ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
ماحولیاتی آلودگی اُور تجزئیات
خیبرپختونخوا میں تحریک ِانصاف کے پہلے دور ِحکومت (2013ءسے 2018ئ) کے دوران صوبے کی ’ماحولیاتی صورتحال اُور درپیش چیلنجز‘ پر مبنی 340 صفحات پر مشتمل جائزہ رپورٹ جاری کی گئی‘ جس کے تحت خیبرپختونخوا کی آب و ہوا کا مطالعہ پانچ اعشارئیوں (پیرامیٹرز) کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا جن میں ہوا‘ پینے کے پانی‘ زمین کے اُوپر دستیاب پانی کا معیار‘ مٹی کی زرخیزی اُور صوتی (noise) آلودگیوں کے حوالے سے الگ الگ معلومات و کوائف اکٹھا کئے گئے لیکن فیصلہ سازی میں اِن سے خاطرخواہ رہنمائی نہیں لی گئی۔ مذکورہ جامع کوشش تحفظ ماحول کے ادارے ”انوئرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے)“ نے 7 ڈویژنز (پشاور‘ مردان‘ کوہاٹ‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ہزارہ‘ مالاکنڈ اُور بنوں) کے صدر مقامات (مرکزی شہروں) سے اعدادوشمار اکٹھا کرنے کی صورت کی اُور اِس دوران (14 ہزار 825 ٹیسٹوں) سے متعلق تھے اُور انہیں جمع کرنے میں مذکورہ ادارے (اِی پی اے) کا تجربہ 3 دہائیوں سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ ماحولیاتی تجزئیات کا یہ سلسلہ ہر چند برس بعد کسی ایک جائزہ رپورٹ کے لئے نہیں بلکہ سال کے دیگر مہینوں میں کوائف جمع کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اُور عوامی شکایات ملنے کی صورت بھی کسی خاص علاقے میں ماحولیاتی تجزئیات کئے جاتے ہیں۔ سال2017ءمیں جاری کئے گئے ماحولیاتی جائزے کا خلاصہ یہ ہے کہ 1: خیبرپختونخوا کے کسی بھی ڈویژن میں ہوا کا معیار تسلی بخش نہیں اُور اِس میں آلودگیاں پائی جاتی ہیں جس کا بنیادی محرک موٹرگاڑیاں ہیں اُور تجویز کیا گیا کہ اگر گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے ایسی سڑکیں بنائی جائیں جن پر آمدورفت بنا رکے جاری رہے تو موٹر اُور دیگر گاڑیوں سے اخراج ہونے والے دھویں میں کمی آئے گی۔ 2: تشویشناک صورتحال پینے کے پانی سے متعلق بھی سامنے آئی‘ جو کئی ڈویژنز میں تسلی بخش پائی گئی لیکن خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پینے کے پانی کے غیرمعیاری ہونے کا یہ پہلو سامنے آیا کہ کوئی بھی ڈویژن ایسا نہیں تھا جہاں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے پانی میں بیکٹریائی آلودگی موجود نہ ہو اُور یہی وجہ بتائی گئی کہ خیبرپختونخوا میں پیٹ کے امراض کی شرح زیادہ ہے اُور اِس کا حل یہ بتایا گیا کہ عوام کو فراہم کئے جانے والے پانی کے نظام میں موجود خرابیوں کو دور کیا جائے۔ 3: سطح زمین پر موجود پانی کو آلودہ کرنے کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے نکاسی¿ آب کے منصوبوں کو صاف پانی سے الگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا اُور یہ نکتہ بطور خاص اُن شہری و دیہی علاقوں میں باآسانی دیکھا جا سکتا ہے جہاں آبپاشی اُور نکاسی¿ آب کے نظام ایک ہو چکے ہیں جیسا کہ پشاور کی حدود سے گزرنے والی نہروں کو دیکھا جا سکتا ہے کہ اُن سے نکاسی¿ آب کے لئے استفادہ اِس قدر عام ہے کہ اِس پر ’عدالت ِعالیہ‘ کو نوٹس لینا پڑا لیکن تاحال نہریں جو کہ آبپاشی کے لئے بھی استعمال ہو رہی ہیں لیکن اُن میں صنعتی و گھریلو کیمیائی مادے کھلے عام بہائے جاتے ہیں۔4: خیبرپختونخوا کے سات ڈویژنز (طول و عرض) میں جہاں کہیں بھی مٹی کے نمونے حاصل کئے گئے اُن کے تجزئیات سے معلوم ہوا کہ یہاں کی مٹی زرخیز ہے۔ تصور کریں کہ اگرچہ ماحولیاتی تجزئیات کے دیگر چاروں اعشاریئے (پیرامیٹرز) آلودگیوں سے بھرپور ہیں لیکن خیبرپختونخوا کی زرخیز مٹی اپنی جگہ موجود ہے جو کسی نعمت سے کم نہیں لیکن اِس کی خاطرخواہ قدر نہیں کی جارہی اُور آج بھی سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کو جہاں کہیں موقع ملتا ہے یہ زراعت کے مقابلے صنعتوں (کارخانوں) کو زیادہ مراعات دیتے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ خیبرپختونخوا کا چھوٹا کاشتکار‘ مزدور اُور کسان غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں اُور صورتحال اِس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اب زراعت منافع بخش محنت بھی نہیں رہی۔ 