Thursday, August 26, 2021

Tale of gradens!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: .... جاری ہے سفر

شاید یہ مغلیہ عہد (16ویں اُور 17ویں صدی) میں بنائے جانے والے باغات تھے‘ جن کی وجہ سے پشاور کو ’پھولوں کا شہر‘ اُور چند تاریخی حوالوں میں ’ست رنگی شہر (رینبو سٹی)‘ کہا گیا اُور یہ بات زیادہ پرانی یا نرالی بھی نہیں کہ جب پشاور کے پھل پھول‘ سبزی‘ یہاں کا دنداسہ‘ جڑی بوٹیاں اُور زرعی سوغات کی دھوم دنیا میں ہوتی تھی جو اپنے معیار کی وجہ سے بھی پہچانی جاتی تھیں اُور یوں پشاور ایک ”brand-name“ ہوا کرتا تھا‘ جس کا ذکر بطور استعارہ نغمیہ شاعری بھی ملتا ہے۔ پشاور کے کاروباری معمولات کا حصہ ہوا کرتا تھا کہ سڑک کنارے ٹوکروں کی صورت (بڑی مقدار) میں پھول فروخت کئے جاتے تھے اُور اہل شہر کی ایک تعداد کا دن کے اختتام پر پھولوں کے گجرے و ہار ساتھ لیجانا نہیں بھولتے تھے۔ یہ بات بھی زیادہ پرانی نہیں کہ پشاور کے گلاب اِس قدر خوشبودار ہوتے کہ اِنہیں مٹی کے گھروں میں ڈال دیا جاتا اُور سارا دن ’عرق ِگلاب‘ کے مزے لئے جاتے۔ اگرچہ بہت سی روایات نہیں رہیں لیکن چند ایک رواج آج بھی باقی ہیں جن میں خوشی و غم کے مواقعوں پر پھولوں کے ہار اُور اُوڑھنیاں استعمال کی جاتی ہیں تاہم اِن کی قیمتیں عام آدمی کی قوت ِخرید سے زیادہ ہیں کیونکہ پھولوں کی طلب (مانگ) زیادہ اُور مقامی پیداوار کم ہے۔ پشاور کی باعث ِکشش خوبیاں ایک ایک کر کے کھو رہی ہیں۔ حالیہ چند برس میں ’بڑا نقصان‘ یہ ہوا ہے کہ پشاور کی فضا جو کبھی پھولوں کی خوشبو سے معطر ہوا کرتی تھی اُور پشاور کے آب و ہوا کی یہ خوبی بھی دم توڑ گئی ہے کہ یہاں کا پانی زود ہضم ہوا کرتا تھا اُور اب صورتحال یہ ہے کہ پشاور میں ’صاف پانی‘ ملنا ممکن نہیں رہا اُور اندرون شہر رہنے والوں کے ہاں بوتلوں میں بند پانی استعمال ہوتے دیکھا گیا ہے۔ نقصان سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اِس خسارے کا فیصلہ سازوں کو رتی بھر بھی احساس نہیں ورنہ پشاور کی پہلی ضرورت تو پینے کا صاف پانی ہے؟

