Sunday, August 22, 2021

Forgotten gates of Peshawar

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: مغوی دروازہ

شاعر منظور ہاشمی نے کہا تھا کہ ”اُمید و یاس کی رُت آتی جاتی رہتی ہے .... مگر ’یقین کا موسم‘ نہیں بدلتا ہے۔“ یقین کا یہی دورانیہ ’پشاور شناسی‘ کے ابواب میں تقسیم ہے اُور اِس کا ایک باب ’فصیل ِشہر پناہ‘ اُور اِس میں قائم ’سولہ دروازے‘ ہیں جن کی اہمیت کا اعتراف ہر حکومت کرتی ہے لیکن اِن کی بحالی و حفاظت کا فریضہ خاطرخواہ توجہ سے سرانجام نہیں پا رہا۔ توجہ طلب ہے کہ جب تک ’پشاور ڈسٹرکٹ اتھارٹی‘ قائم کرکے شہری سہولیات و خدمات اُور شہر کی توسیع سے متعلق امور کو مربوط نہیں کر دیا جاتا اُور اِسی بندوبست کے تحت قدیمی آثار و تعمیرات کی حفاظت و بحالی کے لئے عملی اقدامات نہیں کئے جاتے اُس وقت تک ’احیائے پشاور‘ کے عنوان یا مقصد سے کی جانے والی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد سیاحت اُور آثار قدیمہ کے محکمے بھی صوبائی حکومت کے زیرسایہ آ چکے ہیں لیکن اِن اداروں کو نہ تو خاطرخواہ افرادی و مالی وسائل حاصل ہیں اُور نہ ہی حکومتی اداروں کی فیصلہ سازی کو مربوط و مشروط کیا جا سکا ہے تاکہ وسائل کی بچت ہوں اُور حسب ضرورت‘ ترقیاتی کاموں کی پائیداری سے لیکر اِن کے نمائشی پہلوؤں کا جائزہ لینے پر بھی بہتر سے بہتر نتائج حاصل ہوں۔

’فصیل ِشہر کی بحالی‘ کے لئے جاری ’تازہ دم کوششوں‘ میں ضلعی فیصلہ ساز چاہتے ہیں کہ پشاور کے اُن دروازوں کو بھی دوبارہ تعمیر کیا جائے جو اگرچہ فی الوقت اپنا وجود کھو چکے ہیں لیکن اُن کا نام و نشان (تذکرہ) کتابوں اُور یاداشتوں میں محفوظ ہے۔ اِس طرح کی ایک کوشش سال 2012ءمیں بھی دیکھنے میں آئی تھی جب وزارت ِبلدیات کی مداخلت سے شہر کے 8 دروازوں (سرکی‘ کوہاٹی‘ یکہ توت‘ گنج‘ ہشت نگری‘ کابلی‘ ڈبگری اُور بیرسکو گیٹ) کو تعمیر کرنے میں نہ صرف غیرضروری عجلت کا مظاہرہ کیا گیا بلکہ اِس منصوبے پر اُٹھنے والے اخراجات کی تفصیلات بھی صیغہ راز میں رکھی گئیں اُور آج تک اہل پشاور کو معلوم نہیں ہو سکا کہ جن آٹھ دروازوں کو تعمیر کیا گیا اُن پر کل کتنی لاگت آئے تھی تاہم ’آف دی ریکارڈ‘ فراہم کی جانے والی معلومات کے مطابق ’آٹھ دروازوں‘ پر اُٹھنے والے اخراجات سے آٹھ مکانات تعمیر ہو سکتے تھے! بہرحال پشاور کے ترقیاتی امور میں ہونے والی ظاہری مالی بدعنوانیاں کی جھلک ہر حکومتی منصوبے میں ’ناپائیداری کی صورت‘ دیکھی جا سکتی ہے کہ کچھ منصوبے پہلی تو کچھ دوسری اُور آئندہ چند بارشوں کے پانی کیساتھ بہہ جاتے ہیں۔ 

