ ایپ کو زیادہ سے زیادہ آسان (یوزر فرینڈلی) بنانے کے لئے 3 ہزار 796 سرکاری محکموں کی درجہ بندی 20 گروپوں میں کی گئی ہے اُور اِن کی کارکردگی سے متعلق شکایات درج کرانے کا عمل (پاکستان سٹیزن پورٹل) 28 اکتوبر 2018ءسے جاری ہے۔ اِس متعلق افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ”عوام ’اِظہار رائے کا موقع‘ دے کر اَمور مملکت میں شریک (حصہ دار) بنا لیا گیا ہے۔“
سٹیزن پورٹل پر شکایات درج کرانے کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے انسداد رشوت ستانی کو بھی درجہ بندی میں شامل کر لیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے چار دسمبر (دوہزاربیس) کے روز اعلان کیا ہے کہ ”غلط کام کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل یا اُن کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اُنہیں سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا جائے گا۔ اگرچہ ایسی کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں جس میں بقول وزیراعظم ”غلط کام“ کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو مثالی و عبرت ناک سزائیں دی گئی ہوں بلکہ عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ ’پلی بارگین‘ کے ذریعے مقدمات طے کرتے ہوئے اپنی بدعنوانیاں تسلیم کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو بھی اُن کے عہدوں پر بحال کیا گیا بلکہ اُنہوں نے محکمانہ ترقیاں پائیں اُور پہلے سے زیادہ مالی و انتظامی اختیارات کے نگران مقرر کئے گئے۔ سٹیزن پورٹل کے بارے میں عمومی تصور یہ ہے کہ اِس کے ذریعے ذاتی شکایات درج کروائی جاتی ہیں اُور لوگوں کے ذاتی مسائل حل ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں لیکن وزیراعظم تک رسائی کے بعد عوام کے ذاتی تجربات سے زیادہ قومی مفادات کے تحفظ پرتوجہ ہونی چاہئے جیسا کہ رواں برس (سال 2020ءکے دوران) ’انٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ خیبرپختونخوا‘ نے مجموعی طور پر ”925 کنال 11 مرلے“ اراضی کو غیرقانونی قبضے سے واگزار کرائی‘ جس کی مالیت 96 کروڑ روپے سے زیادہ بیان کی گئی تو معلوم ہواکہ عام آدمی پر ظلم کی کوئی ایک صورت یا کوئی ایک محکمہ یا فرد ذمہ دار نہیں بلکہ یہاں پٹوار خانے سے مال خانے اُور تھانے کچہری و جامعات تک استحصال و زیادتی کے لاتعداد واقعات اکثر دیکھنے اُور سننے میں آتے ہیں۔ سٹیزن پورٹل اُن حالات میں عوام کے مسائل حل کرنے میں کارگر (موثر) حربہ ثابت ہو سکتا ہے جہاں سرکاری محکموں میں جرائم رازداری اُور انتہائی پیچیدہ طریقے (مہارت) سے سرانجام دیئے جا رہے ہوں۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ رشوت ستانی‘ نااہلی‘ خردبُرد‘ آمدن سے زائد اثاثہ جات‘ اختیارات کے عوض ذاتی مفادات کا حصول‘ عام آدمی (ہم عوام) کا استحصال اُور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات سرعام رونما ہو رہے ہیں اُور اِن کی تعداد اِس قدر زیادہ ہے کہ جرائم کا شمار و بیان بھی ممکن نہیں! ایسی صورت میں وفاقی یا صوبائی فیصلہ ساز اپنے اپنے ’سٹیزن پورٹلز‘ جیسے باسہولت وسیلوں پر ’کلی انحصار‘ کرنے کی بجائے اگر خفیہ اداروں کے ذریعے کاروائیاں کریں تو 2 سال بعد امور مملکت (طرزحکمرانی) اُس نہج پر رواں دواں ہو سکتی ہے جہاں کوئی شکایت کرنے والا نہ ملے اُور پھر شکایت کرنے والے سے اُس کی شناخت بھی نہ پوچھی جائے۔
فیصلہ سازوں کو اِس پہلو پر بھی سوچنا چاہئے کہ سٹیزن پورٹل کے ذریعے جب شکایت کرنے والے کے کوائف خفیہ نہیں رکھے جاتے تو بڑی مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے بارے میں مطلع کون کرے گا جن سے عوامی و قومی مفادات کو منظم انداز میں نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ افسر شاہی (سرکاری اہلکار بیوروکریسی) ایک دوسرے کے مفادات کی محافظ ہے اُور اِس آپسی اتحاد کے باعث کسی بھی اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے‘ عوامی شکایات کے داخلی و نگرانی کے وضع کردہ جملہ طریقے (قواعد و ضوابط) ناکام (بے سود) ثابت ہوئے ہیں بالکل اِسی طرح ’پاکستان سٹیزن پورٹل‘ کے ذریعے بھی وفاقی حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا سلسلہ جاری ہے اُور جن 94فیصد عوامی شکایات کے حل کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اگر اُن کی آزاد ذرائع سے تصدیق کروائی جائے تو دودھ کا دودھ کا پانی کا پانی واضح ہو جائے گا کہ کس کس طرح جھوٹ بولا گیا ہے اُور کس جعل سازی سے خود ہی شکایات درج کروا کر اُنہیں حل کر کے مختلف محکموں نے اپنی کارکردگی کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا جبکہ وہ حقیقت میں وہ زمین کی پستیوں سے بھی پست ہیں!
کہاوت ہے کہ ”جھوٹ کے سر اُور پاوں (منطقی جواز) نہیں ہوتے“ لیکن ’پاکستان سٹیزن پورٹل‘ پر جھوٹ پورے وجود (شباب) سے حاوی ہے اُور اِس ناکام تجربے کو کامیاب ثابت کرنے پر مزید مالی اُور وقت جیسے قیمتی وسائل و توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے اگر خفیہ اداروں کو متحرک کیا جائے تو اُن سبھی چھوٹی بڑی مچھلیوں کو مزید مہلت دیئے (کم وقت اُور کم خرچ میں) پکڑا جا سکتا ہے‘ جنہوں نے پورے تالاب کو گندا کر رکھا ہے۔
....
![]() |
Editorial Page - Daily Aaj Peshawar /Abbottabad - Dec 06, 2020 - Sunday |
![]() |
Clipping from Editorial Page - Daily Aaj Peshawar /Abbottabad - Dec 06, 2020 - Sunday |
No comments:
Post a Comment