تاریخ میں چرچا بھی بہت ہے اُور پشاور کے نام بھی بہت ہیں جن میں سے ایک سنسکرت لفظ ’پرشاپورا یا پرشپورہ‘ بھی ہے‘ جس کے معنی ’پھولوں کے دیس‘ کے بنتے ہیں۔ تاریخ کے سینے میں تذکرہ محفوظ ہے کہ جب مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر (1505ئ) درہ¿ خیبر کے راستے فتوحات کرتا ہوا پشاور پہنچا اُور چند برس یہاں قیام کے دوران اُس نے مقامی افراد کی اکثریت کے معمولات پر غور کیا جن کی اکثریت زراعت پیشہ تھی اُور یہ پشاور شہر کی فصیل سے باہر کھیتی باڑی میں مشغول رہتے تھے تو اُس نے یہاں کی زرخیز مٹی اُور موافق موسم کی موجودگی کو بھانپ لیا اُور یہی وجہ تھی کہ اُس وقت کے بہترین سے بہترین وسائل کا استعمال کرتے ہوئے شاہکار ’شاہی باغ‘ اُور ’وزیر باغ‘ تعمیر کئے گئے‘ جن کی باقیات اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں اُور صرف مغل ہی نہیں بلکہ اِن کے بعد برطانوی راج کے دوران بھی پشاور کے باغات میں کمپنی باغ اُور کنگھم پارک (جناح پارک) کا اضافہ ہوا لیکن افسوس کہ یہ سبھی (برائے نام) باغات اپنے حسن اُور افادیت کھو چکے ہیں اُور یہی سبب ہے کہ پشاور کی آب و ہوا کی خصوصیات بھی اپنا توازن برقرار رکھ پائی ہیں۔ 

سال 2016ءمیں پہلی مرتبہ عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے پشاور کو دنیا کو دوسرا ”آلودہ ترین“ شہر قرار دیا تھا اُور تب سے آج تک وقت جمود طاری اُور پشاور کی آب و ہوا کو بہتر بنانے کی نمائشی کوششیں جاری ہیں جن کے خاطرخواہ نتائج اِس لئے بھی برآمد نہیں ہو رہے کیونکہ پشاور میں زراعت اُور پشاور کے باغات کو اُن کی اصل شکل میں بحال نہیں کیا جا سکا۔ حکومت نے زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی اراضی پر رہائشی بستیاں بنانے پر اگرچہ پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن یہ عمل جاری و ساری ہے۔ پشاور میں ہر قسم کی گاڑیوں سے پیدا ہونے والے دھویں اُور گردوغبار میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ شمار ممکن نہیں کہ پشاور میں ماحول دشمن گاڑیوں کی کل تعداد کتنی ہے البتہ ایسی گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے جن سے زہریلا دھواں اُگلتا نظر آتا ہے اُور یہ صرف ایک ظاہری علامت ہے جبکہ پشاور کے اطراف میں اینٹوں کے بھٹے‘ صنعتوں سے خارج ہونے والا دھواں‘ کیمیائی مادوں کی وجہ سے زیرزمین پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے! پشاور پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہر دن پشاور میں قریب 7 لاکھ گاڑیوں داخل یا خارج ہوتی ہیں۔ 35 ہزار رجسٹرڈ 2 سٹروک گاڑیاں اُور آٹو رکشہ فضائی و صوتی آلودگیوں کا الگ سے باعث ہیں۔ بہت پرانی بات نہیں جب برطانیہ کی جامعہ (یونیورسٹی آف کیمبرج) سے وابستہ پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر آصف خان نے خیبرپختونخوا کی فضا میں پائی جانے والی مضر گیسیوں کے بارے ایک تحقیق کی جس سے معلوم ہوا کہ فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ گاڑیاں (موٹریں‘ بسیں اُور ٹرک) ہیں۔ مذکورہ تحقیق ’پاکستان فورسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ کے لئے کی گئی تھی جس میں فضائی آلودگی کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں کی درجہ بندی کی گئی اُور اِن میں پشاور سرفہرست جبکہ مردان‘ ڈیرہ اسماعیل خان اُور ایبٹ آباد بالترتیب دوسرے تیسرے اُور چوتھے نمبر پر تھے۔