5: خیبرپختونخوا کے سات ڈویژنز میں صوتی آلودگی (Noise Pollution) عالمی سطح پر برداشت کی کم سے کم حد کے انتہائی قریب ہے جو تسلی بخش نہیں۔ اِس سلسلے میں تجویز کیا گیا صوتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے ہارن‘ پریشر ہارن‘ صنعتوں میں ساو¿نڈ پروفنگ اُور شاہراو¿ں کے اطراف میں بالخصوص شجرکاری میں اضافہ کیا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کے ماحول پر ’اِی پی اے‘ کے علاو¿ہ 9 دیگر حکومتی ادارے بھی نظر رکھتے ہیں اِن میں محکمہ¿ انہار (ایریگیشن)‘ زراعت (ایگری کلچر)‘ موسمیات (میٹرولوجیکل)‘ شماریات (اسٹیٹسٹکس)‘ تعلیم (ایجوکیشن)‘ صحت عامہ (پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ)‘ جنگلات (فارسٹ)‘ جنگلی حیات (وائلڈ لائف) اُور مچھلیوں کی افزائش کا ادارہ (فشریز) شامل ہیں۔
پشاور میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ¿ صحت (ڈبلیو ایچ اُو) کے مقررکردہ پیمانے سے تین گنا زیادہ ہونے کی وجہ غیرمنظم و منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری‘ پشاور کے وسائل پر آبادی‘ نقل مکانی کرنے والوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اُور یہاں پیدا ہونے والا یومیہ 2 ہزار 750 ٹن (27 لاکھ 50 ہزار کلوگرام) کوڑا کرکٹ ہے جس میں سے یومیہ 2200 ٹن کوڑا کرکٹ اُٹھایا جا رہا ہے جبکہ یومیہ 550 ٹن کوڑاکرکٹ باقی رہ جاتا ہے۔ علاو¿ہ ازیں (اندازہ ہے کہ) 10 ہزار ٹن کوڑا کرکٹ پشاور کے گلی کوچوں کا مستقل جز بن گیا ہے اُور یہ گندگی کے ڈھیر پشاور کی شہری و دیہی آبادی کے لئے مستقل خطرہ ہیں۔ کسی شہر یا مقام پر فضائی آلودگی اگر مقررہ حد سے زیادہ ہو جائے تو وہاں سانس لینا ’اِنسانی صحت‘ کے لئے خطرناک قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اِس سے سرطان (کینسر) اُور امراض ِقلب جیسی بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ اِسی طرح اگر پینے کا پانی آلودہ ہو تو اِس سے نظام ہضم اُور گردے متاثر ہو سکتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ پشاور کی 92 میں سے 43 یونین کونسلوں میں کوڑا کرکٹ اُٹھانے کی بنیادی ذمہ داری ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز (ڈبلیو ایس ایس پی)‘ نامی ادارے کی ہے جس کی یومیہ کوڑا کرکٹ اُٹھانے کی صلاحیت ایک ہزار ٹن ہے جبکہ کینٹ بورڈ (چھاو¿نی انتظامیہ) کی حدود سے 400 ٹن‘ ڈبلیو ایس ایس پی کے علاوہ پشاور کے چاروں ٹاو¿نز کے زیرانتظام باقی ماندہ یونین کونسلوں میں 1350ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہے لیکن کوڑا کرکٹ یکجا کرنے اُور اِسے تلف کرنے کی مجموعی (زیادہ سے زیادہ) صلاحیت 2 ہزار ٹن ہے۔ حکومتی اداروں کا ماننا ہے کہ 200 ٹن (2 لاکھ کلوگرام) کوڑا کرکٹ کباڑی اُٹھا لیجاتے ہیں اُور یوں یومیہ پانچ لاکھ کلوگرام کوڑا کرکٹ نہیں اُٹھایا جاتا جس کی اکثریت نالے نالیوں میں بہا دی جاتی ہے۔ اِس بے قاعدگی کے باعث پشاور شہر سے نکاسی¿ آب کا نظام کوڑا کرکٹ سے بھر گیا ہے اُور یوں پشاور سے 2 ملی میٹر (0.07 انچ) سے زیادہ ہونے والی بارش کے پانی کی مکمل نکاسی نہیں ہوتی اُور پورا شہر ڈوب جاتا ہے۔ حکومتی اداروں کے اشتراک ِعمل سے مرتب ہونے والے جامع تجزئیات ہوں یا اعدادوشمار‘ پشاور کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ منصوبہ بندی کے مراحل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی وجہ سے‘ پشاور کی آب و ہوا اُور سطح زمین نہ صرف آلودہ ہیں بلکہ ماحول کو تباہ کرنے والی اِس آلودگی میں ہر دن اِضافہ ہو رہا ہے۔
....
No comments:
Post a Comment