تحریک .... آل یاسین
آزادیءاظہار و بیاں
ملک بھر کے ایوان ہائے صحافت (پریس کلب) اُور ذرائع ابلاغ کے کارکنوں کی نمائندہ تنظیموں (یونین آف جرنلسٹس) نے ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کے نام سے مجوزہ قانون مسترد کیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ صحافیوں اُور صحافتی اداروں کے درمیان اِس سے قبل ایسا اتفاق بہت ہی کم دیکھنے میں آیا ہے کہ جب اتنی بہت ساری دانشور تنظیمیں ایک دوسرے کی رائے سے متفق ہوئی ہوں اُور اِنہوں نے آپسی اختلافات بالائے طاق رکھے ہوں۔ درحقیقت صحافیوں کو جس ایک بات پر سوچنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اِن کے اتحاد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آپسی اختلافات کی وجہ سے بہت سارے ایسے امور ہیں‘ جو مسائل اُور بحرانوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اُور اَکثر غلط فہمیاں بھی پیدا ہوتی ہیں‘ جن سے پاکستان کے بارے میں یہ ’منفی تاثر‘ اُبھرتا ہے کہ جیسے یہاں ’آزادی صحافت‘ نہ ہو حالانکہ جس قدر اظہار کی آزادی پاکستان میں ہے شاید ہی دنیا کے کسی بھی نظریاتی ملک میں ہو کہ یہاں صحافی ہونے کے لئے متعلقہ شعبے کی تعلیم کا ہونا تک ضروری نہیں! تعجب خیز ہے کہ جو صحافتی علوم و نظریات سے متعلق خاطرخواہ تعلیم یافتہ نہیں‘ اُنہوں نے صحافت سے متعلق فیصلہ سازی کو تابع فرمان بنا رکھا ہے اُور ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ مادر پدر آزاد صحافت کے مقابلے اگر ذمہ دار صحافت فروغ پاتی ہے تو اِس سے بہت سارے صحافت کی آڑ میں ہونے والی سیاست ختم ہو جائے گی بالخصوص وہ کردار کیا کریں گے جنہیں سیاستی و ریاستی صحافت کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں آتا؟ ”کروں گا کیا جو ’محبت‘ میں ہو گیا ناکام .... مجھے تو اُور کوئی کام بھی نہیں آتا (غلام محمد قاصر)۔“
اختلاف موجود ہے۔ صحافیوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کے قیام کو ضروری سمجھتی ہے اُور اِس سلسلے میں وفاقی حکومت کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے مجوزہ ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کو خطرہ نہیں بلکہ ملکی حالات کے مطابق ضروری سمجھتی ہے۔ اِس سلسلے میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“کی حمایت میں جن صحافیوں کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں‘ اُنہوں نے مذکورہ مجوزہ قانون کی حمایت کا یقین دلایا ہے لیکن قومی سطح پر صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ”پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)“ کا کہنا ہے ”چند صحافیوں کی رائے کو ملک بھر کے صحافیوں کا مو¿قف نہیں سمجھنا چاہئے۔“ ذہن نشین رہے کہ ’پی ایف یو جے‘ کے نام سے پاکستان میں کم سے کم 5 تنظیمیں فعال ہیں اُور اِن سبھی تنظیموں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ صحافیوں کی ترجمان اُور سب سے زیادہ صحافیوں کی رکنیت رکھنے والی تنظیمیں ہیں اُور اِن میں شامل ’پی ایف یو جے‘ مجوزہ قانون آزادی اظہار رائے کو دبانے کے مترادف قرار دیتی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پروفیشنل گروپ) کے نام سے حال ہی میں بنائی گئی تنظیم کے منتخب صدر مظہر اقبال نے وفاقی وزیراطلاعات سے ملاقات کی تھی۔ مظہراقبال کے بقول ان کی تنظیم کے حال ہی میں انتخابات ہوئے‘ جس میں انہیں بطور صدر منتخب کیا گیا لیکن یہ معلوم نہیں ہوا کہ ’پی ایف یو جے پروفیشنل‘ کے انتخابات ملک کے کس پریس کلب میں ہوئے‘ البتہ اُن کی حلف برداری کی تقریب رواں برس ہی نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں منعقد ہوئی تھی۔ دوسری طرف نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی جانب سے وضاحت آئی ہے کہ پریس کلب میں ’پی ایف یو جے پروفیشنل‘ کی حلف برداری کی باقاعدہ تقریب منعقد نہیں ہوئی البتہ یہ ممکن ہے کہ ’نیشنل پریس کلب‘ میں کسی جگہ مل بیٹھ کر پانچ دس لوگوں نے ایک دوسرے سے حلف لے لیا ہو۔“