وزیرباغ اٹھارہویں صدی میں درانی راج کی یادگار ہے جسے 1810ءمیں سردار فتح محمد خان بارکزئی المعروف وزیر نے تعمیر کروایا تھا اُور اُنہی کے نام نامی سے ’وزیرباغ‘ مشہور ہوگیا۔ لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ ماضی میں پشاور کے حملہ آور اُور اِسے فتح کرنے والے یہاں آ کر باغات بناتے تھے۔ مسافروں کے ٹھہرنے کے لئے سرائے (عارضی قیام گاہیں) بنائی جاتی تھیں۔ کنویں‘ نہر اُور حوض بنائے جاتے تھے حتیٰ کہ پشاور کے سب سے بڑے نکاسی¿ آب کا منصوبہ (شاہی کٹھہ) بھی کسی مقامی اُور قومی رہنما کی ’پشاور سے دلی محبت‘ کا اظہار نہیں۔ ’احیائے پشاور‘ کے تحت سال2020ءمیں شاہی باغ کی خوبصورتی و بحالی کے لئے صوبائی حکومت نے 10 کروڑ روپے جیسی خطیر رقم مختص کی لیکن مذکورہ ترقیاتی کام انتہائی سست روی سے جاری ہے جبکہ اہل علاقہ (عینی شاہدین) کا دعویٰ ہے کہ وزیرباغ کی خوبصورتی اُور بحالی کے نام پر قدیمی درخت کاٹ دیئے گئے ہیں۔ تحریک اِنصاف کے دور میں ہونے والی بے قاعدگیاں (ترقیاتی کام کی سست روی اُور درختوں کی کٹائی) پہلی مرتبہ رونما نہیں ہو رہے بلکہ ماضی میں ایک موقع پر وزیرباغ میں اِس قدر بڑی تعداد میں درخت کاٹے گئے کہ پورا اِسے ”گنجا باغ“ کہا جانے لگا اُور جب ذرائع ابلاغ نے واویلا کیا تو راتوں رات درختوں کے نمونے لگائے گئے‘ جنہوں نے ابھی پورا قد کاٹھ نکالا بھی نہیں تھا کہ اُنہیں بھی کاٹ ڈالا گیا ہے۔ حال ہی میں شروع ہوئی مون سون شجرکاری کے دوران وزیرباغ کا انتخاب کیا گیا ہے‘ جو کہ خوش آئند ہے تاہم کسی درخت کو لگانے اُور اِس کے اپنے وزن پر کھڑا ہونے (پلنے بڑھنے) میں سالہا سال کی حفاظت درکار ہوتی ہے۔ یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ صرف درخت لگانے سے ماحولیاتی (فضائی) آلودگی کم یا ختم نہیں ہوگی بلکہ درختوں کے ساتھ ماحولیاتی تنوع (ایکوسسٹم) کو بھی بحال ہونے کے لئے گنجائش (space) اُور توجہ (وقت) دینا ہوگا۔ وزیرباغ کی اراضی تین اطراف میں تجاوز کر کے قبضہ کی گئی ہے‘ جس میں ٹاو¿ن ون کے دفاتر‘ سکول‘ ٹیوب ویل‘ جنازہ گاہ‘ نجی رہائش گاہیں اُور سرکاری تعلیمی ادارہ قائم ہیں۔ ’احیائے پشاور‘ کے تحت ترقیاتی عمل اپنی جگہ اہم لیکن وزیرباغ کو تجاوزات سے پاک کرنے پر بھی غور ہونا چاہئے اُور اِس کے اصل رقبے کو بحال (واگزار) کرانے کے احکامات بھی صادر ہونے چاہیئں۔ پشاور نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا کہ جس کی اُسے اتنی بڑی (بھاری) سزا دی جائے۔ صوبائی و ضلعی فیصلہ سازوں سے درخواست ہے کہ پشاور کے اثاثوں میں شامل جملہ باغات بالخصوص وزیر باغ کی صرف خوبصورتی و بحالی ہی نہیں بلکہ اِن کی اصل حالت یعنی رقبے اُور تعمیراتی خوبیوں سے مزین شکل و صورت کو بھی بحال ہونا چاہئے۔ عین نوازش ہوگی۔
ذات سے شہر کی تلاش‘ سفر جاری ہے 
 جیسے ہو جرم کی پاداش‘ سفر جاری ہے

....






No comments:

Post a Comment