ایک دفعہ کا ذکر ہے جب پشاور شہر فصیل کے اندر ہوتا تھا اُور اِس میں آمدروفت کے لئے سولہ دروازے ہوتے تھے۔ اِن میں 2 دروازے (سرد چاہ گیٹ اُور آسیہ گیٹ) آج بھی اپنی اصل شکل و صورت لیکن خستہ حالت میں موجود ہیں اُور اصولاً باقی ماندہ دروازوں اُور فصیل شہر کے ٹکڑوں کا فن تعمیر مدنظر رکھتے ہوئے نئی تعمیرات ہونی چاہیئں تھیں اُور یہ کام بالکل اُسی طرح محکمہ¿ آثار قدیمہ کی زیرنگرانی ہونا چاہئے تھا جس طرح گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر ثقافتی راہداری کی تعمیر‘ اُور سیٹھی ہاو¿س و گورگٹھڑی کی بحالی کے لئے متعلقہ محکمے (آثار قدیمہ) کے علم و دانش‘ تجربے اُور تربیت یافتہ افرادی قوت سے اِستفادہ کیا گیا لیکن راتوں رات (جلد اَز جلد) تعمیرات کی دھن میں گلی کوچوں کی فرش بندی کے اصول پر کرتے ہوئے ’روائتی طرز ِتعمیر‘ کا خیال نہیں رکھا گیا جو اِن دروازوں کی شان و اٹھان تھا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سرکاری خزانے سے مذکورہ آٹھ دروازوں کی تعمیرات پر وزیربلدیات اُور ناظمین کے ناموں کی تختیاں نصب کی گئیں اُور اِن دروازوں کو آج تک سیاسی و غیرسیاسی اعلانات کی تشہیر کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حیرت و تشویش کا مقام یہ بھی ہے کہ پشاور میں 2 غیرقانونی کام کرنے کی کھلم کھلا چھوٹ ہے۔ ایک تجاوزات اُور دوسرا پشاور کے تاریخی اثاثوں سے من چاہا استفادہ۔ پشاور سے متعلق فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والے ایک سے زیادہ بلدیاتی اِداروں کی مجموعی کارکردگی کا خلاصہ یہ ہے کہ پینے کے پانی کی فراہمی‘ صفائی اُور گندگی اُٹھانے کے لئے ایک الگ محکمہ ’واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسیز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی)‘ قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی جس کے غیرترقیاتی (اِنتظامی) اخراجات کا بوجھ بھی پشاور ہی کے کندھوں پر ہے۔ صوبائی حکومت اگر واقعی پشاور سے بھلائی کرنا چاہتی ہے تو ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے غیرترقیاتی اخراجات جن میں اہلکاروں کو حاصل مراعات‘ گاڑیاں‘ ایندھن‘ دفتروں کے کرائے‘ بجلی و دیگر یوٹیلٹی بلز کم کرنے پر توجہ دے۔ ڈبلیو ایس ایس پی کے دفاتر جہاں کرائے کی عمارتوں میں ہیں‘ اُنہیں سرکاری دفاتر میں ضم کرنے اُور بلدیاتی اداروں کے زیراستعمال گاڑیوں کو ’ٹرانسپورٹ‘ کے مرکزی دفتر کی زیرنگرانی کرنے سے وسائل کی غیرمعمولی بچت ممکن ہے۔

پشاور کے 8 دروازے اَنوکھے طرز ِتعمیر جبکہ 2 دروازے قدیمی تعمیرات کا نمونہ اُور باقی ماندہ 6 دروازوں (ریتی گیٹ‘ رام داس گیٹ‘ آسامائی گیٹ‘ رام پورہ گیٹ‘ کچہری گیٹ اُور باجوڑی گیٹ) کی اَزسرنو تعمیر پر سوچ بچار کے جاری عمل کو ماضی سے مربوط و مسلسل ہونا چاہئے۔ اطلاعات ہیں کہ ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ پشاور) نے مذکورہ 8 دروازوں کی تعمیر کے لئے صوبائی حکومت سے رابطہ کیا ہے تاکہ خصوصی ترقی کے لئے خصوصی مالی وسائل فراہم کئے جائیں اُور آئندہ تین ماہ (دوہزاراکیس کے اِختتام تک) ’فصیل شہر بحالی‘ نامی حکمت ِعملی کے تحت دروازوں کی گنتی پوری کر دی جائے لیکن پشاور کی جو کمی (نقصان) ہو چکا ہے وہ شاید کبھی بھی پورا نہیں ہو سکے گا کیونکہ فصیل شہر کا صرف 10 فیصد یا اِس سے بھی کم حصہ بچا ہے۔ صوبائی اُور بلدیاتی فصیلہ سازوں کو یہ سوال اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ جہاں فصیل شہر کا نام و نشان تک نہ رہا ہو‘ وہاں دروازوں کی موجودگی کیا معنی رکھتی ہے؟ اُور جہاں تک بات ”فصیل ِشہر پناہ“ میں دروازوں کی ہے تو یہ دیوقامت دروازے لکڑی سے بنے ہوتے تھے جن میں سے ایک آج بھی سابق ناظم کے حجرے میں نصب ہے چونکہ وہ دروازہ پشاور کی ملکیت ہے اُور اِس پر کسی بھی شخص کا حق نہیں اِس لئے صوبائی حکومت مذکورہ لکڑی سے بنا ہوا ”مغوی دروازہ“ واگزار کروائے اُور اُسے گورگٹھڑی کے اندر قائم ’سٹی میوزیم (پشاور شہر کے عجائب گھر)‘ میں رکھے تاکہ آنے والی نسلیں جن دروازوں کے تذکرے سے بذریعہ کتاب و مضامین آشنا ہیں‘ اُس کے عملی نمونے کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ سکیں اُور یہی آگہی ’پشاور شناسی‘ کے اُس مرحلے کو آسان کر سکتی ہے‘ جس کا تعلق شہری زندگی سے جڑی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے ہے کہ نئی نسل کو شہر کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے اِس کے اثاثہ جات کی حفاظت اُور یہاں کی معیشت و معاشرت میں ’پشاور کے حقوق‘ کا خیال رکھنے پر ذہنی و نفسیاتی طور پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ ’تحریک ِپشاور‘ کی ضرورت ہے‘ جو احیائے پشاور سے لیکر بقائے پشاور تک کے پہلووں (ضرورتوں) کا کماحقہ احاطہ کرے۔

....

Editorial Page of Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 22 August 2021 (Sunday)




No comments:

Post a Comment