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ 13 ’یونین آف جرنلسٹس‘ کے نمائندوں پر مشتمل ہے جس کے اراکین کراچی‘ لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ اسلام آباد اور راول پنڈی کے علاؤہ سکھر‘ رحیم یار خان‘ گوجرانوالہ‘ ایبٹ آباد‘ بہاولپور اُور علاقائی سطح پر موجود ہیں۔ ’پی ایف یو جے‘ کے انتخاب کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات ہوتے ہیں جس کے ساتھ یونین کے نمائندوں جنہیں ’ڈیلیگیٹس‘ کہا جاتا ہے کا انتخاب ہوتا ہے اُور یوں صوبائی اُور علاقائی سطح پر فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے عہدیداروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یہ مراحل اعلانیہ (پورے اہتمام سے) سرانجام پاتے ہیں اُور انتخابات سے تین ماہ قبل فیڈرل ایگزیکٹیو کونسل بنائی جاتی ہے‘ جو انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنے کے ساتھ انتخابی کمیٹی بھی تشکیل دیتی ہے جو آئندہ انتخابی مراحل کی نگرانی کرتی ہے۔ پی ایف یو جے کے عہدیداروں کے ہر دو سال کے بعد انتخابات ہوتے ہیں اور آخری انتخابات کراچی میں ہوئے تھے۔ 'پی ایف یو جے 'کا صحافیوں کی ’حقیقی نمائندہ تنظیم‘ ہونے کے بارے میں اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ انسانی حقوق کی نمائندہ تنظیم (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان )کے علاؤہ پاکستان بار کونسل اور سپرئم کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی اِن کی حیثیت تسلیم کرتی ہیں اور صرف صحافی ہی نہیں بلکہ دیگر تنظیمیں بھی مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے قیام کی مخالف ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ صرف صحافتی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ ٹیلی ویژن چینلز (براڈکاسٹ ایسوسی ایشن) اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے مالکان نے بھی مجوزہ قانون کو مسترد کر رکھا ہے اور اس قانون کے خلاف اعلانات شائع کئے ہیں کیونکہ یہ قانون مبینہ طور پر ’بولنے کی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔‘ مجوزہ قانون کے مندرجات میں صحافتی تنظیموں کو جن شقوں پر اعتراض ہے ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمام اختیارات اس اتھارٹی میں شامل گیارہ افراد کے پاس ہوں گے اور اس اتھارٹی کا چیئرمین گریڈ اکیس یا بائیس کا سرکاری افسر ہوگا جس کا انتخاب صدر مملکت کریں گے جبکہ اس اتھارٹی میں ہر صوبے کا ایک ایک نمائندہ ہوگا جس کا انتخاب بھی صدر وفاقی حکومت کی سفارشات کی روشنی میں کریں گے۔ اس کے علاؤہ کمیٹی میں سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری اطلاعات بھی شامل ہوں گے۔ کمیٹی کو حکومت کی طرف سے جو ذمہ داری (ٹاسک) دیا جائے گا وہ اس کو پورا کرنے کی پابند ہوگی جبکہ یہ کمیٹی جو ٹربیونل بنائے گی وہ اکیس روز میں فیصلہ سنانے کا پابند ہوگا اور یہ جو بھی فیصلہ کرے گا اس پر اعتراض کی صورت عدالت عظمی (سپرئم کورٹ)سے رجوع کیا جا سکے گا۔ روایت ہے کہ نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر مملکت قانون ساز ایوانوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہیں‘ جس کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا لیکن صحافتی تنظیموں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اِس موقع پر مجوزہ ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کے خلاف احتجاج کریں گے۔
....
No comments:
Post a Comment